انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** ۶۸۔محمد بن منکدرؒ نام ونسب محمد نام،ابو عبداللہ کنیت،نسب نامہ یہ ہے محمد بن منکدر بن عبداللہ بن ہدایہ بن عبدالعزی ابن عامر بن حارث بن حارثہ بن سعد بن تیم بن مرہ تیمی قرشی مدنی۔ فضل وکمال محمد بن منکدر فضل وکمال اورزہد وتقوی میں نہایت بلند پایہ رکھتے تھے،حافظ ذہبی لکھتے ہیں کہ ان کی ثقاہت اور علمی وعملی برتری پر سب کا اتفاق ہے اوران کے نام کے ساتھ امام اورشیخ الاسلام لکھتے ہیں،(تہذیب :۹/۴۷۳) حافظ ابن حجر ائمہ اعلام میں لکھتے ہیں۔ (تذکرۃ الحفاظ:۱/۱۱۳) قرأت قرآن کے ممتاز قاری تھے،امام مالک انہیں سید القراء کہتے تھے۔ (تہذیب:۹/۴۷۳) حدیث حدیث کے بڑے نامور حافظ تھے،حافظ ذہبی امامِ وقت کے لقب سے یاد کرتے ہیں، حدیث میں انہوں نے صحابہ اورتابعین کی ایک بڑی جماعت سے فیض اٹھایا تھا،صحابہ کرام میں ابو ایوب انصاریؓ،انس بن مالکؓ،جابرؓ،ابو امامہ بن سہلؓ،ربیعہ بن عبداللہ،عبداللہ ابن عمرؓ،عبداللہ بن عباسؓ،عبداللہ بن زبیرؓ،ابوقتادہؓ،سفینہؓ اورعائشہ صدیقہؓ اورتابعین میں سعید بن مسیب،عبیداللہ بن رافع عروہ بن زبیر معاذ بن عبدالرحمن تمیمی سعید بن عبدالرحمن بن یربوع اورابوبکر بن سلیمان سے روایتیں کی ہیں۔ صحابہ میں بعض بزرگوں سے ان کی روایت مرسل ہیں،لیکن علماء کے نزدیک ان کی مرسلات دوسروں کی مرفوع روایت سے زیادہ لائق اعتماد ہیں، ابن عینیہ کا بیان ہے کہ وہ صدق کی کان تھے،صلحاء ان کے پاس جمع ہوتے تھے،میں نے انکے سوا کسی کو اس کا اہل نہیں دیکھاکہ وہ قال رسول اللہ کہے اوربے چون وچرا مان لیا جائے (تہذیب التہذیب:۱۰/۲۷۴)ابراہیم کہتے تھے کہ وہ حفظ،اتقان اورزہد کے انتہائی درجہ پر تھے اورحجۃ تھے۔ (ایضاً:۴۷۵) تلامذہ جن لوگوں نے ان سے سماع حدیث کیا تھا ان میں ان کے صاحبزادے یوسف اور منکدر اور بھتیجے ابراہیم اور عبدالرحمن اور عام مستفیدین میں عمرو بن دینار، امام زہری ،ایوب ،انس بن عبید، سلمہ بن دینار،جعفر بن محمد صادق،محمد بن واسع ،سعد بن ابراہیم،سہیل بن ابی صالح ابن جریج،علی بن زید،موسیٰ بن عقبہؒ ہشام بن عروہ اور یحییٰ بن سعید انصاری وغیرہ لائق ذکر ہیں۔ (ایضاً:۴۷۴) فقہ فقہ وفتویٰ میں بھی پورا ادرک تھا،مدینۃ الرسول کے صاحب افتا تابعین میں ان کا شمار تھا۔ (اعلام الموقعین:۱/۲۶) زہد وورع زہد وتقویٰ کا رنگ بہت گہرا تھا اپنے نفس کی اصلاح کے لیے وہ بڑی سخت ریاضتیں کرتے تھے،مسلسل چالیس سال تک نفس پر ہر طرح کی سختیاں جھیلیں (تذکرۃ الحفاظ:۱/۱۱۴)امام مالکؒ فرماتے تھے کہ وہ عابد وزاہد ترین لوگوں میں تھے،ابن عماد حنبلی لکھتے ہیں کہ ان کاگھر صلحاء اورعبادکا ماویٰ و مخزن تھا۔ (شذرات الذہب :۱/۱۷۸) رقت قلب واثر پذیری ان کے دل میں اتنا گداز تھا کہ کلام اللہ کی مؤثر آیات پڑھ کر بے اختیار آنکھوں سے آنسو جاری ہوجاتے تھے، ایک شب کو تہجد میں بہت روئے ،صبح کو ان کے بھائیوں نے سبب پوچھا تو معلوم ہوا کہ اس آیت پر گریہ طاری ہواتھا۔ وَبَدَا لَهُمْ مِنَ اللَّهِ مَا لَمْ يَكُونُوا يَحْتَسِبُونَ (الزمر:۴۷) ان لوگوں کے لیے خدا کی جانب سے ایسی چیز ظاہر ہوگی جس کا وہم وگمان بھی نہ کرتے تھے۔ حدیثوں سے تاثر کا بھی یہی حال تھا،امام مالک کا بیان ہے کہ جب ان سے کوئی حدیث پوچھی جاتی تو وہ رونے لگتے تھے۔ (تذکرۃ الحفاظ:۱/۱۱۴) حج کا ذوق حج کا اتنا ذوق وشوق تھا کہ مقروض ہونے کی حالت میں بھی حج کرتے تھے کسی نے اعتراض کیا کہ آپ قرض کا بار ہوتے ہوئے حج کرتے ہیں،فرمایا حج خود ہی قرض کی ادائیگی میں سب سے بڑا معین و مددگار ہے،جب حج کو جاتے تھے تو تنہا نہ جاتے ؛بلکہ عورتوں اوربچوں سب کو ساتھ لے جاتے ، کسی نے اس کے بارہ میں کہا،فرمایا ان کو خدا کے سامنے پیش کرتا ہوں۔ ان کی زندگی کا اثر دوسروں پر ان کے دیکھنے سے نفس کی اصلاح ہوتی تھی،امام مالک کا بیان ہے کہ جب میں اپنے قلب میں قساوت محسوس کرتا تھا،توجاکر ابن منکدر کو دیکھتا تھا،اس کا یہ اثر ہوتا تھا کہ چند دنوں تک نفس میری نگاہ میں مبغوض ہوجاتا تھا۔ ان کی زندگی کا اثر دوسروں پر ان کے دیکھنے سے نفس کی اصلاح ہوتی تھی،امام مالک کا بیان ہے کہ جب میں اپنے قلب میں قساوت محسوس کرتا تھا،توجاکر ابن منکدر کو دیکھتا تھا،اس کا یہ اثر ہوتا تھا کہ چند دنوں تک نفس میری نگاہ میں مبغوض ہوجاتا تھا۔ بہترین عمل اوربہترین دنیا کسی نے ان سے پوچھا،آپ کے نزدیک سب سے افضل کون شے ہے،فرمایا مسلمانوں کو خوش کرنا،پوچھا سب سے پسندیدہ دنیا کون ہے،جواب دیا دوستوں کے ساتھ سلوک کرنا۔ (ایضاً) وفات ۱۳۰ میں وفات پائی،عالم احتضار میں سخت رقت طاری ہوئی فرمایا مجھے اس آیتوَبَدَا لَهُمْ مِنَ اللَّهِ مَا لَمْ يَكُونُوا يَحْتَسِبُونَ (الزمر:۴۷) سے خوف ہے کہ مبادا میرے لیے بھی خدا کی جانب سے ایسی شے ظاہر ہو جو میرے وہم وگمان میں نہ ہو۔