انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حضرت سلیمانؓ بن صرو نام ونسب سلیمان نام، ابو مطرف کنیت، نسب نامہ یہ ہے،سلیمان بن صرو بن جون بن ابی الجون بن منقد بن ربیعہ بن اصرم بن خبیس بن حرام بن جشیہ بن سلول بن کعب بن عمرو بن ربیعہ خزاعی۔ اسلام فتح مکہ سے پہلے مشرف باسلام ہوئے ،جاہلی نام یسار تھا، آنحضرتﷺ نے بد ل کر سلیمان رکھا،قبولِ اسلام کے بعد صحبت نبوی سے بھی مستفید ہوئے، اسلم وصحب النبی ﷺ ۔ جنگ صفین حضرت علیؓ کے پرجوش حامیوں میں تھے، جنگ صفین میں انہوں نے بڑے کارنامے دیکھائے ،شامی فوج کے مشہور بہادر حوشب ذی ظلیم کو ان ہی نے مارا تھا، (اخبار الطوال:۱۹۸) اس جنگ میں سلیمان بہت زخمی ہوئے،لیکن کوئی زخم پشت پر نہ تھا، سب سامنے رخ پر تھے،صلحنامہ کی کتابت کے بعد حضرت علیؓ سے کہا امیر المومنین اگر اس وقت کوئی مدد گار ہوتا تو ہم ہر گز یہ معاہدہ منظور نہ کرتے۔ (ایضاً) حضرت علیؓ کی شہادت کے بعد آپ کی اولاد امجاد کے بھی اسی طرح خیر خواہ رہے، حضرت حسنؓ نے صرف چند مہینہ خلافت کرکے چھوڑدی، آپ کی وفات کے بعد جب کوفہ میں حضرت حسینؓ کے حامیوں کی جماعت بنی تو اس کے ایک سرگرم ممبر سلیمان تھے، ان کا گھر حامیان حسین کا مرکز تھا، یہیں سے حضرت حسینؓ کے پاس بلانے کے خطوط جاتے تھے۔ (اخبار الطوال:۱۹۸) لیکن یہ عجیب اتفاق ہے کہ جب حضرت حسینؓ تشریف لائے تو سلیمان ان کی کوئی مدد نہ کرسکے اور کربلا کا واقعہ ہائلہ پیش آگیا، اس واقعہ پر ان لوگوں کو سخت قلق ہوا،جو آپ کی مدد نہ کرسکے تھے؛چنانچہ سلیمان بن صرو اور ان کے دوسرے ساتھی مسیب بن نجد بہت نادم اور شرمسار ہوئے اورانہوں نے طے کیا کہ حضرت حسینؓ کے خون کا انتقام لے کر گذشتہ فرو گذاشت کی تلافی کرنی چاہیے چنانچہ سلیمان چار ہزار آدمیوں کو لیکر خونِ حسین کے انتقام کے لیے نکلے، یہ جماعت، توابین کہلاتی تھی، اس جماعت نے پہلا پڑاؤ ربیع الاول ۶۰ ھ میں مقام نخیلہ میں کیا یہاں سے قرقییا کے قریب عین الوردہ پہنچے، عین الوردہ میں شامی لشکر کا مقابلہ ہوا سلیمان نہایت بہادری سے لڑے اور حصین بن نمیر تمامی کے ہاتھوں مارے گئے، فرش زمین پر گرتے وقت یہ الفاظ زبان پر تھے، فزت برب الکعبۃ فزت برب الکعبۃ، رب کعبہ کی قسم میں کامیاب ہوا، رب کعبہ کی قسم میں کامیاب ہوا، اس طرح ابن رسول اللہ کے خون کے انتقام میں جان دیکر گذشتہ غلطی کی تلافی کی اورحسینؓ کی محبت کے جرم میں ان کا سر کاٹ کر مروان بن حکم کے پاس بھیجا گیا (ابن سعد،جلد۴،ق۲:۳۰)مقتول ہونے کے وقت ۹۳ سال کی عمر تھی۔ (استیعاب:۱/۵۷۲) عام حالات سلیمان بن صرو کوفہ میں رہتے تھے،خزیمہ کے محلہ میں مکان تھا، اعزاز وشرف میں ممتاز حیثیت رکھتے تھے، کان لہ سن عالیہ وشرف وقدر وکلمۃ فی قومہ یعنی وہ سن رسیدہ صاحب مرتبہ وشرف اوراپنے قوم میں بااثر تھے، نیکی فضل وکمال اورعبادت وریاضت میں بھی بلند مرتبہ تھے۔ (ایضاً)