انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** معتزلہ کا انکار حجیت پیغمبر کا انکار نہ تھا معتزلہ کا یہ خلاف سرمایہ حدیث کی اخبار احاد Single Reports سے اختلاف تھا، حجیت پیغمبر کا انکار نہ تھا، ان کے شیخ ابو علی جبائی نے حدیث کی صحت کے لیے عزیز ہونے کی شرط لگائی ہے۔ (دیکھئے: تدریب الراوی للسیوطی:۱۷؛البتہ معتزلی مفکر جناب ابو الحسین مصری ازروئے عقل عبادات میں خبر واحد کی پیروی کے قائل تھے "الاحکام للآمدی:۲/۷۵") جس سے واضح ہوتا ہے کہ وہ اصولا حجیت پیغمبر کے قائل تھے،ہاں فکر و نظر کو زیادہ سے زیادہ راہ دینے کے لیے خبر واحد کے انکار کی آڑ لینا،ان کا ایک علمی حربہ تھا، بعض اوقات یہ اس تاویل سے حدیث کا انکار کرجاتے تھے کہ یہ مضمون ان کے زعم میں قرآن پاک کی فلاں آیت کے خلاف ہے۔ گنہگار مسلمانوں کی شفاعت آنحضرتﷺ کی نہات واضح اور محکم روایات سے ثابت ہے،مگر معتزلہ یہ کہہ کر ان سب احادیث کا انکار کردیتے ہیں کہ یہ سب احادیث قرآنی ارشاد: "فَمَا تَنْفَعُهُمْ شَفَاعَةُ الشَّافِعِينَ" (المدثر:۴۸) کے خلاف ہیں،حالانکہ یہ آیت اپنی جگہ خود متشابہ اور محتاج تاویل تھی، اس سے کفار مراد لیے جاسکتے ہیں، کافر کے حق میں کسی کی شفاعت قبول نہ ہو گی(تفصیل کے لیے دیکھئے اعلام الموقعین لابن القیم:۲/۲۲۱) قرآن کریم میں شفاعت بالاذن کا اقرار پوری صراحت سے دوسری جگہ موجود ہے۔ "مَنْ ذَا الَّذِي يَشْفَعُ عِنْدَهُ إِلَّابِإِذْنِهِ" (البقرۃ:۲۲۵) کون ہے جو اس کے ہاں کسی کی شفاعت کرسکے؟ ہاں اس کے اذن سے کرسکے گا یہ صورت متثنیٰ ہے اور یہ اذن بھی صرف مسلمانوں کے لیے ہوسکے گا۔ لہٰذا یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد نہیں ہوسکتا، اس اندازِ فکر سے ہمیں علمی سطح پر بہت اختلاف ہے؛لیکن ہم یہ بات پورے وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ اس میں پیغمبر کی Autority حیثیت کا ہرگز انکار نہیں، حجیت پیغمبر کا موضوع کہیں بھی اور کبھی بھی اسلام میں اختلافی نہیں رہا۔