انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حضرت عروہ ؓبن مسعود ثقفی نام ونسب عروہ نام، ابو مسعود کنیت، نسب نامہ یہ ہے، عروہ بن مسعود بن مالک بن کعب ابن عمرو بن سعد بن عوف بن ثقیف بن منبہ بن بکر بن ہوازن بن عکرمہ بن خصفہ بن قیس عیلان ۔ اسلام سے پہلے ۶ھ میں جب آنحضرتﷺ عمرہ کی نیت سے مکہ روانہ ہوئے اورحدیبیہ کے قریب پہنچ کر بدیل کی زبانی معلوم ہوا کہ قریش مزاحمت کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں تو آپ نے ان سے فرمایا ہم کسی سے لڑنے نہیں آئے ہیں،ہمارا مقصد صرف عمرہ کرنا ہے، قریش کو پیہم لڑائیوں نے بہت خستہ اور کمزور کردیا ہے، اس لیے ان کو لڑنا مناسب نہیں ہے۔ بہتر صورت یہ ہے کہ وہ ہم سے ایک معین مدت کے لیے صلح کرلیں اورہمارا اورقوم کا معاملہ اپنی حالت پر چھوڑدیں،جب ہم غالب ہوں گے،تو انہیں اختیار ہوگا کہ وہ ہماری جماعت میں شامل ہوں یانہ شامل ہوں اوراگر مصالحت منظور نہیں ہے تو اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہےجب تک جان باقی ہےاس وقت تک ان سے لڑوں گا؛ تا آنکہ خدا اپنا فیصلہ پورا کرے۔ آنحضرتﷺ کی یہ گفتگو سن کر بدیل قریش کے پاس گئے اوران سے کہا میں محمدﷺ کی باتیں سن کر آیا ہوں،اگر تم لوگ پسند کرو تو میں بیان کروں، پرجوش اورنا تجربہ کار لوگوں نے کہا ہم کو سننے کی ضرورت نہیں ہے،لیکن سنجیدہ اورسمجھ دار آدمیوں نے سننے پر آمادگی ظاہر کی بدیل نے پوری گفتگو سنادی، یہ مصالحانہ باتیں سن کر عروہ بن مسعود نے قریش سے سوال کیا ،کیا میں تمہارا باپ اور تم میرے بچے نہیں ہو؟ سب نے اثبات میں جواب دیا، پھر پوچھا تم کو میری جانب سے کوئی بد گمانی تو نہیں ہے، سب نے نفی میں جواب دیا، پھر سوال کیا کیا تم کو یہ معلوم نہیں ہے کہ میں نے عکاظ والوں سے تمہاری مدد کے لیے کہا تھا اور جب انہوں نے انکار کیا تو میں خود اپنے بال بچوں سمیت اورجن جن لوگوں نے میرا کہنا مانا سب کو لیکر تمہاری مدد کے لیے نہیں آیا، یہ تمام باتیں تسلیم کرانے کے بعد بولے جب ان باتوں کو مانتے ہو تو میری بات سنو، محمدﷺ نے نہایت معقول صورت پیش کی ہے،اس کو منظور کرلو اور مجھے اجازت دو کہ میں جاکر ان سے گفتگو کرکے معاملات طے کر آؤں ،سب نے بالاتفاق انہیں نمایندہ بناکر بھیجا؛چنانچہ یہ آنحضرتﷺ کی خدمت میں پہنچے، آپ نے ان کے سامنے بھی وہی صورت پیش کی ،جو بدیل کے سامنے پیش کرچکے تھے،عروہ نے کہا محمد ﷺ ہم نے فرض کیا،اگر تم نے قریش کا استیصال بھی کردیا تو میں پوچھتا ہوں کہ کیا اس کی کوئی مثال مل سکتی ہے، کہ کسی نے اپنی قوم کو خود برباد کردیا ہو، اور اگر کچھ اورنتیجہ نکلا تو تمہارے گرد جو بھیڑ نظر آرہی ہے یہ سب چھٹ جائے گی اورجو چہرے اس وقت دکھائی دیتے ہیں ہوا ہوجائیں گے ،حضرت ابوبکرؓ یہ بد گمانی سن کر بے تاب ہوگئے اور درشتی کے ساتھ کہا کہ ہم ان کو چھوڑ کر بھاگ جائیں گے؟ عروہ نے پوچھا یہ کون ہے،معلوم ہوا ابوبکرؓ ،ابوبکرؓ کا نام سن کر کہا خدا کی قسم اگر میں تمہارے احسان سے گراں بار نہ ہوتا تو تمہاری سخت کلامی کا جواب دیتا۔ عروہ عربوں کی عادت کے مطابق اثنائے گفتگو میں بار بار آنحضرتﷺ کی ریش مبارک کی طرف ہاتھ بڑھاتے تھے، مغیرہ بن شعبہ جو ہتھیار لگائے،آپ کی پشت پر کھڑے تھے، یہ بے باکانہ انداز گفتگو برداشت نہ کرسکے ،بار بار تلوار کے قبضہ پر ہاتھ ڈال کر رہ جاتے تھے،آخر میں عروہ کو ڈانٹا کہ خبر دار اب داڑھی کی طرف ہاتھ نہ بڑھنے پائے،عروہ نے پوچھا یہ کون ہے؟ معلوم ہوا مغیرہ عروہ نے کہا او دغا باز کیا میں نے ایک موقع پر تیری مدد نہیں کی تھی،(مغیرہ نے جاہلیت میں چند آدمیوں کو قتل کیا تھا،عروہ نے اس کی دیت ادا کی تھی) رسول اللہ ﷺ کے ساتھ صحابہ کی حیرت انگیز عقیدت کا یہ منظر دیکھ کر عروہ کے دل پر خاص اثر ہوا؛ چنانچہ واپس جاکر انہوں نے قریش سے بیان کیا کہ میں بادشاہوں کے درباروں میں گیا ہوں،لیکن محمدﷺ کے ساتھ ان کے ساتھیوں کو جو عقیدت ہے اورجس قدر وہ لوگ ان کا احترام کرتےہیں وہ کسی بادشاہ کو نصیب نہیں ہے میں نے قیصر وکسریٰ کے بھی دربار دیکھے ہیں،لیکن عقیدت ووارفتگی کا یہ منظر کہیں نہیں نظر آیا ،محمدﷺ تھوکتے ہیں تو ان کے ساتھی تھوک کو ہاتھوں اور چہروں پر مل لیتے ہیں، وہ وضو کرتے ہیں تو لوگ پانی پر اس طرح ٹوٹ پڑتے ہیں کہ معلوم ہوتا ہے اس کے لیے کشت وخون ہوجائے گا،جب وہ کوئی حکم دیتے ہیں تو ہر شخص اس کو تعمیل کے لیے دوڑتا ہے،جب وہ بولتے ہیں تو مجلس میں سناٹا چھا جاتا ہے،کوئی شخص ان کی طرف نظر بھر کر نہیں دیکھ سکتا، ایسے شخص نے ایک معقول صورت پیش کی ہے،تم کو اسےقبول کرلینا چاہیے۔ (بخاری کتاب الشروط فی الحباروالمصاتحہ مع اہل الحرب) اسلام ۸ھ میں جب آنحضرتﷺ غزوۂ تبوک سے واپس ہورہے تھے تو واپسی میں عروہ بھی پیچھے ہولیے اورمدینہ پہنچنے سے قبل آپ سے مل کر مشرف بااسلام ہوگئے۔ تبلیغ اسلام اورشہادت قبولِ اسلام کے بعد آنحضرتﷺ سے اپنے قبیلہ میں اشاعت اسلام کی اجازت مانگی، آپ کو بنی ثقیف کی کجی فطرت اوران کی رعونت کا پورا اندازہ تھا، فرمایا یہ لوگ تم سے لڑیں گے؟عرض کیا یا رسول اللہ ! وہ لوگ مجھے بہت مانتے اورعزیز رکھتے ہیں اور باصرار آپ سے اجازت لیکر بنی ثقیف پہنچے، عروہ کو بنی ثقیف پر بڑا اعتماد تھا اس لیے آتے ہی اپنے اسلام کا اعلان کرکے انہیں اسلام قبول کرنے کی دعوت دی،اس وقت ان کو بنی ثقیف کے متعلق اپنے غلط حسن ظن کا پورا اندازہ ہوا،ان کی دعوت کا جواب بجائے زبان کے تیروں سے ملا ایک تیر آکر عروہ کے لگا، جو تیر قضا ثابت ہوا،یہ ابن ہشام کی روایت ہے۔ (ابن ہشام:۲/۳۳۵) مستدرک کی روایت کے مطابق واقعہ کی صورت یہ ہے کہ جب عروہ آنحضرتﷺ سے اجازت لیکر اپنے قبیلہ پہنچے تو رات کا وقت تھا، لوگ ان کی آمد کی خبر سن کر ملنے آئے،انہوں نے ان کے سامنے اسلام پیش کیا، انہیں اس کے جواب میں ایسی سخت باتیں سننی پڑیں جو ان کے وہم وگمان میں بھی نہ تھیں، رات ہوچکی تھی،اس لیے بنی ثقیف اسی وقت غصہ گرمی دکھا کہ لوٹ گئے،صبح کو عروہ نے فجر کی اذان دی،یہ غیر مانوس صدا سن کر ان کے کسی اہل قبیلہ نے تاک کر تیر مارا۔ (مستدرک حاکم:۳/۶۱۶) تیر لگنے کے بعد لوگوں نے پوچھا اپنے خون کے متعلق تمہارا کیا خیال ہے،کہا یہ خدا کا خاص احسان وکرم ہے جس سے اس نے مجھے نوازا ہے میرا رتبہ ان لوگوں کے برابر ہے جو رسول اللہ ﷺ کے ساتھ شہید ہوئے ،اس لیے مجھے انہی لوگوں کے ساتھ دفن کرنا، زخم مہلک تھا،اس لیے جانبر نہ ہوسکے اور وصیت کے مطابق مسلمانوں کے گنج شہیداں میں سپرد خاک کئے گئے۔ (سیرت ابن ہشام:۲/۳۳۵) آنحضرت ﷺ نے ان کی شہادت کی خبر سنی تو فرمایا عروہ کے مثال صاحبِ یسین (حضرت عیسیٰ) جیسی ہے جنہوں نے اپنی قوم کو خدا کی طرف بلایا اور اس نے ان کو شہید کردیا۔ (مستدرک حاکم:۳/۶۱۶) اس اسوۂ عیسوی کو پورا کرنے والا صورۃبھی مثیل مسیح تھا،آنحضرتﷺ فرماتے تھے کہ مجھے انبیا کی (مثالی) صورتیں دکھائی گئیں،مسیح عروہ کے ہم شکل تھے، جبریل دحیہ کلبی کے ہم شبیہ اور ابراہیم میرے، حضرت عمرؓ کو عروہ کی شہادت کا بڑا قلق ہوا، اورآپ نے ان کا مرثیہ کہا۔ (استیعاب:۲/۵۰۵)