انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** ۸)۔نُورالدین ابالحسن الہیثمی (۸۰۷ھ) قاہرہ میں پیدا ہوئے اور وہیں فوت ہوئے، ابوالفتح میددی، ابن ملوک، ابن قطروانی، سے مصر میں اور ابن الحموی اور ابن قیم ضیائیہ سے شام میں استفادہ کیا، زین الدین عراقی (۸۰۶ھ) کے ہمیشہ رفیق رہے، حجاز وشام کے سفر انہوں نے اکٹھے کیئے "مجمع الزوائد ومنبع الفوائد" جیسی عظیم کتاب انہی کی تالیف ہے،اس میں آپ نے مسند امام احمد، طبرانی کے تین معجموں، مسند بزار اور زوائد ابی یعلیٰ سب کتابوں کوجمع کردیا ہے، یہ کتاب مطبع انصار دہلی سے سنہ ۱۳۰۸ھ میں؛ پھرمصر سے سنہ۱۳۵۲ھ میں دس ضخیم جلدوں میں شائع ہوچکی ہے۔ حافظ ابن حجرعسقلانی (۸۵۲ھ) نے نصف "مجمع الزوائد" ان سے پڑھی، مجمع الزوائد میں آپ نے کہیں کہیں راویوں پر جرح ونقد بھی کی ہے اور روایات پرصحت وسقم کا حکم بھی لگایا ہے، ان میں سے بعض امور میں حافظ ابن حجر کواختلاف تھا؛ لیکن آپ نے ان کے احترام میں اس پر کچھ نہیں لکھا، حافظ ابن حجر آپ کی حدیثی مہارت کے پوری طرح قائل تھے، آپ نے حافظ ابونعیم کی کتاب "الحلیہ" کو بھی ابواب پر مرتب کیا اور یہ بھی حدیث کی بڑی خدمت تھی، علماء میں آپ زین الدین العراقی صاحب "المغنی عن حمل الاسفار فی تخریج مافی الاحیاء من الآثار" کے جانشین کے طور پر مشہور تھے۔ ابن اثیرجزری (۶۰۶ھ) کے جامع الاصول اور نورالدین الہیثمی کے مجمع الزوائد سے جمع الفوائد لکھی گئی، جومطبع خیریہ میرٹھ سے سنہ۱۳۴۵ھ میں شائع ہوئی؛ یہاں کتابوں کا تذکرہ مقصود نہیں، اسے ہم کتب حدیث کے تحت بیان کرچکے ہیں؛ یہاں ہم انہی ناموں پراکتفا کرتے ہیں؛ یہاں اصل موضوع محدثین کا تذکرہ ہے، جواپنی حدیثی خدمات میں علمائے مسندین کے بعد علمائے مخرجین کی حیثیت سے حدیث کی برابر خدمت کرتے رہے اور اپنے وقت میں اس فن کی رئاست اور موضوع کی سیادت انہی کے ہاتھ میں رہی، علمائے امت نے ہردور میں جن کوائمہ فن سمجھا: ان میں امام ابن صلاح (۶۴۳ھ)، حسن صنعانی لاہوری (۶۵۰ھ)، امام نووی صاحب ریاض الصالحین (۶۷۶ھ)، شیخ الاسلام حافظ ابن تیمیہؒ (۷۲۸ھ)، حافظ قطب الدین الحلبی (۷۳۵ھ)، ابن قیم جوزیہ (۷۵۱ھ)، ابن کثیرصاحب البدایہ والنہایہ (۷۷۴ھ)، زین الدین العراقی (۸۰۶ھ)، حافظ ذہبی (۸۴۸ھ)، حافظ ابن حجرعسقلانی (۸۵۳ھ)، حافظ بدرالدین العینی (۸۵۵ھ)، علامہ ابن ہمام الاسکندری (۸۶۱ھ) وغیرہم اس فن میں روشنی کے مینار ہیں، یہ حضرات بیشتر برصغیر پاک وہند سے باہر کے ہیں، اس برصغیر میں کون کون سے علماء گزرے جنہوں نے نمایاں طور پر حدیث کی خدمت کی، ان میں سے بعض حضرات کے اسماء گرامی لکھ لیجئے، انہیں اپنی صف کے ائمہ حدیث میں جگہ دی جاسکتی ہے، کچھ علمائے حدیث اور بھی ہوں گے؛ گجرات کے علاقہ احمدآباد کے شیخ راجح بن داؤد (۹۰۴ھ) شاگرد امام سخاوی، شیخ علی المتقی (۹۷۵ھ) صاحب "کنزالعمال من سنن الاقوال والافعال"، شیخ محمدطاہر الفتنی (۹۸۶ھ) صاحب مجمع البحار، المغنی فی ضبط اسماء الرجال وتذکرۃ الموضوعات، شیخ رحمت اللہ سندھی (۹۹۴ھ) صاحب تلخیص تنزیہہ الشریعہ عن الاحادیث الموضوعہ، شیخ وجیہہ الدین علوی شارح شرح نخبۃ الفکر (۹۹۸ھ)، مولانا محمدعثمان سندھیؒ شارح بخاری (۱۰۰۸ھ)، شیخ عبدالحق محدث دہلویؒ (۱۰۵۲ھ) صاحب لمعات التنقیح شرح مشکوٰۃ المصابیح، شیخ نورالحق محدث دہلوی (۱۰۷۳ھ) شارح صحیح البخاری، ابویوسف محمد بن یعقوب بنانی لاہوری (۱۰۹۸ھ) صاحب الخیر الجاری بشرح صحیح البخاری والمعلم بشرح صحیح مسلم، شیخ محمدبن جعفر گجراتی صاحب زینۃ النکات فی شرح المشکوٰۃ (۱۱۱۱ھ)، محدث ابوالحسن السندھی شارح ستہ (۱۱۳۸ھ)، شیخ محمدافضل سیالکوٹی (۱۱۴۶ھ)، شیخ نورالدین احمدآبادی (۱۱۵۵ھ)، شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ (۱۱۷۶ھ)، علامہ مرتضی زبیدی (۱۲۰۵)، صاحب عقود الجواہر المنیفہ واتحاف النبلاء وتاج العروف، حضرت قاضی ثناء اللہ پانی پتی (۱۲۲۵ھ) صاحب تفسیر مظہری، مخدوم عبداللہ سیہوانی (۱۲۲۴ھ) مؤلف: الازہار المتناثرہ فی الاخبار المتواترہ، شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی (۱۲۳۹ھ)، شاہ رفیع الدین دہلوی (۱۲۳۳ھ)، شاہ عبدالقادر محدث دہلوی (۱۲۳۰ھ)، مولانا عبدالعزیز پرہاروی صاحب نبراس (۱۲۴۶ھ)، شاہ محمداسحاق محدث دہلوی (۱۲۶۲ھ)، شاہ عبدالغنی مجددی محدث العصر مولانا مملوک علی (۱۲۶۷ھ)، مولانا احمد الدین بگوی (۱۲۸۶)، نواب قطب الدین دہلوی شارح مشکوٰۃ (۱۲۸۹ھ)، مولانا احمد علی صاحب سہارنپوری (۱۲۹۷ھ)، بانی دارالعلوم دیوبند مولانا محمدقاسم نانوتویؒ (۱۲۹۷ھ)، حضرت مولانا عبداللہ غزنویؒ (۱۲۹۸ھ)، مولانا حیدر علی فیض آبادی۔ صاحب منتہی الکلام (۱۲۹۹ھ)، مولانا محمدمظہر نانوتوی (۱۳۰۲ھ)، مولانا محمدیعقوب نانوتوی (۱۳۰۳ھ)، حضرت مولانا عبدالحییٰ لکھنوی شارح مؤطا امام محمد (۱۳۰۴)، مولانا فضل الرحمن گنج مرادآبادی (۱۳۱۳ھ)، مولانا فخرالحسن گنگوہیؒ (۱۳۱۵ھ)، محدث محمدبن علی المینوی صاحب آثار السنن (۱۳۲۲ھ)، نواب صدیق حسن خان (۱۳۰۷)، مولانا رشید احمد محدث گنگوہی (۱۳۲۳ھ)، مولانا احمد حسن محدث امروہی (۱۳۳۰ھ)، مولانا سیدنذیر حسین دہلوی (۱۳۳۰ھ)، حافظ عبدالمنان وزیرآبادی (۱۳۳۴ھ)، مولانا شمس الحق عظیم آبادی شارح ابی داؤد وسنن دارِقطنی، شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی (۱۳۳۹ھ)، مولانا خلیل احمد محدث سہارنپوری شارح ابی داؤد (۱۳۴۶ھ)، مولانا عبدالجبار غزنوی، حضرت مولانا محمدعلی مونگیری (۱۳۴۶ھ)، حضرت مفتی عزیز الرحمن عثمانی (۱۳۴۷ھ)، مولانا فخرالدین گنگوہیؒ (۱۳۵۲ھ)، امام العصر مولانا انور شاہ کشمیری (۱۳۵۳ھ)، مولانا عبدالرحمن مبارک پوری شارح ترمذی (۱۳۵۳ھ)، حضرت مولانا حسین علی واں بھچراں والے (۱۳۶۳ھ)، مولانا عبدالعزیز گوجرانوالوی صاحب نبراس الساری، شیخ الاسلام مولانا شبیر احمدعثمانی شارح صحیح مسلم (۱۳۶۹ھ)، محدث کبیر حضرت مولانا بدر عالم میرٹھی، ثم المدنی، حضرت مولانا مفتی کفایت اللہ دہلوی (۱۳۷۲ھ)، حضرت مولانا محمدحسن محدث فیض پوری (۱۹۲۱ھ)، حضرت مولانا سیدحسین احمد مدنی (۱۳۷۷ھ)، حضرت مولانا عبدالشکور لکھنوی (۱۳۸۱ھ)، مولانا فخرالدین امروہوی شیخ الحدیث دیوبند (۱۳۹۲ھ)، سیدمظہر حسین حیدرآبادی صاحب زجاجہ المصابیح، محدث دیوبند میاں سیداصغرحسین، محدث العصر مولانا ظفراحمد عثمانی مؤلف اعلاء السنن وقواعد علوم الحدیث، مولانا محمدادریس کاندھلوی مؤلف: التعلیق الصبیح علی المشکوٰۃ وتحفۃ الباری فی حل المشکلات البخاری، مولانا شمس الحق افغانی شیخ الحدیث جامعہ اسلامیہ ڈابھیل، حضرت مولانا عبدالرحمن کیملپوری سابق صدر مدرس مظاہرالعلوم سہارنپور، شیخ الحدیث مولانا نصیرالدین غورغشتوی، محدث العصر مولانا یوسف البنوری شارح جامع ترمذی، حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمدطیب صاحب، حضرت مولانا خیرمحمدجالندھری بانی خیرالمدارس جالندھری، مولانا مفتی محمدشفیع صاحب شیخ الحدیث سراج العلوم سرگودھا، حضرت مولانا عبدالحنان اوکاڑوی ثم المدنی، قاضی شمس الدین صاحب گوجرانوالہ، شیخ الحدیث مولانا حافظ محمدگوندلوی ازگوجرانوالہ۔