انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** عمر بن سعد کی آمد غرض تیسری محرم۶۱ھ کو چار ہزار فوج کے ساتھ ابن سعد نینوا پہنچا اورعزرہ بن قیس احمسی کو حضرت حسینؓ کے پاس ان کے آنے کا سبب پوچھنے کیلئے بھیجنا چاہا کہ وہ یہاں کیوں آئے ہیں؟ اورکیا چاہتے ہیں،لیکن عزرہ ان لوگوں میں سے تھا جنہوں نے حضرت حسینؓ کو بلانے کے خطوط لکھے تھے اس لئے اب اس کو یہ پوچھنے کے لئے جاتے ہوئے غیرت معلوم ہوئی اس لئے انکار کردیا، اس کے انکار پر دوسرے لوگوں کے سامنے یہ خدمت پیش کی گئی،لیکن مشکل یہ تھی کہ جس کا نام لیا جاتا تھا وہ حضرت حسینؓ کے بلانے والوں میں نکلتا تھا،اس لئے کوئی آمادہ نہ ہوتا تھا، آخر میں ایک جری شخص کثیر بن عبداللہ شعبی نے کھڑے ہوکر کہا کہ میں جاؤں گا اگر ان کے ساتھ کچھ اورمقصد ہو تو وہ بھی پورا کرنے کو تیار ہوں،ابن سعد نے کہا میں اورکچھ نہیں چاہتا،ان سے جاکر صرف اتنا پوچھو کہ وہ کس لئے آئے ہیں؟ چنانچہ کثیر یہ پیام لیکر گیا،ابو ثمامہ صائدی نے حضرت حسینؓ کو اطلاع دی کہ ابو عبداللہ آپ کے پاس روئے زمین کا شریر ترین اورخونریز ترین شخص آرہا ہے، پھر کثیر بن عبداللہ سے کہا کہ تلوار علیحدہ رکھ کر حسینؓ سےملاقات کرو، کثیر نے جواب دیا: خدا کی قسم یہ کسی طرح نہیں ہوسکتا ،میں قاصد ہوں ،پیام لایا ہوں، اگر تم سننا چاہو تو پیام پہنچادوں گا،ورنہ واپس چلاجاؤں گا،ابوثمامہ نے کہا اچھا اگر تلوار نہیں رکھتے تو میں تمہاری تلوار کے قبضہ پر ہاتھ رکھے رہوں گا، تم حسینؓ کے ساتھ گفتگو کرلینا، کثیر نے کہا یہ بھی نہیں ہوسکتا تم قبضہ بھی نہیں چھوسکتے، ابو ثمامہ نے کہا اچھا تم مجھے پیام بتادو میں جاکر حسینؓ کو پہنچادوں گا، کثیر اس پر بھی آمادہ نہ ہوا اوربلا پیام پہنچائے ہوئےلوٹ گیا اس کی واپسی کے بعد ابن سعد نے قرہ بن سعد حنظلی کو بھیجا یہ سنجیدہ اورسلجھے ہوئے آدمی تھے، انہوں نے جاکر سلام کے بعد ابن سعد کا پیام پہنچایا، حضرت حسینؓ نے جواب دیا کہ تمہارے شہر والوں نےمجھے خطوط لکھ کر بلایا ہے، اب اگر تم لوگ میر آنا ناپسند کرتے ہو تو میں لوٹ جاؤں، قرہ نے جاکر ابن سعد کو یہ جواب سنادیا، جواب سن کر اس نے اطمینان کی سانس لی اورکہا امید ہے کہ اب خدا مجھ کو حسینؓ کے ساتھ جنگ کرنے سے بچالے گااوراپنا سوال اورحسینؓ کا جواب لکھ کر بھیج دیا، لیکن کاتب ازل اس کا نامہ اعمال سیاہ کرچکا تھا، اس لئے ابن سعد کی اس مصالحانہ تحریر کے بعد بھی اس نے صلح و مسالمت کی روش اختیار نہ کی اورابن سعد کو جواب لکھا کہ تمہارا خط ملا، تم نے جو کچھ لکھا میں سمجھا تم حسینؓ اوران کے کل ساتھیوں سے یزید کی بیعت لے لو جب وہ بیعت کرلیں گے اس وقت پھر دیکھا جائے گا، ابن سعد کو یہ تحریر ملی تو بولا، معلوم ہوتا ہے ابن زیاد دامن عافیت نہیں چاہتا۔