انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** مدینہ کی راہ میں صبح کو قریش جب حضور ﷺ کے مکان میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ حضور ﷺکے بجائے حضرت علیؓ سورہے ہیں ان سے حضور ﷺ﴾ کے بارے میں پوچھا کہ کہاں ہیں تو کہا مجھے علم نہیں ، اس پر اُن ظالموں نے آپ کو پکڑ ا اورحرم میں لے جا کر تھوڑی دیر محبوس رکھا اور چھوڑ دیا(تاریخ طبری بحوالہ سیرۃ النبی جلد اول )چاروں طرف تلاش میں نکل کھڑے ہوئے ، پہلے حضرت ابو بکرؓ ہی کے گھر پہنچ کر حضرت اسماء ؓ سے پوچھ گچھ شروع کی، جب انھوں نے کوئی بات نہ بتائی تو اُ ن کے رخسار پرطمانچہ مارا اور برا بھلا کہتے ہوئے چلے گئے۔ ( قاضی زین العابدین سجاد میرٹھی - سیرت طیبہ ) اب کفارقریش نے قیافہ شناسوں کی مددلی جن کو نشانات قدم کی مدد سے کھوج لگانے کے فن میں غضب کا کمال حاصل تھا، آخر یہ کھوج لگاتے لگاتے جبل ثور پہنچ گئے، غار کے کنارے پہنچ کر قیافہ شناسوں نے کہا :ہو نہ ہو محمدﷺاور ابو بکرؓ دونوں اس غار میں ہیں،اس وقت حضرت ابو بکرؓ بڑے بے چین تھے، عرض کیا : اگر کافر اپنے پیروں کی طرف نظر کریں تو ہمیں دیکھ لیں گے، مجھے اپنی جان کا غم نہیں، اگر آپ ﷺ کو کچھ ہو گیا تو اُمت ہلاک ہو جائے گی…حضور ﷺ نے فرمایا : تمھارا کیا خیال ہے ایسے دوآدمیوں کے بارے میں جن کے ساتھ تیسرا اﷲ ہے یعنی تشویش کی کوئی بات نہیں ہے، اﷲ ہم لوگوں کا محافظ ہے، وہ غار پر گھومتے رہے ؛لیکن تقدیر الہٰی یہ تھی کہ وہ لوگ دیکھ نہ سکیں، سورہ ٔ توبہ کی آیت نمبر ۴۰ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : " اگر تم ان (پیغمبر) کی مدد نہ کروگے تو (کوئی پرواہ نہیں دیکھو) اﷲ نے اس وقت ان کی مدد کی جب کہ کافروں نے ان کو اس حال میں (مکہ سے) نکا لاتھا کہ ( صرف دوشخص تھے اور وہ) دو میں کے دوسرے (تھے) جب کہ وہ دونوں غار (ثور) میں تھے (اور) جب کہ وہ اپنے رفیق سے کہہ رہے تھے کہ کچھ غم نہ کرو یقیناً اﷲ ہمارے ساتھ ہے، پس اﷲ نے ان پراپنی( طرف سے)تسکین نازل فرمائی اور ان کو ایسے لشکروں سے مدد دی جن کو تم نہیں دیکھ سکتے تھے اور (آخرکار) کافروں کی بات نیچی کردی اور (یاد رکھو) اﷲ ہی کی بات ہمیشہ بلند ہے اور اﷲ غالب (اور) حکمت والا ہے۔ ( سورۂ توبہ : ۴۰) اﷲ کی کرنی ایسی ہوئی غارکے دہانے پر مکڑی نے جالا تان د یا، کبوتروں کا ایک جوڑا آیا اور گھونسلا بنا کر انڈے دے دیا،(زرقانی کا خیال ہے کہ حرم کے لاکھوں کبوتر اسی جوڑے کی نسل سے ہیں) کافروں نے خیال کیا کہ اگر کوئی غار میں داخل ہوتا تو مکڑی کاجالا ٹوٹ جاتا، اس طرح اللہ تعالیٰ نے مکڑی کے جالے کو دیوار بنا کر غار میں داخلہ پرروک لگا دی۔ ابن ہشام میں حضر ت اسماؓ بن ابی بکر کی روایت ہے کہ آپ ﷺکے چلے جانے کے بعد قریش کی ایک ٹولی ہمارے پاس آئی جس میں ابو جہل بھی تھا، انھوں نے پوچھاتیرا باپ کہاں ہے ؟ میں نے کہا واﷲ میں نہیں جانتی کہ میرا باپ کہاں ہے تو ابو جہل نے اپنا ہاتھ اٹھایا اور میرے گال پر ایسا تھپڑ مارا کہ جس سے میرے کان کا بالا نکل کر نیچے آگرا۔ (ابن ہشام) ابن اسحاق کی روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺ اور حضرت ابو بکر ؓ صدیق نے تین دن غارِثور میں گزار ے ، اس دوران حضرت ابو بکر ؓ کے نوجوان بیٹے عبداللہ دن بھر قریش کے مشوروں کا پتہ لگاتے اور شام میں جا کر اطلاع کرتے ، حضرت ابو بکرؓ نے اپنے آزاد کر دہ غلام عامر ابن فہیرہ سے کہا تھا کہ وہ بکریاں چراتے ہوئے ریوڑ لے کر غار تک پہنچ جائیں تا کہ دودھ میسر آتا رہے ، رات میں حضرت اسماء بنت ابوبکر ؓ کھانا پہنچاتیں۔ (صحیح بخاری ، باب الہجرت ، سیرت النبی جلد اول)