انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے والد ماجد ایک روز عبدالمطلب نے خواب میں چاہ زمزم کا نشان دیکھا اورکھودنا شروع کیا،یہ وہ مقام تھا جہاں اساف اورنائلہ دوبت رکھے ہوئے تھے،قریش مانع ہوئے اورلڑنے کو تیار ہوگئے،یہ صرف دوہی شخص باپ بیٹے تھے،کوئی مدد گار و معاون اُن کا نہ تھا،تاہم یہ غالب ہوئے اورکنواں کھودنے کے کام میں مصروف رہے، اس وقت عبدالمطلب نے اپنی تنہائی کو محسوص کیا اورمنت مانی کہ اگر خدائے تعالی مجھ کو دس بیٹے عطا کرے اورپانی کا چشمہ بھی نکل آئے تو میں اپنے بیٹوں میں سے ایک کو خدا کے نام پر قربان کروں گا،چند روز کی محنت کے بعد چشمہ بھی نکل آیا اور خدائے تعالی نے عبدالمطلب کو دس بیٹے عطا کئے،چاہ زمزم کے نکل آنے سے قریش میں عبدالمطلب کا سکہ بیٹھ گیا تھا اورسب اُن کی سرداری اوربزرگی کے قائل ہوگئے تھے،جب عبدالمطلب کے بیٹے جوان ہوگئے تو انہوں نے اپنی مانی ہوئی منت پوری کرنی چاہی، سب بیٹوں کو لے کر کعبہ میں گئے،ہبل کے سامنے قرعہ اندازی کی،اتفاق کی بات قرعہ کا تیر سب سے چھوٹے بیٹے عبداللہ کے نام نکلا جو عبدالمطلب کو سب سے زیادہ عزیز تھا، عبدالمطلب چونکہ اپنی نذر کو پورا کرنا چاہتے تھے مجبوراً عبداللہ کو ہمراہ لے کر قر بان گاہ کی طرف چلے،عبداللہ کے تمام بھائیوں، بہنوں اورقریش کے سرداروں نے عبدالمطلب کو اس حرکت یعنی عبداللہ کے ذبح کرنے سے باز رکھنا چاہا مگر عبدالمطلب نہ مانے بالآخر بڑی رد وکد کے بعد یہ معاملہ سجاع نامی کاہنہ کی طرف رجوع کیا گیا، اُس نے کہا تمہارے ہاں ایک آدمی کا خوں بہادس اونٹ ہیں،پس تم ایک طرف دس اونٹ اورایک طرف عبداللہ کو رکھو اورقرعہ ڈالو، اگر قرعہ اونٹوں کے نام نکل آئے تو ان دس اونٹوں کو ذبح کرو اور قرعہ عبداللہ کے نام پر آئے تو دس اونٹ اوربڑھا کر بیس اونٹ عبداللہ کے بالمقابل رکھو، اورپھر قرعہ ڈالو، اسی طرح ہر مرتبہ دس دس اونٹ بڑھاتے جاؤ، یہاں تک کہ قرعہ اونٹوں کے نام پر آجائے ؛چنانچہ ایسا ہی کیا گیا اورقرعہ عبداللہ ہی کے نام نکلتا رہا،یہاں تک کہ جب اونٹوں کی تعداد سو ہوگئی تب اونٹوں کے نام قرعہ آیا، عبدالمطلب نے اپنی تسکین خاطر کے لئے دو مرتبہ پھر قرعہ ڈالا اوراب ہر مرتبہ اونٹوں ہی کے نام قرعہ نکلا، وہ سو اونٹ ذبح کئے گئے اورعبداللہ کی جان بچی ،اُس وقت سے ایک آدمی کا خوں بہا قریش میں سو اونٹ مقرر ہوئے،عبدالمطلب کے کُل تیرہ بیٹے اور چھ بیٹیاں پیدا ہوئیں ۔ عام الفیل سے چند روز پیشتر عبدالمطلب نے اپنے بیٹے عبداللہ کی شادی قریش کے معزز گھرانے میں آمنہ بنت وہب سے کردی تھی،اُس وقت عبداللہ کی عمر چوبیس سال کی تھی،اسی موقع پر عبدالمطلب نے ہالہ بنت وہب سے جو آمنہ کی رشتہ دار تھی اپنی شادی کی تھی، اسی ہالہ بنت وہیب کے بطن سے حضرت حمزہؓ پیدا ہوئے تھے،شادی کے چند روز بعد عبدالمطلب نے عبداللہ کو ایک تجارتی قافلہ کے ساتھ بغرض تجارت ملک شام کی طرف روانہ کیا، واپسی میں عبداللہ بیمار ہوکر مدینہ میں اپنے رشتہ داروں کے پاس ٹھہر گئے اوراپنی بیماری کا حال باپ کے پاس کہلا بھجوایا،مکہ میں جب عبداللہ کی بیماری کا حال عبدالمطلب کو معلوم ہوا تو انہوں نے اپنے بیٹے حارث کو عبداللہ کی خبر گیری اورمکہ میں بہ حفاظت واپس لانے کے لئے بھیجا، حارث کے مدینہ پہنچنے سے پہلے ہی عبداللہ فوت ہوکر اپنے رشتہ دار بنو نجار کے قبرستان میں مدفون ہوچکے تھے،حارث نے مکہ میں واپس آکر یہ روح فرسا اورجاں گُسل خبر عبدالمطلب کو سنائی،عبداللہ نے اپنے بعد چند اونٹ،چند بکریاں اورایک لونڈی اُم ایمن ترکہ چھوڑا تھا،حضرت آمنہ حاملہ تھیں اورآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ابھی شکم مادری میں تھے کہ یتیم ہوگئے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے والد عبداللہ کی عمر پچیس ہی سال کی تھی کہ فوت ہوگئے، واقعہ اصحاب الفیل کے باون یا پچپن روز کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم ماں کے پیٹ سے پیدا ہوئے،ماں نے ایام حمل ہی میں خواب میں دیکھا تھا کہ فرشتہ نے ان سے آکر کہا کہ جو بچہ تیرے پیٹ میں ہے اُس کا نام احمد ہے،اس لئے ماں نے آپ کا نام احمد رکھا ، عبدالمطلب نے اس پوتے کا نام محمد رکھا،ابو الفدا کی روایت کے موافق لوگوں نے تعجب کے ساتھ عبدالمطلب سے دریافت کیا کہ آپ نے اپنے خاندان کے مروجہ ناموں کو چھوڑ کر یہ نیا نام کیوں اختیار کیا؟ عبدالمطلب نے جواب دیا: اس لئے کہ میرا پوتا دنیا بھر کی ستائش وتعریف کا شایاں قرار پائے، ابن سعدؓ سے مروی ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پیدا ہوئے تو آپ کے ساتھ کچھ آلائش نہ نکلی جیسی کہ اوربچوں کے ساتھ بوقت پیدائش نکلتی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ماں کے پیٹ ہی سے مختون پیدا ہوئے تھے، مورخین نے یہ بھی روایت کی ہے کہ جب آپ پیدا ہوئے ٹھیک اُسی وقت کسرائے نوشیروان کے محل میں سخت زلزلہ آیا اوراس کے چودہ کنگرے گرگئے، استخر کا مشہور آتش کدہ دفعتاً بجھ گیا ،عبدالمطلب نے آپ کی پیدائش کے ساتویں دن اس خوشی میں قربانی کی اورتمام قریش کو دعوت دی۔