انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** امام ابوحنیفہ ؒ اور اُن کے محدث شاگرد امام ابوحنیفہؒ میں خالق کائنات نے جہاں اور بہت ساری خوبیاں ودیعت کررکھی تھیں وہیں آپ کوعلم حدیث سے بھی وافرحصہ مرحمت فرمایا تھا، جس کا اندازہ آپ کے شاگردوں کی لمبی چوڑی فہرست پر نظر ڈالنے سے ہوتا ہے، یحییٰ بن سعید القطان جوفن جرح وتعدیل کے امام ہیں، عبدالرزاق بن ہمام جن کی جامع کبیر سے امام بخاریؒ نے فائدہ اٹھایا ہے، یزید بن ہارون جوامام احمد بن حنبلؒ کے استاذ تھے، وکیع ابن الجراح جن کی نسبت امام احمد بن حنبلؒ کہا کرتے تھے کہ حفظ اسناد وروایات میں، میں نے ان کا ہمسر کسی کونہیں دیکھا، عبداللہ ابن المبارک جو فن حدیث میں امیرالمؤمنین تسلیم کئے گئے ہیں، یحییٰ بن زکریا بن ابی زائدہ جن کوعلی ابن المدینیؒ (استاذ بخاریؒ) منتہائے علم کہا کرتے تھے، یہ لوگ برائے نام امام صاحبؒ کے شاگرد نہ تھے؛ بلکہ برسوں ان کے دامنِ فیض میں تعلیم پائی تھی اور اس انتساب پر ان کوفخروناز تھا، عبداللہ ابن المبارک کہا کرتے تھے: "اگرخدا نے ابوحنیفہؒ اور سفیان ثوریؒ سے میری مدد نہ کی ہوتی تو میں ایک معمولی آدمی ہوتا"۔ وکیع اور یحییٰ بن ابی زائدہ امام صاحب کی صحبت میں اتنی مدت تک رہے تھے کہ صاحب ابی حنیفہؒ کہلاتے تھے، کیا اس رتبہ کے لوگ جوخدمتِ حدیث اور روایت کے پیشوا اور مقتداء تھے کسی ایسے شخص کے سامنے سرجھکاسکتے تھے، جسے حدیث میں درک حاصل نہ ہو، اس لیے یہ بات توروزِ روشن کی طرح واضح ہے کہ امام صاحب کوحدیث کے باب میں غیرمعمولی درک وبصیرت حاصل تھی؛ اسی وجہ سے بڑے نامور محدث آپ کے حلقہ درس سے تیار ہوئے، ذیل میں آپ کے کچھ نامور محدث شاگرد کا تذکرہ کیا جاتا ہے۔ (۱)ابویوسف رحمۃ اللہ علیہ آپ کا نام یعقوب، والد کا نام ابراہیم اور دادا کا نام حبیب تھا، آپ کی کنیت ابویوسف ہے۱؎ قبیلہ انصا رسے آپ کا سلسلۂ نسب ملتا ہے۲؎ آپ کی ولادت سنہ۱۱۳ھ میں بمقام کوفہ ہوئی۳؎ سترہ برس تک امام ابوحنیفہؒ کی صحبت میں رہے۴؎ ابن عبدالبر نے لکھا ہے کہ امام ابویوسفؒ محدثین کے یہاں حاضر ہوتے اور ایک بیٹھک میں پچاس ساٹھ حدیثیں یاد کرلیتے؛ پھرکھڑے ہوکرلوگوں کو لکھاتے۵؎ امام مزنیؒ سے کسی نے اہلِ عراق کی علمی شخصیات کی بابت دریافت کیا توآپ نے امام ابوحنیفہؒ کی بابت کہا: "سیدھم" یعنی وہ اہلِ عراق کے سردار ہیں اور امام ابویوسفؒ کی بابت کہا: "اتبعھم للحدیث" یعنی عراقیوں میں سب سے زیادہ حدیث کے پیرو ہیں۶؎ خطیب بغدادی نے اپنی تاریخ میں امام احمد بن حنبلؒ کا قول نقل کیا ہے کہ جب مجھ کوعلم حدیث کا شوق پیدا ہوا توامام ابویوسفؒ کی خدمت میں حاضر ہوا۷؎ یحییٰ بن معینؒ، احمد بن حنبلؒ اور بہت سے ائمہ حدیث نے امام ابویوسفؒ سے حدیثیں روایت کی ہیں۸؎ ابنِ معینؒ فرماتے ہیں: "مَارَأَيْتُ فِي أَصْحَابِ الرَّأيِ أَثْبَتُ فِي الْحَدِيْثِ، وَلَاأَحْفَظ، وَلَاأَصح رِوَايَة مِنْ أَبِيْ يُوْسُفُ"۹؎۔ میں نے اہل الرائے میں امام ابویوسف رحمۃ اللہ علیہ سے زیادہ پختگی حفظ اور روایت صحیحہ کا نقل کسی اور میں نہیں دیکھا۔ (۱)سیراعلام النبلاء:۸/۴۳۶۔ (۲)تذکرۃ الحفاظ:۱/۲۹۲۔ (۳)ہدیۃ العارفین:۶/۵۳۶۔ (۴)اخبارابی حنیفہ وأصحابہ:۹۳۔ (۵)طبقات ابن سعد:۷/۳۳۰۔ (۶)امام ابوحنیفہ اور ان کے ناقدین:۷۷۔ (۷)شذرات الذھب:۲/۳۶۹۔ (۸)سیرت النعمان:۱۹۲۔ (۹)سیراعلام النبلاء:۸/۵۳۷۔ (۲)امام محمد رحمۃ اللہ علیہ آپ کا نام محمد، والد کا نام حسن اور دادا کا نام فرقد ہے، ابوعبداللہ کنیت ہے اور شیبانی نسبت ہے، اصل مسکن جزیرۂ شام ہے، آپ کی ولادت واسط میں سنہ۱۳۲ھ میں ہوئی، آپ کی تعلیم وتربیت کوفہ میں ہوئی، چودہ سال کی عمر میں امام اعظم ابوحنیفہؒ کی خدمت میں حاضر ہوکر علم حاصل کیا، چار سال تک ان کی خدمت میں رہے۱۰؎ آپ نے حضرت امامؒ کی وفات کے بعد مزید تکمیل امام ابویوسفؒ سے کی اور اس کے بعد امام مالکؒ سے مؤطا بھی سنا؛ مگرجوعقیدت حضرت امام ابوحنیفہؒ سے ہوچکی تھی، اس کے نقوش کسی حلقۂ علم میں مٹ نہ سکے، آپ امام ابوحنیفہؒ کے نہایت قابلِ اعتماد شاگرد تھے؛ بلکہ یوں کہئے کہ حضرت امام کے علوم زیادہ ترآپ ہی کے ذریعہ پھیلے۱۱؎ امام شافعیؒ آپ کے تلامذہ میں سے تھے، حدیث کی ایک مشہور کتاب مؤطا آپ ہی کے نام سے معنون ہے، اس کی محدث کبیر ملاعلی قاریؒ نے مبسوط شرح لکھی ہے، حضرت مولانا عبدالحیی لکھنویؒ نے "التعلیق الممجد" کے نام سے اس پر ایک مبسوط حاشیہ لکھا ہے۱۲؎ امام محمدؒ نے مسعر بن کدامؒ، سفیان ثوریؒ، مالک بن دینارؒ اور امام اوزاعیؒ وغیرہ حضرات سے بھی روایت بیان کی ہے، خود امام محمدؒ فرماتے ہیں کہ میرے والد نے تیس ہزار درہم چھوڑے تھے، پندرہ ہزار میں نے نحو اور شعر وادب پر خرچ کئے اور پندرہ ہزار فقہ وحدیث کی تعلیم پرخرچ کئے۱۳؎ دارِقطنی آپ کوثقات اور حفاظ حدیث میں شمار کرتے ہوئے لکھتے ہیں: "یہ حدیث بیس عدد ثقات اور حفاظ حدیث نے بیان کی ہے، جن میں امام محمد بن حسن شیبانیؒ، یحییٰ بن سعید القطانؒ، عبداللہ بن مبارکؒ، عبدالرحمن بن مہدیؒ اور ابن وھب وغیرہ شامل ہیں"۱۴؎۔ امام محمدؒ چار سال تک امام اعظمؒ کی خدمت میں حاضر رہے اور سفر وحضر میں امام صاحبؒ کے ساتھ رہے اور ان سے علومِ دینیہ میں برابر استفادہ کرتے رہے۱۵؎، موطا امام محمدؒ آپ کی حدیث میں سب سے پہلی تصنیف ہے، اس میں کل ایک ہزار ایک سواسی احادیث ہیں جن میں ایک ہزار پانچ احادیث امام مالکؒ سے مروی ہیں اور ایک سو پچھتر دوسرے شیوخ سے، سترہ امام ابوحنیفہؒ سے اور چار احادیث امام ابویوسفؒ سے مروی ہیں۱۶؎۔ (۱۰)ظفرالمحصلین:۹۱،۸۸۔ (۱۱)ترجمان السنہ:۱/۲۵۱۔ (۱۲)بستان المحدثین:۴۹۔ (۱۳)تاریخ بغداد:۲/۱۷۳۔ (۱۴)نصب الرایہ:۱/۴۰۹۔ آثارالحدیث:۲۸۸،۲۸۷۔ (۱۵)تذکرۃ المحدثین:۱۴۰۔ (۱۶)تذکرۃ المحدثین:۱۴۷۔ (۳)وکیع ابن الجراح کوفہ کے جلیل القدر امام وکیع ابن الجراحؒ کے استاذمیں ہشام بن عروہؒ، جعفر بن برقانؒ، اعمشؒ، سفیان ثوریؒ اور امام اوزاعیؒ ہیں اور آپ کے شاگردوں میں علی ابن المدینیؒ، یحییٰ بن معینؒ اور امام احمدؒ ہیں، آپ سفیان ثوریؒ کے علمی جانشین سمجھے جاتے تھے، آپ فقہ میں بھی بالغ نظر تھے، ابراہیم بن شماس رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں:"کَانَ وَکِیْعٌ أَفْقَہٗ النَّاسِ"۔ ابنِ عمار رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں: "مَاكَانَ بِالْكُوْفَةِ فِيْ زَمَانِ وَكِيْعٍ أَفْقَهٗ وَلَاأَعْلَمُ بِالْحَدِيْثِ مِنْهٗ"۱۷؎۔ امام وکیعؒ کے زمانہ میں کوفہ میں ان سے بڑا فقیہ اور محدث کوئی نہ تھا۔ آپ امام ابوحنیفہؒ کے قول پر فتویٰ دیتے تھے۱۸؎، اتنے بڑے امام کا حضرت امامؒ کا مقلد ہونا پتہ دیتا ہے کہ امام ابوحنیفہؒ کا مذہب کس قدر حدیث کے قریب تھا، الجواہر المضیۂ میں علامہ صمیریؒ سے نقل ہے کہ آپ امام ابوحنیفہؒ کے شاگرد بھی تھے، حضرت امام احمدؒ فرماتے ہیں: "مَارَأَتْ عَيْنِيْ مِثْلَ وَكِيْعٍ قَطُّ يُحْفَظُ الْحَدِيْثَ وَيُذَاكِرُ بِالْفِقْهِ"۱۹؎۔ میری آنکھوں نے وکیع رحمۃ اللہ علیہ کی طرح کسی کونہیں دیکھا، آپ حدیثیں یاد کیا کرتے اور فقہ کی بات چیت جاری رکھتے تھے۔ امام احمدؒ کوان کی شاگردی پر بڑا ناز تھا، جب ان سے حدیث روایت کرتے توفرماتے کہ یہ حدیث مجھ سے اس شخص نے روایت کی کہ تمہاری آنکھوں نے اس کے مثل نہ دیکھا ہوگا، یحییٰ بن اکثم رحمۃاللہ علیہ کہتے ہیں کہ میں سفر وحضرمیں آپ کے ساتھ رہا، ہمیشہ روزہ رکھتے اور ہررات قرآن ختم کرتے۲۰؎، ابنِ معینؒ کہتے ہیں کہ امام وکیعؒ نے امام ابوحنیفہؒ سے احادیث سنی اور آپ کی تمام احادیث کو یاد کیا، امام ابوحنیفہؒ سے وکیع ابن الجراحؒ نے کل ۹۰۰/احادیث روایت کی ہیں، امام صاحبؒ کی وفات کے بعد ابویوسفؒ وزفرؒ کی مجالس میں شرکت کیا کرتے تھے۲۱؎۔ (۱۷)تذکرۃ الحفاظ:۱/۲۸۳۔ (۱۸)تذکرۃ الحفاظ:۱/۲۸۳۔ (۱۹)تذکرۃ الحفاظ:۱/۲۸۳۔ (۲۰)آثارالحدیث:۲۹۷۔ (۲۱)مقدمہ اعلاء السنن:۳/۸۶،۸۷۔ (۴)یحییٰ بن سعید القطان رحمۃ اللہ علیہ امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں: اللہ کی طرف سے حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے امین تین حضرات ہیں (۱)امام مالک رحمۃ اللہ علیہ (۲)شعبہ رحمۃ اللہ علیہ (۳)یحییٰ بن سعید القطان رحمۃ اللہ علیہ۲۲؎، علی بن مدینی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں: "مَارَأَيْت أَحَدًا أَعْلَمَ بِالرِّجَالِ مِنْهُ"۲۳؎۔ میں نے اسماء الرجال میں ان سے بڑھ کر کسی کو نہیں پایا۔ روات کی تحقیق میں اس قدر کمال تھا کہ بڑے بڑے ائمہ حدیث کہتے تھے جس کویحییٰ چھوڑیں گے اس کوہم بھی چھوڑدیں گے۲۴؎، خطیبؒ نے تاریخ بغداد میں ابنِ معینؒ کے حوالہ سے یحییٰ بن سعید القطان کاقول ذکر کیا ہے کہ آپؒ فرماتے ہیں: "خدا کی قسم ہم امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی صحبت میں رہے اور آپ سے سنا اور جب میں آپ کی طرف دیکھتا تویہ محسوس کرتا تھا کہ آپ اللہ سے ڈرتے ہیں"۲۵؎۔ (۲۲)تذکرۃ الحفاظ:۱/۳۰۳۔ (۲۴)تذکرۃ الحفاظ:۱/۳۰۳۔ (۲۵)مقدمہ اعلاء السنن:۳/۸۶،۸۷۔ (۵)عبداللہ بن مبارک مروزی رحمۃ اللہ علیہ آپ کا نام عبداللہ، والد کا نام مبارک، کنیت ابوعبدالرحمن، ولادت سنہ۱۱۸ھ، آپ نے سلیمان تیمیؒ، عاصم احولؒ، حمید طویلؒ، ربیع بن انسؒ، اوزاعیؒ، ہشام بن عروۃؒ، خالد حذاءؒ اور یزید بن عبداللہؒ سے روایت حدیث کی ہے۲۶؎، آپ کا شمار امام اعظمؒ کے مشہور تلامذہ میں ہوتا ہے، مزیؒ نے آپ کا شمار امام صاحبؒ سے روایت کرنے والوں میں کیا ہے۲۷؎، آپ سے حدیث روایت کرنے والے عبدالرحمن بن مہدیؒ، یحییٰ بن معینؒ، حبان بن موسیٰ، احمد بن منیعؒ اور احمد بن حنبلؒ وغیرہ ہیں۲۸؎، ابوامام نے آپ کوامیرالمؤمنین فی الحدیث قرار دیا ہے، ابنِ مہدیؒ نے لکھا ہے: "أَلْأَئِمَّةُ أَرْبَعَةٌ: مَالِكٌ وَالثُّوْرِيٌ وَحَمَّادِ بْنِ زَيْدٍ وَابْنِ الْمُبَارَكِ"۔ ابنِ معین رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں: "وَکَانَ ثِقَۃً مُثْبَتًا وَکُنْتَ کَتَبْتَہُ الَّتِیْ حَدَّثَ بِھَا نَحْوَاً مِنْ عِشْرِيْنَ حَدِيْثاً"۔ اسماعیل بن عیاش رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں: "مَاعَلَى وَجْهِ الْأَرْضِ مِثْلَ إِبْنُ الْمُبَارَکَ"۲۹؎۔ ابنِ المبارکؒ ان تمام فضائل ومناقب کے باوجود امام ابوحنیفہؒ سے فقہ وحدیث کا علم حاصل کیا اور انہی کے قول پر فتویٰ دیا کرتے تھے، ابن عبدالبرؒ کہتے ہیں کہ میں کسی ایسےفقیہ کو نہیں جانتا جس کے بارے میں کچھ نہ کہا گیا ہو؛ سوائے ابن المبارکؒ کے۳۰؎۔ (۲۶)تذکرۃ الحفاظ:۱/۲۵۳۔ (۲۷)تبیض الصحیفہ للسیوطی:۱۲۔ (۲۸)تذکرۃ الحفاظ:۱/۲۵۳۔ (۲۹)مقدمہ اعلاء السنن:۳/۸۳۔ (۳۰)مقدمہ اعلاء السنن:۳/۸۲،۸۵۔ (۶)یحییٰ بن زکریا بن ابی زائدہ رحمۃ اللہ علیہ امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ نے "تذکرۃ الحفاظ" میں آپ کا تذکرہ ان الفاظ کے ساتھ کیا ہے، حافظ، ثبت، متقن، فقیہ، امام ابوحنیفہؒ کے شاگرد، آپ کوسماع حدیث آپ کے والد، عاصم احولؒ، ہشام بن عروۃؒ، عبیداللہ بن عمرؒ، علی بن مدینیؒ، یحییٰ بن معین رحمۃ اللہ علیہ، قتیبہؒ اور ابوبکر بن شیبہؒ سے بھی حاصل ہے اور آپ سے روایت کرنے والے احمد بن حنبلؒ، ابراہیم بن موسیٰؒ، ابوکریبؒ وغیرہ ہیں، علی بن مدینیؒ آپ کے بارے میں کہتے ہیں: "کوفہ میں سفیان ثوریؒ کے بعد آپ سے زیادہ احفظ کوئی نہیں تھا اور یہ بھی فرمایا کہ آپ اپنے زمانہ کے منتہائے علم تھے"۳۱؎۔ یحییٰ بن زکریا امام ابوحنیفہؒ کے ان دس متقدم شاگردوں میں سےتھے، جنھوں نے آپ کی کتب کی تدوین کی، آپ شمار کوفہ کے حفاظ حدیث میں ہوا کرتا تھا، آپ کے والد زکریا بن ابی زائدہ رحمۃ اللہ علیہ بھی امام صاحبؒ کے شاگرد تھے، شیخینؒ نے ان کی روایات کی تخریج کی ہیں، نسائی نے آپ کوثقہ اور ثبت قرار دیا ہے۳۲؎، آپ کا شمار امام ابوحنیفہؒ کے اجلۂ تلامذہ میں ہوتا ہے۳۳؎۔ (۳۱)تذکرۃ الحفاظ:۱/۲۴۶،۲۴۷۔ (۳۲)مقدمہ اعلاء السنن:۳/۸۵،۸۶۔ (۳۳)نصب الرایہ:۱/۴۱۔ تذکرۃ الحفاظ:۱/۲۷۴۔ (۷)حفص ابن غیاث نخعی رحمۃ اللہ علیہ علامہ ذہبیؒ نے آپ کا تذکرہ ان الفاظ کے ساتھ کیا ہے "الامام، الحافظ" آپ کے شیوخ میں آپ کے دادا طلق بن معاویہ، عاصم احول، ہشام بن عروہ، اعمش اور دیگر حضرات ہیں اور آپ سے روایت کرنے والے آپ کے فرزند عمر بن حفص، احمد ابن حنبلؒ، اسحاق بن راہویہؒ، علی ابن المدینیؒ، ابن معینؒ وغیرہ ہیں، ابن معین فرماتے ہیں: ان احادیث کی تعداد جن کوحفص نے بغداد وکوفہ میں اپنے حافظہ سے بیان کیا، چار ہزار ہیں۳۳؎، مزیؒ نے آپ کا تذکرہ امام ابوحنیفہؒ کے تلامذہ میں کیا ہے۳۴؎، تدریب الراوی میں بھی آپ کوامام ابوحنیفہؒ کے طبقہ اولیٰ کے تلامذہ میں شمار کیا گیا ہے۳۵؎، آپ کا شمار امام صاحبؒ کے ان دس تلامذہ میں ہوتا ہے؛ جنھوں نے ان کی کتابوں کومدون کیا اور آپ کے مسائل کا املا کرایا، یحییٰ بن معین نے آپ کی توثیق کی ہے۳۶؎، عجلی نے آپ کوفقیہ، ثقہ اور مامون قرار دیا ہے۳۷؎، آپ کا شمار امام ابوحنیفہؒ کے ان تلامذہ میں ہوتا ہے جنھوں نے امام صاحبؒ سے بہت زیادہ روایت کی ہے۳۸؎۔ (۳۳)نصب الرایہ:۱/۴۱۔ تذکرۃ الحفاظ:۱/۲۷۴۔ (۳۴)تبیض الصحیفہ:۲۱۔ (۳۵)تدریب الراوی:۱۵۹۔ (۳۶)الجواہر المضیئۃ:۱/۲۲۲،۲۲۳۔ (۳۷)مقدمہ اعلاء السنن :۳/۸۹۔ (۳۸)جامع المسانید:۲/۲۳۰۔ (۸)مسعر بن کدام رحمۃ اللہ علیہ علامہ ذہبی نے آپ کا تذکرہ "الامام، الحافظ" کے ساتھ کیا ہے، آپ کے شیوخ حدیث میں علی بن ثابت، حکم بن عقبہ، قتادہ، عمروبن مرۃ ہیں اور آپ سے سفیان بن عیینہ، یحییٰ القطان، محمد بن بشر، یحییٰ بن آدم اور ابونعیم روایت کرتے ہیں۳۹؎، آپ ابوحنیفہؒ اور عطاءؒ سے بھی روایت کرتے ہیں۴۰؎، آپ امام احمداور بخاری ومسلم کے شیخ الشیخ ہیں۴۱؎، حافظ سیوطی ابنِ مبارکؒ سے نقل کرتے ہیں کہ میں نے مسعرکو امام ابوحنیفہؒ کے حلقہ میں دیکھا ہے کہ وہ ابوحنیفہؒ سے کچھ دریافت کررہے تھے۴۲؎، علامہ ذہبیؒ نے "تذکرۃ الحفاظ" میں یحییٰ القطان کا قول نقل کیا ہے کہ میں نے مسعر سے زیادہ اثبت کسی کونہیں دیکھا، امام احمدؒ فرماتے ہیں: "ثقہ مسعر اور شعبہ کی طرح ہوتے ہیں"۔ وکیع رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں: "مسعر کا شک بھی دوسرے کے یقین کی طرح ہے"۔ شعبہ رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں: "کُنَّانُسَمِّیْ مُسْعِرًأَلْمُصْحَفَ لِإِتْقَانِہِ"۴۳؎۔ ابنِ مبارک رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں: "منْ كانَ ملتمِساً جليساً صالحاً فَليَأتِ حَلقَة َ مِسعَر بن كِدَامِ"۴۴؎۔ (۳۹)تذکرۃالحفاظ:۱/۱۷۷۔ (۴۰)الجواہرالمضیۃ:۲/۱۶۷۔ (۴۱)جامع المسانید:۲/۵۵۵۔ (۴۲)تبییض الصحیفہ:۲۴۔ (۴۳)تذکرۃ الحفاظ:۱/۱۷۷۔ (۴۴)مقدمہ اعلاء السنن:۳/۹۰۔ (۹)مکی بن ابراہیم بلخی رحمۃ اللہ علیہ "تذکرۃ الحفاظ" میں آپ کا تذکرہ یوں ہے: "تذکرۃ الحفاظ" میں آپ کا تذکرہ یوں ہے: الحافظ، الامام، شیخ خراسان، آپ کے اساتذہ میں یزید بن ابی عبید، جعفر صادق، بہزبن حکیم، ابوحنیفہؒ، ہشام بن حسان، ابن جریح وغیرہ ہیں اور تلامذہ حدیث میں: امام بخاریؒ، احمدؒ، ابن معینؒ، عباس دوری وغیرہ کا نام آتا ہے۴۵؎، سترہ تابعی حضرات سے آپ نے حدیث لکھی ہے۴۶؎، آپ کے بارے میں ابنِ سعد فرماتے ہیں "ثَقَۃ ثَبَت" دارِقطنی کہتے ہیں: "ثِقَۃَ مَأْمُوْنٌ" مزیؒ نے آپ کاتذکرہ رواتِ ابوحنیفہؒ میں کیاہے۴۷؎، امام ابوحنیفہؒ سے آپ نے بہت ساری احادیث روایت کی ہے۴۸؎، امام بخاریؒ اپنی ثلاثیات اکثر ان ہی سے روایت کرتے ہیں۴۹؎، "نصب الرایہ" کے مقدمہ نگار نے لکھا ہے کہ آپ امام ابوحنیفہؒ سے کثرت کے ساتھ روایت بیان کرتے تھے۵۰؎۔ (۴۵)مقدمہ اعلاء السنن:۳/۹۰۔ (۴۶)تذکرۃ الحفاظ:۱/۳۳۲۔ (۴۷)تہذیب التہذیب:۱/۲۹۳۔ (۴۸)جامع المسانید:۲/۵۵۷۔ (۴۹)مقدمہ اعلاء السنن:۳/۹۱۔ (۵۰)مقدمہ نصب الرایہ:۱/۴۲۔ (۱۰)فضل بن دکین رحمۃ اللہ علیہ علامہ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ آپ کے بارے میں تحریر کرتے ہیں: "الحافظ، الثبت، الکوفی ابونعیم"۔ شیوخ حدیث: اعمش، زکریا بن ابی زائدہ، عمر بن ذر، شعبہ وغیرہ۔ تلامذہ حدیث: امام احمد، اسحاق بن راہویہ، یحییٰ بن معین، ذہلی، بخاری، دارمی، ابن المبارک وغیرہ، امام احمدؒ فرماتے ہیں: "ھُوَأَقَل خَطَا مِنْ وَکِیْع"۔ ابوزرعہ دمشقی کہتے ہیں کہ میں نے ابنِ معین کوآپ کے بارے میں کہتے ہوئے سنا ہے: "مَارَأَیْتُ أَثْبَتَ مِنْ رَجُلَیْنِ أَبِیْ نُعَیْمٍ وَعَفَّانٍ"۔ احمدبن صالح رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں: "ابونعیم وعفان سے زیادہ صدوق میں نے کسی محدث کو نہیں دیکھا"۔ مزیؒ نے آپ کا تذکرہ امام ابوحنیفہؒ کے روات میں کیا ہے۵۱؎، "نصب الرایہ" کے مقدمہ نگار نے آپ کے بارے میں لکھا ہے: "مِنَ الْمُکَثِّیْرِیْنَ عَنْ أَبِیْ حَنِیْفَۃَ"۵۲؎۔ ابوحنیفہؒ سے کثرت سے روایت بیان کرتے تھے۔ آپ بخاری ومسلم کے شیخ ہیں۵۳؎۔ (۵۱)تذکرۃ الحفاظ:۱/۳۳۸۔ (۵۲)مقدمہ نصب الرایہ:۱/۴۲۔ (۵۳)جامع المسانید:۲/۵۴۲۔ (۱۱)سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ علامہ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ آپ کا تذکرہ کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں: "الامام، شیخ الاسلام، سیدالحفاظ، ابوعبداللہ ثوری"۔ شیوخ: زبید بن حارث، حبیب بن ابی ثابت، اسود بن قیس، زیاد بن علاقہ، محارب بن دثار۔ تلامذہ: ابن المبارکؒ، یحییٰ القطان، ابن وھب، وکیع، فریابی، قبیصہ، ابونعیم۔ شعبہ اور یحییٰ بن معین رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں: "سفیان امیرالمؤمنین فی الحدیث ہیں"۔ قطان رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں: "میں نے آپ سے احفظ نہیں دیکھا"۔ وکیع رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں: "سفیان توسمندر تھے"۵۴؎۔ باوجود اس جلالتِ شان کے آپ نے ابوحنیفہؒ سے روایت کی ہے، خیرات حسان میں ابن حجر مکی کہتے ہیں کہ یحییٰ بن معین سے دریافت کیا گیا کہ سفیان ثوریؒ، ابوحنیفہؒ سے حدیث بیان کرتے ہیں؟ توآپ نے کہا ہاں۵۵؎، شیخین نے آپ سے روایت بیان کی ہے۵۶؎۔ امام صاحبؒ کے اور بہت سے محدث شاگرد ہیں، جن کے تراجم طوالت کی وجہ سے ترک کئے جارہے ہیں؛ البتہ اختصار کی غرض سے امام صاحبؒ کے صرف مشہور شاگردوں کے نام ذیل میں ذکر کیئے جاتے ہیں: شمار اسمائے تلامذہ شمار اسمائے تلامذہ ۱۱ ابراہیم بن طہمان ۱۲ جریر بن عبدالحمید ۱۳ یزید بن ہارون واسطی ۱۴ عبداللہ بن یزید مقری ۱۵ علی بن مسہر ۱۶ عبداللہ بن داؤد خریبی ۱۷ قاسم بن معن بن عبدالرحمن مسعودی ۱۸ حماد بن زید ۱۹ لیث بن سعد ۲۰ مغیرہ بن مقسم ۲۱ فضیل بن عیاض ۲۲ نضربن شمیل ۲۳ معافی بن عمران ۲۴ عبدالرزاق بن ہمام ۲۵ عبدالحمید بن عبدالرحمن حمانی ۲۶ عمروبن ہیثم بن قطن ۲۷ مالک بن مغول ۲۸ ابوحمزہ سکری ۲۹ محمدبن عبداللہ بن مثنیٰ ۳۰ حمزہ بن حبیب زیات ۳۱ عمروبن میمون ۳۲ فضل بن وکیع ۳۳ سعید بن اوس ۳۴ حسن بن زیاد لؤلؤی ۳۵ یحییٰ بن معین ۳۶ داؤدالطائی ۳۷ ابوبکر نہشلی تفصیل کے لیے دیکھئے مقدمہ اعلاء السنن، مقدمہ نصب الرایہ، مقدمہ اوجزالمسالک اور سیرت ائمہ اربعہ وغیرہ۔ (۵۴)تذکرۃ الحفاظ:۱/۱۰۱۔ (۵۵)الخیرات الحسان:۳۱۔ (۵۶)مقدمہ اعلاء السنن:۳/۹۵۔