انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** امیر معاویہ کا انتقال یزید کی ولیعہدی کی بیعت کے چار سال بعد ۶۰ ھ میں امیر معاویہؓ کا انتقال ہوگیا اوریزید ان کا جانشین ہوا، اس وقت اس کے لئے سب سے بڑا سوال حضرت حسینؓ اورابن زبیرؓ کی بیعت کا تھا ؛چنانچہ زمام حکومت سنبھالنے کے بعد اس نے سب سے پہلا کام یہ کیا کہ ولید بن عتبہ حاکم مدینہ کے نام حسینؓ اورابن زبیرؓ سے بیعت لینے کا تاکیدی حکم بھیجا، اس حکم پر ولید نے ان دونوں کا بلا بھیجا ،حسینؓ اس طلبی پر چلے آئے؛ لیکن ابن زبیرؓ نے ایک دن کی مہلت مانگی اورراتوں رات مدینہ سے مکہ نکل گئے، ولید کو خبر ہوئی تو ان کی تلاش میں آدمی دوڑائے مگر ابن زبیرؓ دور نکل چکے تھے مکہ پہنچنے کے بعد یہاں مستقل قیام کیا، اسی دوران میں حضرت حسینؓ کوفہ کے قصد سے مدینہ سے مکہ آئے ،ابن زبیرؓ کو جب معلوم ہوا کہ عراقی پورے طور پر حسینؓ کی امداد کے لئے آمادہ ہیں اور وہ ان کی دعوت پر کوفہ جانے والے ہیں، توآپ کے پاس جاکر پہلے آپ کے اس ارادہ کی تائید کی پھر اس خیال سے کہ مبادا اس تائید سے حضرت حسینؓ کو ان کی جانب سے کوئی بد گمانی پیدا ہو، یہ مشورہ دیا کہ آپ حجاز ہی میں رہ کر حصول خلافت کی کوشش کیجئے، ہم سب بیعت کرکے آپ کی کامیابی کے لئے کوشش کریں گے اور ہر طرح سے آپ کے خیر خواہ رہیں گے، حضرت حسینؓ نے فرمایا، میں نے اپنے والد سے ایک حدیث سنی ہے کہ حرم کا ایک مینڈھا ہے جس کی وجہ سے اس کی حرمت اٹھ جائے گی، اس لئے میں چاہتا ہوں کہ میں وہ مینڈھا نہ بنو ، اس جواب پر ابن زبیرؓ نے پھر بہ اصرار کہا کہ آپ حرم میں قیام کئے ہوئے بیٹھے رہئے ،باقی تمام کام میں انجام دوں گا، لیکن حضرت حسینؓ نے جواب دیا کہ اگر میں حرم سے ایک بالشت بھی باہر قتل کیا جاؤں تو وہ مجھے حرم میں قتل ہونے سے زیادہ پسند ہے،حضرت حسینؓ کو ان کی طرف سے کچھ بد گمانی تھی (طبری:۷/۲۷۴) اس لئے ان کے مشوروں کو خیر خواہی پر محمول نہ فرمایا اور یوں بھی آپ کوفہ جانے کا فیصلہ کرچکے تھے، اس لئے ابن زبیر کا مشورہ رائگاں گیا۔