انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** اہل بیت کا سفر کوفہ حضرت حسینؓ کی شہادت کے بعد شامی بقیۃ السیف اہل بیت کو کربلا سے کوفہ لے چلے، اس وقت تک شہداء کی لاشیں اسی طرح بے گوروکفن پڑی ہوئی تھیں، اہل بیت کا یہ ستم رسیدہ اور لٹا ہوا قافلہ اسی راستہ سے گزرا، بے گوروکفن لاشوں پر عورتوں کی نظر پڑی تو قافلہ میں ماتم بپا ہوگیا، حضرت حسینؓ کی بہن اورصاحبزادیوں نے سرپیٹ لئے زینب رورو کر کہتی تھیں کہ اے محمد گرقیامت سربروں آری نرخاک سربروں آروقیامت درمیان خلق بین اے دادا جان محمدﷺ جس پر ملائکہ آسمانی درود وسلام بھیجتے ہیں، آئیے دیکھئے حسینؓ کا لاشہ چٹیل میدان میں اعضا بریدہ، خاک وخون میں آلودہ پڑا ہے، آپ کی لڑکیاں قید ہیں آپ کی ذریت مقتول بھی ہوئی ہے،ہوا ان پر خاک اڑارہی ہے، یہ دلدوز بین سن کر دوست و دشمن سب رودیئے۔ اسی طریقہ سے یہ قافلہ کوفہ لے جاکر ابن زیاد کے سامنے پیش کیا گیا، اس وقت زینب ننگے پاؤں، نہایت خراب لباس اورخستہ حالت میں تھیں، لونڈیاں ساتھ تھیں، ابن زیاد نے اس زبوں حالت میں دیکھ کر پوچھا یہ کون ہیں؟ زینبؓ نے کوئی جواب نہ دیا، اس کے مکرر سہ کرر سوال پر ایک لونڈی نے کہا کہ زینب بنت فاطمہؓ ہیں، یہ سن کر اس سنگدل نے کہا خدا کا شکر ہے جس نے تم کو رسوا کیا، تمہیں قتل کیا اور تمہاری جدتوں کو جھٹلایا، زینبؓ نے جواب دیا، تیرا خیال غلط ہے، خدا کا شکر ہے کہ جس نے ہم کو محمدﷺ سے نوازا اورہم کو پاک کیا ہم نہیں ؛بلکہ فاسق (ابن زیاد) رسوا ہوتے ہیں اورجھٹلائے جاتے ہیں، ابن زیاد بولا تم نے دیکھا خدا نے تمہارے اہل بیت کے ساتھ کیسا سلوک کیا؟ زینب نے جواب دیا ، ان کی قسمت میں شہادت مقدر ہوچکی تھی، اس لئے وہ مقتل میں آئے اور عنقریب وہ اور تم خدا کے روبرو جمع ہوگے،اس وقت وہ اس کے سامنے اس کا انصاف طلب کریں گے، یہ دندان شکن جوابات سن کر ابن زیاد غصہ سے بے تاب ہوکر بولا، خدا نے تمہارے اہل بیت کے سرکش اور نافرمان آدمی سے میرا غصہ ٹھنڈا کردیا، شہید بھائی پر یہ چوٹ سن کر زینبؓ ضبط نہ کرسکیں اوررو کر کہنے لگیں، میری عمر کی قسم تم نے ہمارے ادھیڑوں کو قتل کیا ،ہمارے گھر والوں کو نکالا،ہماری شاخوں کو کاٹا، اورہماری جڑ کو اکھاڑا، اگر اسی سے تمہاری تسکین ہوتی تو ہوگئی، ابن زیاد زینبؓ کے یہ بیباکانہ جوابات سن کر بولا، یہ جرأت اوریہ شجاعت!میری عمر عمر کی قسم تمہارے باپ بھی شجاع تھے،زینبؓ بولیں، عورتوں کو شجاعت سے کیا تعلق۔ اس کے بعد زین العابدینؓ پر اس کی نظر پڑی، پوچھا، تمہارا نام کیا ہے جواب دیا علی بن حسینؓ،نام سن کر کہنے لگا، کیا خدا نے علی بن حسینؓ کو قتل نہیں کیا؟ زین العابدینؓ خاموش رہے،ابن زیاد نے کہا بولتے کیوں نہیں؟ فرمایا میرے دوسرے بھائی کا نام بھی علی تھا، وہ قتل ہوئے ،ابن زیاد نے کہا ان کو خدانے قتل نہیں کیا ،زین العابدینؓ پھر چپ ہوگئے ابن زیاد نے پھر پوچھا چپ کیوں ہو؟ انہوں نے جواب میں یہ آیت تلاوت کی: اللَّهُ يَتَوَفَّى الْأَنْفُسَ حِينَ مَوْتِهَا (الزمر:۴۲) اللہ ہی نفسوں کو موت دیتا ہے جب ان کی موت کا وقت آتا ہے۔ وَمَا كَانَ لِنَفْسٍ أَنْ تَمُوتَ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّهِ (آل عمران:۱۴۵) کسی نفس میں یہ مجال نہیں کہ بغیر اذن خداوندی کے مرجائے۔ ان کا جواب سن کر کہا تم بھی ان ہی میں ہو اوران کے بلوغ کی تصدیق کراکے قتل کا حکم دیا، یہ حکم سن کر زین العابدینؓ نے کہا ان عورتوں کو کس کے سپرد کروگے،جان نثار پھوپھی زینبؓ یہ سفاکانہ حکم سن کر تڑپ گئیں اور ابن زیاد سے کہا ابھی تک تم ہمارے خون سے سیر نہیں ہوئے ،کیا ہمارا کوئی بھی آسرا باقی نہ رکھو گے، یہ کہہ کر زینب العابدین سے چمٹ گئیں اورابن زیاد سے مصر ہوئیں کہ تم کو خدا کی قسم اگر ان کو قتل کرنا چاہتے ہو تو ان کے ساتھ مجھ کو بھی قتل کردو، لیکن زین العابدینؓ پر مطلق کوئی ہراس طاری نہ ہوا، انہوں نے نہایت سکون اور اطمینان سے کہا، اگر تم مجھے قتل ہی کرنا چاہتے ہو تو عزیز داری کا پاس کرکے اتنا کرو کہ کسی متقی آدمی کو ان عورتوں کے ساتھ کردو، جو ان کو اچھی طرح پہنچادے، زین العابدینؓ کی یہ درخواست سن کر ابن زیاد ان کا منہ تکنے لگا اور اس شقی کے دل میں بھی رحم آگیا حکم دیا کہ اس لڑکے کو عورتوں کے ساتھ رہنے کے لئے چھوڑدو۔