انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** خلافت اور فتوحات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ۱۰ ھ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حجۃ الوداع کے لئے تشریف لے گئے، حضرت ابوبکرؓ ہمرکاب تھے، اس سفر سے واپس آنے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مفصل خطبہ دیا اور فرمایا: "خدا نے ایک بندہ کو دنیا اور عقبیٰ کے درمیان اختیار دیا تھا؛لیکن اس نے عقبیٰ کو دنیا پر ترجیح دی" حضرت ابو بکر ؓ یہ سن کر رونے لگے لوگوں کو سخت تعجب ہوا کہ یہ رونے کا کون سا موقع تھا،(بخاری باب فضائل الصدیق ؓ)لیکن درحقیقت ان کی فراست دینی اس کنایہ کی تہہ تک پہنچ گئی اور وہ سمجھ گئے تھے کہ بندہ سے مراد خود ذات اقدس صلی اللہ علیہ وسلم ہے ؛چنانچہ اس تقریر کے بعد ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بیمارہوئے ، مرض روز بروز بڑھتا گیا، یہاں تک کہ مسجد نبوی میں تشریف لانے سے بھی معذور ہوگئے اور حکم ہوا کہ ابوبکر ؓ امامت کی خدمت انجام دیں ، حضرت عائشہ ؓ کو خیال ہوا کہ اگر امامت کا شرف حضرت ابوبکر ؓ کو عطاکیا جائے گا تو وہ محسودخلائق ہو جائیں گے، اس لئے انہوں نے خود اور ان کی تحریک سے حضرت حفصہ ؓ نے بارگاہ نبوت میں عرض کیا کہ ابوبکر ؓ نہایت رقیق القلب ہیں اس لئے یہ منصب جلیل عمر ؓ کو عطاکیا جائے ؛لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو بکر ؓ کی امامت کے لئے اصرار کے ساتھ حکم دیا اور برہم ہوکر فرمایا "تم وہی ہو جنہوں نے یوسف کو دھوکہ دینا چاہاتھا " ( بخاری باب اہل العلم والفضل احق باالامامۃ) حضرت ابوبکر ؓ کو جب اس حکم نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی اطلاع ہوئی تو انہوں نے حضرت عمر ؓ سے فرمایا کہ تم پڑھاؤ، انہوں نے کہا آپ مجھ سے زیادہ مستحق ہیں،(ایضاً) غرض اس روز سے حضرت ابوبکر ؓ ہی نماز پڑھاتے رہے،ایک روز حسب معمول نماز پڑھارہے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے،حضرت ابوبکر ؓ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ کرپیچھے ہٹنا چاہا ؛لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اشارہ سے منع فرمایا اور خود ان کے داہنے پہلو میں بیٹھ کر نماز اداکی۔ (بخاری باب من قام الی جنب الامام بعلۃ) ۱۲ /ربیع الاول دوشنبہ کے روز جس دن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات پائی حضرت ابوبکر ؓ نماز پڑھارہے تھے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حجرے کا پردہ اٹھاکر دیکھا اور خوش ہوکر مسکرائے توحضرت ابوبکر ؓ نے اس خیال سے کہ شاید آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے لئے تشریف لائیں گے پیچھے ہٹنا چاہا؛لیکن اشارہ سے حکم ہوا کہ نمازپوری کرو اور پھر پردہ گرادیا،(بخاری باب اہل العلم والفضل حق بالامامۃ)چونکہ اس روز بظاہر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مرض میں افاقہ معلوم ہوتا تھا اس لئےحضرت ابوبکر ؓ نماز کے بعد اجازت لے کر مقام سخ کو جہاں ان کی زوجہ محترمہ حضرت خارجہ بنت زہیر ؓ رہتی تھیں ، تشریف لے گئے،(بخاری باب الدخول علی المیت بعد الموت)حضرت ابوبکرصدیق ؓ سخ سے واپس آئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہوچکا تھا اور مسجد کے دروازہ پر ایک ہنگامہ برپا تھا ؛لیکن وہ کسی سے کچھ نہ بولے اور سیدھے حضرت عائشہ ؓ کے مکان میں داخل ہوئے اور اپنے محبوب آقا کے نورانی چہرہ سے نقاب اٹھاکر پیشانی پر بوسہ دیا اور روکر کہا: بابی بکرانت وامی واللہ لایجمع اللہ علیک موتتین اماالموتۃ التی کتبت علیک فقد ذقتھاثم لن تصیبک بعدہ موتۃ ابدًا "میرے ماں باپ آپ پر فداہوں ،خدا کی قسم! آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر دو موتیں جمع نہ ہونگی، وہ موت جو آپ کے لئے مقدر تھی اسکا مزہ چکھ چکے اس کے بعد اب پھر کبھی موت نہ آئے گی" پھر چادر ڈال کر باہر تشریف لائے ، حضرت عمر ؓ جوش وارفتگی میں تقریر کررہے تھےاور قسم کھا کھا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے انتقال فرمانے سے انکار کررہے تھے، حضرت ابوبکر ؓ نے یہ حال دیکھا تو فرمایا عمر ؓ !تم بیٹھ جاؤ؛لیکن انہوں نے وارفتگی میں کچھ خیال نہ کیا، تو آپ نے الگ کھڑے ہوکر تقریری شروع کردی اور تمام مجمع آپ کی طرف جھک پڑا اور حضرت عمر ؓ تنہا رہ گئے، آپ نے فرمایا: اما بعد فمن کان یعبد محمدافان محمدا قدمات ومن کان یعبد اللہ فان اللہ حی لایموت قال اللہ تعالی وما محمدا الا رسول قد خلت من قبلہ الرسل ،الایۃ "اگر لوگ محمد کی پرستش کرتے تھے تو بیشک ان کا انتقال ہوگیا اور اگر خدا کوپوجتے تھے تو بیشک وہ زندہ ہے اور کبھی نہ مرےگا، خدائے برتر فرماتا ہے "محمد صرف ایک رسول ہیں جن سے پہلے بہت سے رسول گزرچکے ہیں" یہ تقریر ایسی دل نشین تھی کہ ہر ایک کا دل مطمئن ہوگیا،خصوصاً جو آیت آپ نے تلاوت فرمائی وہ ایسی باموقع تھی کہ اسی وقت زبان زدخاص وعام ہوگئی،حضرت عبداللہ فرماتے ہیں کہ خدا کی قسم! ہم لوگوں کو ایسا معلوم ہوا کہ گویا یہ آیت پہلے نازل ہی نہیں ہوئی تھی۔ (بخاری باب مرض النبی صلی اللہ علیہ وسلم ووفاتہ) سقیفہ بنی ساعدہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے انتقال کی خبر مشہورہوتے ہی منافقین کی سازش سے مدینہ میں خلافت کافتنہ اُٹھ کھڑاہوا اور انصار نے سقیفہ بنی ساعدہ میں مجتمع ہوکر خلافت کی بحث چھیڑ دی، مہاجرین کو خبر ہوئی تو وہ بھی مجتمع ہوئے اور معاملہ اس حد تک پہنچ گیا کہ اگر حضرت ابوبکر صدیق ؓ اور حضرت عمر فاروق ؓ کو وقت پر اطلاع نہ ہوجاتی تو مہاجرین اور انصار جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں بھائی بھائی کی طرح رہتے تھے باہم دست وگریباں ہوجاتے اور اس طرح اسلام کا چراغ ہمیشہ کے لئے گل ہوجاتا ؛لیکن خدا کو توحید کی روشنی سے تمام عالم کو منور کرنا تھا، اس لئے اس نے آسمان اسلام پر ابوبکر ؓ وعمر ؓ جیسے مہر وماہ پیداکردیئے تھے جنہوں نے اپنی عقل وسیاست کی روشنی سے افق اسلام کی ظلمت اور تاریکیوں کو کافور کردیا۔ حضرت ابوبکر ؓ،حضرت عمر ؓ کو ساتھ لئے ہوئے سقیفہ بنی ساعدہ پہنچے،انصارنے دعویٰ کیا کہ ایک امیر ہمارا ہو اور ایک تمہارا، ظاہر ہے کہ اس دوعملی کا نتیجہ کیا ہوتا؟ممکن تھا کہ مسند خلافت مستقل طورپر صرف انصار ہی کے سپرد کردی جاتی ؛لیکن دقت یہ تھی کہ قبائل عرب خصوصا ًقریش ان کے سامنے گردن اطاعت خم نہیں کرسکتے تھے،پھر انصار میں بھی دوگروہ تھے اوس اور خزرج اور ان میں باہم اتفاق نہ تھا، غرض ان دقتوں کو پیش نظر رکھ کر حضرت ابوبکر ؓ نے کہا"امراء ہماری جماعت سے ہوں اور وزراءتمہاری جماعت سے" اس پر حضرت خباب بن المنذرانصاری ؓ بول اٹھے، نہیں !خداکی قسم نہیں، ایک امیرہمارا ہو اور ایک تمہارا،حضرت ابوبکر ؓ نے یہ جوش وخروش دیکھا تو نرمی وآشتی کے ساتھ انصار کے فضائل ومحاسن کا اعتراف کرکے فرمایا: "صاحبو: مجھے آپ کے محاسن سے انکار نہیں ؛لیکن درحقیقت تمام عرب قریش کے سواکسی کی حکومت تسلیم ہی نہیں کرسکتا پھر مہاجرین اپنے تقدم اسلام اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خاندانی تعلقات کے باعث نسبتاً آپ سے زیادہ استحقاق رکھتے ہیں، یہ دیکھو ابوعبیدہ بن الجراج اور عمر بن خطاب ؓ موجود ہیں ان میں سے جس کے ہاتھ چاہو بیعت کرلو" لیکن حضرت عمر ؓ نےپیش دستی کرکے خود حضرت ابو بکر ؓ کے ہاتھ میں ہاتھ دیدیا اور کہا: نہیں ؛بلکہ ہم آپ کےہاتھ پربیعت کرتے ہیں؛ کیونکہ آپ ہمارےسرداراورہم لوگوں میں سب سےبہترہیں اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ کوسب سےزیادہ عزیزرکھتےتھے۔ (بخاری ج۱:۵۱۸) چنانچہ اس مجمع میں حضرت ابوبکر ؓ سے زیادہ کوئی بااثر بزرگ اور معمر نہ تھا اس لئے اس انتخاب کو سب نے استحسان کی نگاہ سے دیکھا اور تمام خلقت بیعت کے لئے ٹوٹ پڑی، اس طرح یہ اٹھتاہوا طوفان دفعۃً رک گیا اور لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تجہیز وتکفین میں مشغول ہوئے۔ اس فرض سے فارغ ہونے کے بعد دوسرے روز مسجد میں بیعت عامہ ہوئی اور حضرت ابوبکرصدیق ؓ نے منبر پر بیٹھ کر ان الفاظ میں اپنے آئندہ طرز عمل کی توضیح فرمائی: یایھاالناس فانی قدولیت علیکم ولست بخیر کم فان احسنت فاعینونی وان اسات فقومونی الصدق امانۃ والکذب خیانۃ والضعیف فیکم قوی عندی حتی ازیح علیہ حقہ انشاء اللہ و والقوی فیکم ضعیف عندی حتی اخذ الحق منہ ان شاء اللہ لا یدع قوم الجھاد فی سبیل اللہ الاضر بھم اللہ بالذل ولا تشیع الفاحشۃ فی قوم قط الاعمھم اللہ بالبلاء واطیعونی مااطعت اللہ ورسولہ فاذا عصیت اللہ رسولہ فلا طاعۃ لی علیکم قوموالی صلاتکم یرحمکہ اللہ۔ " صاحبو میں تم پر حاکم مقرر کیا گیا ہوں؛ حالانکہ میں تم لوگوں میں سب سے بہتر نہیں ہوں، اگر میں اچھا کام کروں تو تم میری اعانت کرو اگر برائی کی طرف جاؤں تو مجھے سیدھا کردو، صدق امانت ہے اور کذب خیانت ہے، انشاء اللہ تمہارا ضعیف فرد بھی میرے نزدیک قوی ہے یہاں تک کہ میں اس کا حق واپس دلادوں ، انشاء اللہ اور تمہارا قوی مرد بھی میرے نزدیک ضعیف ہے یہاں تک کہ میں اس سے دوسروں کا حق دلادوں، جو قوم جہاد فی سبیل اللہ چھوڑدیتی ہے اسکو خداذلیل وخوار کردیتا ہےاور جس قوم میں بدکاری عام ہوجاتی ہے خدا اسکی مصیبت کو بھی عام کردیتا ہے،میں خدااور اسکے رسول کی اطاعت کروں تو میری اطاعت کرو ؛لیکن جب خدا اور اسکے رسول کی نافرمانی کروں تو تم پر اطاعت نہیں اچھا اب نماز کے لئے کھڑے ہو جاؤ،خداتم پر رحم کرے" حضرت علی ؓ کی بیعت گو تمام مسلمانوں نے حضرت ابوبکر ؓ کے ہاتھ پر بیعت کرلی اور وہ باقاعدہ مسند خلافت پر متمکن ہوگئے ، تاہم حضرت علی ؓ اور ان کے بعض دوسرے صحابہ ؓ نے کچھ دنوں تک بیعت میں تاخیر کی، اس توقف نے تاریخ اسلام میں عجیب وغریب مباحث پیدا کردئے ہیں جن کی تفصیل کے لئے اس اجمال میں گنجائش نہیں، ممکن ہے کہ حضرت علی ؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے مخصوص تعلقات کی بناپر خلافت کے آرزومند ہوں اور اس انتخاب کو اپنی حق تلفی سمجھتے ہوں تاہم ان کا حق پرست دل نفسانیت سے پاک تھا، اس لئے یہ کسی طرح قیاس میں نہیں آتا کہ محض اسی آرزو نے ان کو چھ ماہ تک جمہور مسلمانوں سے انحراف پر مائل رکھا ہو، اس بناپر دیکھناچاہئے کہ خود حضرت علی ؓ نے اس توقف کی کیا وجہ بیان کی ہے، ابن سعد کی روایت ہے: عن محمد بن سیرین قال لمابویع ابوبکر ابطا علی فی بیۃ وجلس فی بیۃ قال فبعث ابوبکر ماابطابک عن اکرھت امارتی قال علی ماکرھت امارتک ولکن الیت ان لا ارتدی ردالی الیت الی صلوٰۃ حتی اجمع القران "محمد بن سیرین کی روایت ہے کہ جب ابوبکر ؓ کی بیعت کی گئی تو علی ؓ نے بیعت میں دیر کی اور خانہ نشین رہے،ابوبکر ؓ نے کہلا بھیجا کہ میری بیعت سے آپ کی تاخیر کا کیا سبب ہے؟ کیا آپ میری امارت کو ناپسند کرتے ہیں؟ علی ؓ نے کہا کہ میں آپ کی امارت کو ناپسند نہیں کرتا ؛لیکن میں نے قسم کھائی ہے کہ جب تک قرآن جمع نہ کرلوں نماز کے سوا اپنی چادر نہیں اوڑھوں گا"۔ اس روایت سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ بیعت میں دیر ہوجانے کی حقیقی وجہ کیا تھی؟ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ باغ فدک اور مسئلہ وارثت کے جھگڑوں نے (جس کا تذکرہ آئندہ آئیگا) خلیفہ اول کی طرف سے حضرت فاطمہ ؓ کے دل میں کسی قدر ملال پیدا کردیا تھا اس لئےممکن ہے کہ حضرت علی ؓ نے محض ان کے پاس خاطر سے بیعت میں دیر کی ہو؛چنانچہ جب ان کا انتقال ہوگیا تو حضرت علی ؓ نے حضرت ابوبکر ؓ کو تنہا بلاکر ان کے فضل وشرف کا اعتراف فرمایا اور کہا کہ خدانے آپ کو جو درجہ عطا کیا ہے ہم اس پر حسد نہیں کرتے ؛لیکن خلافت کے معاملہ میں ہماری حق تلفی ہوئی ، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے قرابت اور رشتہ داری کی بناپر ہم اس میں یقیناً اپنا حصہ سمجھتے تھے۔ حضرت علی ؓ نے اس کو کچھ اس انداز سے کہا کہ خلیفہ اول کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے اور جواب دیا"قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ میں اپنے رشتہ داروں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رشتہ داروں کو زیادہ عزیز رکھتا ہوں، رہا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی متروکہ جائداد کا جھگڑا تو اس میں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طرز عمل سے سرموانحراف نہیں کیا۔" غرض اس طرح دوستانہ شکوہ سنجی سے دونوں کا آئینہ دل صاف ہوگیا اور بعد نماز ظہر حضرت ابوبکر ؓ نے مجمع عام میں حضرت علی ؓ کی طرف عذرخواہی کی اور حضرت علی ؓ نے شاندار الفاظ میں ان کے فضل وشرف کا اعتراف کیا۔ خلافت حضرت ابوبکر صدیق ؓ کو مسند آرائے خلافت ہوتے ہی اپنے سامنے صعوبات،مشکلات اور خطرات کا ایک پہاڑ نظر آنے لگا،ایک طرف جھوٹے مدعیان نبوت اٹھ کھڑے ہوئے تھے،دوسری طرف مرتدین اسلام کی ایک جماعت علم بغاوت بلند کئے ہوئے تھی،منکرین زکوٰۃ نے علیحدہ شورش برپاکر رکھی تھی،ان دشواریوں کے ساتھ حضرت اسامہ بن زید ؓ کی مہم بھی درپیش تھی جن کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حیات ہی میں شام پر حملہ آور ہونے کا حکم دیا تھا، اسی مہم کے متعلق صحابہ کرام ؓ نے رائے دی کہ اس کو ملتوی کرکے پہلے مرتدین وکذاب مدعیان نبوت کا قلع قمع کیا جائے؛لیکن خلیفہ اول کی طبیعت نے گوارا نہ کیا کہ ارادہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور حکم رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم معرض التوا میں پڑ جائے اور جو علم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایما سے روم کے مقابلہ کے لئے بلند کیا گیا تھا اس کو کسی دوسری جانب حرکت دی جائے؛چنانچہ آپ ؓ نے برہم ہوکر فرمایا"خداکی قسم! اگر مدینہ اس طرح آدمیوں سے خالی ہوجائے کہ درندے آکر میرے ٹانگ کھینچنے لگیں جب بھی میں اس مہم کو روک نہیں سکتا"۔ (تاریخ الخلفاء۱۷) اسامہ بن زید ؓ والی مہم غرض خلیفہ اول نے خطرات ومشکلات کے باوجود حضرت اسامہ ؓ کو روانگی کا حکم دیا اور خود دور تک پیادہ پا مشایعت کر کے ان کو نہایت زریں ہدایات فرمائیں،چونکہ اسامہ ؓ گھوڑے پر سوار تھے اور جانشین رسول صلی اللہ علیہ وسلم پیادہ پاگھوڑے کے ساتھ دوڑ رہا تھا، اس لئے انہوں نے تعظیماً عرض کیا کہ" اے جانشین رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! خدا کی قسم آپ گھوڑے پر سوار ہولیں ورنہ میں بھی اترتاہوں"۔بولے،"اس میں کیا مضائقہ ہے، اگر میں تھوڑی دیر تک راہِ خدا میں اپنا پاؤں غبار آلود کروں، غازی کے ہر قدم کے عوض سات سونیکیاں لکھی جاتی ہیں"۔ (طبری ۱۸۵ ) حضرت اسامہ ؓ کی مہم رخصت ہو کر حدود شام میں پہنچی اور اپنا مقصد پورا کرکے یعنی حضرت زید ؓ کا انتقام لے کر نہایت کامیابی کے ساتھ چالیس دن میں واپس آئی، حضرت ابوبکر ؓ نے صحابہ کرام کے ساتھ مدینہ سے باہر نکل کر نہایت جوش مسرت سے ان کا استقبال فرمایا۔ مدعیانِ نبوت کا قلع قمع سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی زندگی میں بعض مدعیان نبوت پیدا ہوچکے تھے؛چنانچہ مسیلمہ کذاب نے ۱۰ھ میں نبوت کا دعویٰ کیا تھا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو لکھا تھا کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نبوت میں شریک ہوں، نصف دنیا آپ کی ہے اور نصف میری، سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو جواب دیاتھا۔ من محمد رسول اللہ الی مسیلمۃ کذاب اما بعد فان الارض للہ یورثھا من یشاء من عبادہ والعاقبۃ للمتقین۔ (تاریخ طبری : ۱۷۴۹) "محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے مسیلمہ کذاب کو،اما بعد دنیا خدا کی ہے وہ اپنے بندوں میں سے جسکو چاہے گا اسکا وارث بنائیگا اور انجام پرہیز گاروں کے لئے ہے"۔ لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعداور بھی بہت سےمدعیان نبوت پیدا ہوگئےتھے اور روزبروزان کی قوت بڑھتی جاتی تھی؛چنانچہ طلیحہ بن خویلد نے اپنے اطراف میں علم نبوت بلند کیا تھا بنو غطفان اس کی مددپر تھے اور عیینہ بن حصن فزاری ان کا سردار تھا، اسی طرح اسود عنسی نے یمن میں اور مسیلمہ بن حبیب نے یمامہ میں نبوت کا دعویٰ کیا تھا ، مردتو مرد یہ ایسا مرض عام ہوگیا تھا کہ عورتوں کے سرمیں بھی نبوت کا سودا سماگیا تھا، چنانچہ سجاح بنت حارثہ تمیمیہ نے نہایت زور شور کے ساتھ نبوت کا دعویٰ کیا تھا اور اشعث بن قیس اس کا داعی خاص تھا، سجاح نے آخرمیں اپنی قوت مضبوط کرنے کے لئے مسیلمہ سے شادی کرلی تھی اور یہ مرض وباء کی طرح تمام عرب میں پھیل گیا تھا، اس کے انسداد کی نہایت سخت ضرورت تھی اس بنا پر حضرت ابوبکرصدیق ؓ نے خاص طور پر اس کی طرف توجہ کی اور صحابہ کرام ؓ سے مشورہ کیا کہ اس مہم کے لئے کون شخص زیادہ موزوں ہوگا؟ حضرت علی ؓ کا نام لیا گیا ؛لیکن وہ اس وقت تک تمام تعلقات دنیوی سے کنارہ کش تھے اس لئے قرعہ انتخاب حضرت خالدبن ولید کے نام نکلا چنانچہ وہ ۱۱ھ میں حضرت ثابت ابن قیس انصاری ؓ کے ساتھ مہاجرین وانصار کی ایک جمعیت لیکر مدعیان نبوت کی سرکوبی کے لئے روانہ ہوئے۔ (تاریخ طبری : ۱۸۸۷) حضرت خالدبن ولید نے سب سے پہلے طلیحہ کی جماعت پر حملہ کر کے اس کے متبعین کو قتل کیا اور عیینہ بن حصن کو گرفتار کر کے تیس قیدیوں کے ساتھ مدینہ روانہ کیا اور عینیہ بن حصن نے مدینہ پہنچ کر اسلام قبول کرلیا؛لیکن طلیحہ شام کی طرف بھاگ گیا اور وہاں سے عذر خواہی کے طور پر دو شعر لکھ کر بھیجے اور تجدید اسلام کر کے حلقہ مومنین میں داخل ہوگیا۔(تاریخ بعقوبی ج ۲ : ۱۴۵) مسیلمہ کذاب کی بیخ کنی کے لئے حضرت شرجیل بن حسنہ روانہ کئے گئے ؛لیکن قبل اس کے کہ وہ حملہ کی ابتداء کریں حضرت خالدبن ولید ؓ کو ان کی اعانت کے لئے روانہ کیا گیا؛چنانچہ انہوں نے مجاعہ کو شکست دی، اس کے بعد خود مسیلمہ سے مقابلہ ہوا مسیلمہ نے اپنے متبعین کو ساتھ لے کر نہایت شدید جنگ کی اور مسلمانوں کی ایک بہت بڑی تعداد اس میں شہید ہوئی جس میں بہت سے حفاظ قرآن تھے ؛لیکن آخری فتح مسلمانوں کے ہاتھ رہی اور مسیلمہ کذاب حضرت وحشی ؓ کے ہاتھ سے مارا گیا، مسیلمہ کی بیوی سجاح جو خود مدعی نبوت تھی بھاگ کر بصرہ پہنچی اور کچھ دنوں کے بعد مرگئی۔ (ایضاً ۱۴۷) اسود عنسی نے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ ہی میں نبوت کا دعویٰ کیا تھا، حضرت ابوبکرصدیق ؓ کے زمانہ میں اس کی قوت زیادہ بڑھ گئی تھی، اس کو قیس بن مکشوح اور فیروز دیلمی نے نشہ کی حالت میں واصل جہنم کیا۔ (تاریخ طبری ۱۸۶۳) مرتدین کی سرکوبی حضرت سرورکائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بہت سے سرداران عرب مرتد ہوگئے اور ہر ایک اپنے حلقہ کا بادشاہ بن بیٹھا؛چنانچہ نعمان بن منذر نے بحرین میں سراٹھایا، لقیط بن مالک نے عمان میں علم بغاوت بلند کیا، اسی طرح کندہ کے علاقہ میں بہت سے بادشاہ پیدا ہوگئے، اس لئے حضرت ابوبکر ؓ نے مدعیان نبوت سے فارغ ہونے کے بعد اس طوائف الملوکی کی طرف توجہ کی؛چنانچہ علاء بن حضرمی ؓ کوبحرین بھیج کر نعمان بن منذرکا قلع قمع کرایا،اسی طرح حذیفہ بن محصن کی تلوار سے لقیط بن مالک کو قتل کراکے سرزمین عمان کو پاک کیا اور زیاد بن لبید ؓ کے ذریعہ سے ملوک کندہ کی سرکوبی کی۔ (تاریخ طبری ص ۱۸۶۳) منکرین زکوۃ کی تنبیہ مدعیان نبوت اور مرتدین کے علاوہ ایک تیسرا گروہ منکرین زکوٰۃ کا تھا چونکہ یہ گروہ اپنے کو مسلمان کہتا تھا اور صرف زکوۃ ادا کرنے سے منکر تھا اس لئے اس کے خلاف تلوار اٹھانے کے متعلق خود صحابہ ؓ میں اختلاف رائے ہوا؛ چنانچہ حضرت عمر ؓ جیسے متشدد صاحب رائے بزرگ نے حضرت ابوبکر صدیق ؓ سے کہا کہ آپ ایک ایسی جماعت کے خلاف کس طرح جنگ کرسکتے ہیں جو توحید ورسالت کا اقرار کرتی ہے اور صرف زکوٰۃ کی منکر ہے لیکن خلیفہ اول کا غیر متزلزل ارادہ واستقلال اختلاف رائے سے مطلق متاثر نہ ہوا، صاف کہہ دیا"خدا کی قسم! اگر ایک بکری کا بچہ بھی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا جاتا تھا کوئی دینے سے انکار کرے گا تو میں اس کے خلاف جہاد کروں گا، اس تشدد کا نتیجہ یہ ہوا کہ تھوڑی سی تنبیہ کے بعد تمام منکرین خودزکوۃ لے کر بارگاہ خلافت میں حاضر ہوئے اور پھر حضرت عمر ؓ کو بھی حضرت ابوبکر صدیق ؓ کی اصابت رائے کا اعتراف کرنا پڑا۔ (بخاری ج ۱ ص ۱۸۸) جمع وترتیب قرآن مدعیان نبوت و مرتدین اسلام کے مقابلہ میں بہت سے حفاظ قرآن شہید ہوئے خصوصا یمامہ کی خونریزجنگ میں اس قدر صحابہ کرام کام آئے کہ حضرت عمر ؓ کو اندیشہ ہوگیا کہ اگر صحابہ ؓ کی شہادت کا یہی سلسلہ قائم رہا تو قرآن شریف کا بہت حصہ ضائع ہو جائے گا، اس لئے انہوں نے خلیفہ اول سے قرآن شریف کے جمع وترتیب کی تحریک کی، حضرت ابوبکر صدیق کو پہلے عذر ہوا کہ جس کام کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیا ہے اس کو میں کس طرح کرو، حضرت عمر ؓ نے کہا یہ کام اچھا ہے اور ان کے باربار کے اصرار سے حضرت ابوبکرصدیق ؓ کے ذہن میں بھی یہ بات آگئی؛چنانچہ انہوں نے حضرت زید بن ثابت ؓ کو جو عہد نبوت میں کاتب وحی تھے قرآن شریف کے جمع کرنے کا حکم دیا، پہلے ان کو بھی اس کام میں عذر ہوا لیکن پھر اس کی مصلحت سمجھ میں آگئی اور نہایت کوشش واحتیاط کے ساتھ تمام متفرق اجزاء کو جمع کر کے ایک کتاب کی صورت میں مدون کیا۔ ( بخاری ج ۲ ص ۴۵) ایک غلط فہمی کا ازالہ قرآن شریف کی جمع و ترتیب کے متعلق ایک عام غلط فہمی یہ ہے کہ عہد نبوت میں کلام مجید کی آیتوں اورسورتوں میں باہم کوئی ترتیب نہ تھی اور نہ سورتوں کے نام وضع ہوئے تھے اس لئے عہد صدیق ؓ میں جو کام انجام پایا وہ ان ہی آیات وسور کو باہم مرتب کرنا تھا؛لیکن یہ افسوس ناک غلطی ہے، درحقیقت جس طرح قرآن کی ہر آیت الہامی ہے ، اسی طرح آیات وسور کی باہمی ترتیب اور سورتوں کے نام بھی الہامی ہیں اور خود مہبط وحی والہام صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں یہ تمام کام انجام پاچکے تھے چنانچہ ہم اس بحث کو کسی قدر تفصیل سے لکھتے ہیں۔ کلام پاک کی آیتیں اور سورتیں عہد نبوت میں مرتب ہوچکی تھیں قرآن شریف کی آیتیں عموما کسی خاص واقعہ اور ضرورت کے پیش آجانے پر نازل ہوتی تھیں اور صحابہ ؓ ان کو کھجور کی شاخ، ہڈی،چمڑے، پتھر کی تختی یا کسی خاص قسم کے کاغذ پر لکھ لیتے تھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت کے مطابق ترتیب دیتے تھے، جب ایک سورۃ ختم ہوجاتی تو وہ علیحدہ نام سے موسوم ہو جاتی تھی اور پھر دوسری شروع ہوجاتی تھی، کبھی ایک ساتھ دوسورتیں نازل ہوتیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دونوں کو الگ الگ لکھواتے جاتے غرض! اس طرح آپ کے زمانہ ہی میں سورتیں مدون ومرتب ہوچکی تھیں اور ان کے نام بھی قرار پاچکے تھے، حدیثوں میں ذکر آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز میں فلاں فلاں سورتیں پڑھیں یا فلاں سورۃ سے فلاں تک تلاوت فرمائی، صحیح بخاری میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز میں بقرہ، آل عمران اور نساء پڑھی، سورۂ فاتحہ اور سورۂ اخلاص کے ذکر سے تو شاید حدیث کی کوئی کتاب خالی نہ ہوگی، اب دیکھنا چاہئے کہ حضرت ابوبکر ؓ کے زمانہ میں کیا خدمت انجام پائی۔ حضرت ابوبکر ؓ نے قرآن کے متفرق اجزاء کو صرف ایک کتاب کی صورت میں جمع کرایا علامہ حافظ ابن حجر بخاری کی شرح میں فرماتے ہیں: قد اعلم اللہ تعالی فی القران بانہ مجموع فی الصحف فی قولہ یتلواصحفاً مطھرۃ الایۃ وکان القران مکتوبانی الصحف لکن کانت متفہقۃ فجمعھا ابوبکر فی مکان واحدثم کانت بعدہ محفوظۃ الی ان امر عثمان بالنسخ منھا عدۃ مصاحف والرسل بھا الی الامصار (فتح الباری ج ۹ : ۱۰) "اللہ تعالی نے قرآن شریف میں اپنے قول یتلواصحفا مطہرۃ الایہ میں بیان فرمایا ہے کہ قرآن صحیفوں میں جمع ہے، قرآن شریف صحیفوں میں لکھا ہوا ضرورتھا ؛لیکن متفرق تھا، حضرت ابو بکر ؓ نے ایک جگہ جمع کردیا، پھر ان کے بعد محفوظ رہا، یہاں تک کہ حضرت عثمان ؓ نے متعدد نسخے نقل کرا کے دوسری شہروں میں روانہ کردیئے۔ اس تشریح سے صاف ظاہر ہوگیا کہ حضرت ابو بکر صدیق ؓ کے حکم سے حضرت زید ؓ نے صرف قرآن شریف کے متفرق اجزاء کو جمع کر کے ایک کتاب کی صورت میں مدون کردیا تھا۔ صحیفہ صدیقی کب تک محفوظ رہا حضرت زید بن ثابت ؓ کا مدون کیا ہوا نسخہ حضرت ابوبکر ؓ کے خزانہ میں محفوظ رہا، اس کے بعد حضرت عمر ؓ کے قبضہ میں آیا، حضرت عمر ؓ نے ام المومنین حضرت حفصہ ؓ کے حوالہ فرمایا اور وصیت کردی کہ کسی شخص کو نہ دیں ، البتہ جس کو نقل کرنا یا اپنا نسخہ صحیح کرنا ہو وہ اس سے فائدہ اٹھا سکتا ہے، چنانچہ حضرت عثمان ؓ نے اپنے عہد میں حضرت حفصہ ؓ سے عاریتہ لے کر چند نسخہ نقل کرائے اور دوسرے مقامات میں روانہ کردیئے ؛لیکن اصل نسخہ بدستور حضرت حفصہ ؓ کے پاس محفوظ رہا، جب مروان مدینہ کا حاکم ہوکر آیا تو اس نے اس نسخہ کو حضرت حفصہ سے لینا چاہا ؛لیکن انہوں نے دینے سے انکار کردیا اور تاحیات اپنے پاس محفوظ رکھا، ان کے انتقال کے بعد مروان نے حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے لے کر اس کو ضائع کردیا۔ (ایضاً) فتوحات جزیرہ نمائے عرب کی سرحد دنیا کی دو عظیم الشان سلطنتوں سے ٹکراتی تھی، ایک طرف شام پر رومی پھر یرالہرارہاتھا، دوسری طرف عراق پر کیانی خاندان کا تسلط تھا، ان دونوں ہمسایہ سلطنتوں نے ہمیشہ کوشش کی کہ عرب کے آزادو جنگجو باشندوں پر اپنی حکمرانی کا سکہ جمائیں، خصوصاً ایرانی سلطنت نے اس مقصد کے لئے بارہا عظیم الشان قربانیاں برداشت کیں، بڑی بڑی فوجیں اس مہم کو سرکرنے کے لئے بھیجیں اور بعض اوقات اس نے عرب کے ایک وسیع خطہ پر تسلط بھی قائم کرلیا؛چنانچہ شاپوربن اردشیر جو سلطنت ساسانیہ کا دوسرا فرماں روا تھا، اس کے عہد میں حجاز ویمن دونوں باجگذار ہوگئے تھے، اسی طرح سابورذی الاکتاف یمن وحجاز کو فتح کرتاہوا مدینہ منورہ تک پہنچ گیا تھا، یہ عربوں کا حددرجہ دشمن تھا، جو روسائے عرب گرفتار ہو کر جاتے تھے وہ ان کے شانے اکھڑواڈالتا تھا، اسی سے عرب میں "ذوالاکتاف" یعنی شانوں والے کے لقب سے مشہور ہوا۔ (تاریخ الطوال ۴۹) لیکن عرب کی آزاد اور غیور فطرت دب کر رہنا نہ جانتی تھی، اسی لئے جب کبھی موقع ملابغاوت برپا ہوگئی، یہاں تک کہ چند بار خود عربوں نے عراق پر قابض ہو کر اپنی ریاستیں قائم کیں؛چنانچہ فرماں روایان یمن کے علاوہ قبیلہ معدبن عدنان نے عراق میں آباد ہوکر ایک مستقل حکومت قائم کرلی اور اس کے ایک فرماں روا عمر بن عدی نے خیرہ کو دارالسلطنت قرار دیا۔ گوشاہان عجم نے حیرہ کی عربی سلطنت کو زیادہ دنوں تک آزاد نہیں رہنے دیا اور بالآخر اپنی سلطنت کا ایک جزوبنالیا تاہم عمر بن عدی کا خاندان مدتوں ایک باجگذاررئیس کی حیثیت سے عراق پر حکمراں رہا اور اس تقریب سے بہت سے عربی قبائل وقتا فوقتا اسی سر زمین میں آباد ہوتے رہے، غرض عرب وایران کے تعلقات نہایت قدیم تھے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد تک باہم چھیڑ چھاڑ چلی آتی تھی؛چنانچہ جنگ ذی قار میں جوایرانیوں اور عربوں کی ایک عظیم الشان قومی جنگ تھی جب ایرانیوں نے شکست کھائی تو آپ نے فرمایا: ( عقدالفرید جلد۳ : ۸۱) ھذااول یوم اندصفت العرب من العجم "یہ پہلا دن ہے کہ عرب نے عجم سے بدلہ لیا" اسی طرح ۶ ھ میں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بادشاہوں کو دعوت اسلام کے خطوط لکھے تو پرویز شہنشاہ ایران نے اسی قدیم قومی عناد کی بناپر نامہ مبارک کو پھاڑ کر پھینک دیا اور برہم ہو کر کہا"میراغلام ہوکر مجھے یوں لکھتا ہے" (طبری : ۱۵۷۲) رومی سلطنت سے بھی عربوں کا نہایت دیرینہ تعلق تھا، عرب کے بہت سے قبائل مثلاً سلح، غسان وجذام وغیرہ شام کے سرحدی اضلاع میں جاکر آباد ہوگئے تھے اور رفتہ رفتہ عیسائی مذہب قبول کر کے ملک شام میں بڑی بڑی ریاستیں قائم کرلی تھیں اور اسی مذہبی تعلق کے باعث ان کو رومیوں کے ساتھ ایک قسم کی یگانگت ہو گئی تھی، اسلام کا زمانہ آیا تو مشرکین عرب کی طرح حدود شام کے عرب عیسائیوں نے بھی مخالفت ظاہر کی اور ۶ھ میں حضرت دحیہ کلبی ؓ قیصر روم کو دعوت اسلام کا پیغام دے کر واپس آرہے تھے تو شامی عربوں نے ان کا مال واسباب لوٹ لیا۔ (اسدالغابہ تذکرہ دحیہ بن خلیفہ کلبی) اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قاصد حارث بن عمیر ؓ کو بصریٰ کے حاکم عمر بن شرجیل نے قتل کرادیا۔ ۷ھ میں غزوہ موتہ اسی قتل و غارتگری کا انتقام تھا جس میں بڑے بڑے صحابہ کام آئے۔ (طبقات ابن سعد حصہ مغازی ص ۹۲) ۹ھ میں رومیوں نے خاص مدینہ پر فوج کشی کی تیاریاں کی تھیں؛لیکن جب خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پیش قدمی کر کے مقام تبوک تک پہنچ گئے تو ان کا حوصلہ پست ہو گیا اور عارضی طور پر لڑائی رک گئی، تاہم مسلمانوں کو ہمیشہ شامی عربوں اور رومیوں کا خطرہ دامن گیر تھا؛چنانچہ ۱۱ھ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی حفظ ماتقدم کے خیال سے حضرت اسامہ بن زید ؓ کو شام کی مہم پر مامور فرمایا تھا۔ ان واقعات سے یہ ظاہر کرنا مقصود ہے کہ عرب ہمیشہ سے اپنی دونوں ہمسایہ سلطنتوں میں ہدف بناہوا تھا، خصوصاً اسلام کی روز افزوں ترقی نے انہیں اور بھی مشکوک کردیا تھا جو اس عربی نونہال کے لئے حددرجہ خطرناک تھا، خلیفہ اول نے ان ہی اسباب کی بناپر اندرونی جھگڑوں سے فراغت پاتے ہی بیرونی دشمنوں سے مقابلہ کی تیاریاں شروع کردیں۔ مہم عراق اس زمانہ میں ایرانی سلطنت انقلاب حکومت وطوائف الملوکی کے باعث اپنی اگلی عظمت وشان کو کھوچکی گھی، یزد گرد شہنشاہ ایران نابالغ تھا اور عورت پوران دخت اس کی طرف سے تخت کیانی پر متمکن تھی، عراق کے وہ عربی قبائل جو ایرانی حکومت کا تختہ مشق رہ چکے تھے ایسے موقعوں سے فائدہ اٹھانے کے منتظر تھے چنانچہ موقع پاکر نہایت زور وشورکے ساتھ اٹھ کھڑے ہوئے اور قبیلہ وائل کے دوسردار متنیٰ شیبانی وسوید عملی نے تھوڑی تھوڑی سی حمیت بہم پہنچاکہ وہ واہلہ کے نواح میں غارت گری شروع کردی۔ مثنیٰ اسلام لاچکے تھے انہون نے دیکھا کہ وہ تنہا اس عظیم الشان حکومت کا مقابلہ نہیں کرسکتے اس لئے بارگاہ خلافت میں حاضر ہوکر باقاعدہ فوج کشی کی اجازت حاصل کی اور اپنے تمام قبیلہ کو لے کر ایرانی سرحد میں گھس گئے، اس وقت تک حضرت خالد بن ولید ؓ مدعیان نبوت ومرتدین کی بیخ کمنی سے فارغ ہوچکے تھے، اس لئے حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے ان کو ایک جمعیت کے ساتھ مثنیٰ کی کمک پر روانہ فرمایا۔ حضرت خالد بن ولید ؓ نے پہنچنے کے ساتھ ہی جنگ کی صورت بدل دی اور بانقیا،کسکر وغیرہ فتح کرتے ہوئے شاہان عجم کے حدود میں داخل ہوگئے، یہاں شاہ جاپان سے مقابلہ کیا اور اس کو شکست دی، پھر حیرہ کے بادشاہ نعمان سے جنگ آزما ہوئے۔ نعمان ہزیمت اٹھاکر مدائن بھاگ گیا، یہاں سے خورلق پہنچے ؛لیکن اہل خورلق نے مصلحت اندیشی کو راہ دے کر سترہزاریا ایک لاکھ درہم خراج پر مصالحت کرلی غرض اس طرح حیرہ کا پورا علاقہ زیر نگیں ہوگیا۔ ( تاریخ یعقوبی ج ۲ : ۴۷، یہ سلاطین ایرانی حکومت کے باجگذار تھے) حملہ شام مہم عراق کا ابھی آغازہی ہوا تھا کہ دوسری طرف سرحد شام پر جنگ چھڑ گئی حضرت ابوبکر ؓ نے ۱۳ھ میں صحابہ کرام ؓ سے مشورہ لینے کے بعد شام پر کئی طرف سے لشکر کشی کا انتظام کیا اور ہر ایک علاقہ کے لئے علیحدہ علیحدہ فوج مقرر کردی؛چنانچہ حضرت ابو عبیدہ ؓ حمص پر یزید بن ابی سفیان ؓ دمشق پر ، شرجیل بن حسنہ اردن پر اور عمر وبن العاص ؓ فلسطین پر مامور ہوئے ، مجاہدین کی مجموعی تعداد۲۷۰۰۰ تھی، ان سرداروں کو سرحد سے نکلنے کے بعد قدم قدم پر رومی جتھے ملے جن کو قیصر نے پہلے ہی سے الگ الگ ایک ایک سردار کے مقابلہ میں متعین کردیا تھا، یہ دیکھ کر افسران اسلام نے اپنی کل فوجوں کو ایک جگہ جمع کرلیا اور بارگاہ خلافت کو غنیم کی غیر معمولی کثرت کی اطلاع دے کر مزید کمک کے لئے لکھا چونکہ اس وقت دارالخلافت میں کوئی فوج موجود نہ تھی، اس لئے حضرت ابوبکر ؓ کو نہایت انتشار ہوا اور اسی وقت حضرت خالد بن ولید کو لکھا کہ مہم عراق کی باگ مثنیٰ کے ہاتھ میں دے کر شام کی طرف روانہ ہو جائیں، یہ فرمان پہنچتے ہی حضرت خالد ؓ ایک جمعیت کے ساتھ شامی رزم گاہ کی طرف روانہ ہوگئے۔ ( تاریخ طبری ورفتوح الشام بلاذری ۱۱۶) حضرت خالد بن ولید ؓ کو راہ میں بہت سی چھوٹی چھوٹی لڑائیاں لڑنی پڑیں؛چنانچہ جب حیرہ کے علاقہ سے روانہ ہوکر عین التمر پہنچے تو وہاں خود کسریٰ ایک فوج سدراہ ہوئی، عقبہ بن ابی ہلال التمری اس فوج کا سپہ سالار تھا، حضرت خالد ؓ نے عقبہ کو قتل کرکے اس کی فوج کو ہزیمت دی، وہاں سے آگے بڑھے تو ہذیل بن عمران کی زیر سیادت بنی تغلب کی ایک جماعت نے مبارز طلبی کی،ہذیل مارا گیا اور اس کی جماعت کےبہت سے لوگ قید کر کے مدینہ روانہ کئے گئے، پھر یہاں سے انبار پہنچےاور انبار سے صحرا طے کر کے تدمر میں خیمہ زن ہوئے، اہل تدمرنے بھی پہلے قلعہ بند ہوکر مقابلہ کیا، پھر مجبور ہوکر مصالحت کرلی، تدمر سےگزر کر حوران آئے، یہاں بھی سخت جنگ پیش آئی، اسے فتح کر کے شام کی اسلامی مہم سے مل گئے اور متحدہ قوت سے بصری ،فحل اور اجنادین کو مسخرکرلیا،اجنادین کی جنگ نہایت شدیدتھی اس میں بہت سے مسلمان شہید ہوئے ؛لیکن انجام کار میدان مسلمانوں ہی کے ہاتھ رہا اور جمادی الاول ۱۳ ھ سے اجناءدین ہمیشہ کے لئے اسلام کا زیر نگیں ہوگیا۔ (تاریخ یعقوبی ج ۲ : ۱۵۱) اجناء دین سے بڑھ کر اسلامی فوجوں نے دمشق کا محاصرہ کرلیا؛لیکن اس کے مفتوح ہونے سے پہلے ہی خلیفہ اول نے داعی اجل کو لبیک کہا، اس لئے اس کی تفصیل فتوحات فاروقی کے سلسلہ میں آئے گی۔ متفرق فتوحات عراق اور شام کی لشکر کشی کے علاوہ حضرت عثمان بن ابی العاص کو توج روانہ کیا گیا، انہوں نے توج،مکران اور اس کے آس پاس کے علاقوں کو زیر نگیں کرکے اسلامی مملکت میں شامل کرلیا، اسی طرح حضرت علاءبن حضرمی ؓ زارہ پر مامور ہوئے انہوں نے زارہ اور اس کے اطراف کو زیر نگیں کرکے اس قدر مال غنیمت مدینہ روانہ کیا کہ خلیفہ اول نے اس میں سے مدینہ منورہ کے ہر خاص و عام مرد، عورت، شریف وغلام کو ایک ایک دینار تقسیم فرمایا۔ (ایضاً)