انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** عرف وعادت انسانوں کے خود ساختہ آئین کا توانحصار ہی بڑی حد تک ججوں کے فیصلوں کے نظائراور شخصی اجتہادات کے علاوہ بڑی حد تک کسی قوم کے مخصوص رواج اور قومی تعامل ہی پر ہوتا ہے۔ اسلامی شریعت چونکہ خدا کی نازل کردہ ہے، اس لیے اس کی اساس قرآن وحدیث پر ہے، باقی دوسرے مصادر ضمنی اور ذیلی حیثیت رکھتے ہیں؛ لیکن یہ حقیقتِ واقعہ ہے کہ اسلام کے نزول کا مقصد ہی چونکہ انسانی معاشرہ کی اصلاح اور غلط عرف ورواج کو مٹاکر اس کی جگہ پر عرفِ صحیح قائم کرنا ہے، اس لیے اسلام نے محض کسی چیز کے رواج پڑنے کو شریعت کے لیے اساس نہیں بنایا؛ لیکن وہ عادتیں اور ایسے عرف جواچھے تھے ان کو جوں کاتوں برقرار بھی رکھا اورجہاں کسی جزوی اصلاح وترمیم کی ضرورت تھی، وہاں اصلاح وترمیم بھی کی، اس لحاظ سے بعض معاصر فقہاء کا یہ کہنا کہ "عرف" کوئی مستقل شرعی دلیل نہیں ہے؛ بلکہ وہ مصلحت اور دفعِ مشقت وغیرہ سے متعلق شرعی اصول ہی کا ایک حصہ ہے، کچھ زیادہ بے جابات نہیں ہے، شیخ عبدالوہاب خلاف رحمہ اللہ لکھتے ہیں ہیں کہ: "إن العرف عندالتحقیق لیس دلیلاً شرعیاً مستقلاً، وھوفی الغالب مراعاۃ المصلحۃ"۔ (علم اصول الفقہ:۹۱) ترجمہ:تحقیقی نظر سے دیکھا جائے تو عرف کوئی مستقل شرعی دلیل نہیں ہے، عموماً وہ مصلحت کی رعایت ہی کا دوسرا نام ہے۔ اس کے باوجود اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کرسکتے کہ عرف کی رعایت شرعی نصوص کی تفسیراور مطلق کی تقیید اور عام کی تخصیص تک کے لیے کی جاتی ہے اور عرف کی بناء پر کبھی قیاس کو بھی ترک کردیا جاتا ہے: "وھویراعی فی تفسیر النصوص فیخصص بہ العام ویقید بہ المطلق وقدیترک القیاس بالعرف ولھذا صح عقدا الإستضاع بجریان العرف بہ وان کان قیاساً لایصح لأنہ عقد فی معدوم"۔ (علم اصول الفقہ:۹۱) ترجمہ:عرف کا لحاظ نصوص کی تفسیر، عام کی تخصیص، مطلق کی تقیید سب میں کیا جاتا ہے اور کبھی قیاس کو بھی عرف کے بناء پر ترک کردیا جاتا ہے؛ چنانچہ عقد استصناع کے جائز ہونے کا حکم عرف قائم ہوجانے کی بناء پر ہی دیا گیا ہے؛ ورنہ قیاس کا تقاضا یہ تھا کہ معدوم کی بیع کرنے کی بناء پر وہ جائز نہ ہو۔ عرف کے لغوی معنی مادۂ عرف اصل میں ۲/أمر پر دلالت کرتا ہے: "تتابع الشيء متصلًا بعضه ببعض ، والسكون والطمأنينة" ۱۔کسی شئی کا ایک دوسرے کے پیچھے آنا اس طور پر کہ ان میں سے بعض، بعض کے ساتھ متصل ہو: ۲۔ سکون وطمانیت۔ (مجلہ مجمع الفقہ الاسلامی،۵/۲۶۳۵،شاملہ) عادت کے لغوی معنی عادت:ہروہ کام جس کے لوگ خوگر اور عادی ہوجائیں ؛حتی کہ وہ کام بغیر مشقت کے انجام دیا جانے لگے، یاعادت اس حالت کا نام ہے جو ایک ہی نہج (طرز) پر بار بار ہو، جیسے حیض کی عادت۔ (المعجم الوسیط:۲/۵۳۵) عرف وعادت کی تعریف عرف کی تعریف میں علماء اصول اس طرح کے الفاظ لکھا کرتے ہیں: ۱۔عرف وعادت وہ ہے جو ذہنوں میں راسخ ہوجائے اور جسے فطرتِ سلیمہ قبول کرلے، دوسرے لفظوں میں اسی مفہوم کو یوں ادا کیا جاسکتا ہے کہ "قول" یا"عمل" کے اندر کسی قوم یاطبقہ کا ایسا تعامل عرف کہلاتا ہے جس کی عقلِ سلیم تائید کرے اور جسے فطرتِ سلیمہ قبول کرتی ہو۔ (مجموعہ رسائل ابن عابدین:۲/۱۱۴۔ اصول مذہب الامام احمد بن حنبلؒ:۵۲۱) تقریباً اسی طرح کی باتیں دیگر مصنفین رحمہ اللہ مثلاً ابنِ نجیم اور شیخ ابوزہرہ وغیرہنے کی ہے، بعض معاصر علماء نے "عرف" کی تعریف جامع انداز سے یوں بیان کی ہے: "العرف ماتعارفہ جمہور الناس وساروا علیہ سواء کان قولاً اوفعلاً اوترکاً"۔ (المدخل للشبی:۲۶۰) ترجمہ:عرف وہ امر ہے جولوگوں میں عام ہوجائے اور لوگ اس پر عمل پیرا ہوجائیں؛ خواہ وہ قول کے قبیل سے ہو یافعل وترک کے قبیل سے ہو۔ عرف وعادت کے درمیان فرق عرف وعادت کے درمیان کوئی فرق ہے؟ یادونوں ایک ہی چیز ہے ،اس بارے میں علماء کا اختلاف پایا جاتا ہے؛ چنانچہ: الف:بعض علماء نے عرف وعادت کے درمیان فرق کرنے کی کوشش کی ہے کہ "عادت" کا تعلق انفرادی طریقۂ کار یاایسے عمل سے ہوتا ہے جوبار بار کرنے کی وجہ سے کسی شخص کی فطرتِ ثانیہ بن گئی ہو، جب کہ "عرف" کا اطلاق اجتماعی عادت اور پوری قوم یاطبقہ کے درمیان پائے جانے والے عمل اور رواج پر ہوتا ہے۔ ب:اور بعض لوگوں کا خیال ہے کہ عرف کا تعلق قول سے ہے، جب کہ عادت کا تعلق فعل سے ہے۔ (اصول مذہب الامام احمد بن حنبل:۵۲۳۔ کشف الاسرار:۲/۴۱۵) ج:بعض حضرات کا کہنا ہے کہ "عادت" درحقیقت عرف سے عام ہے؛ کیونکہ عادت کا اطلاق عادتِ اجتماعیہ (یعنی عرف) پر اور عادتِ فردیہ دونوں پر ہوتا ہے، جب کہ عرف کا اطلاق صرف عادتِ اجتماعیہ پر ہوتا ہے؛ لہٰذا عرف خاص اور عادت عام ہے؛ کیونکہ ہرعرف عادت ہے؛ لیکن ہرعادت عرف نہیں ہے۔ (اصول مذہب الامام احمد بن حنبلؒ:۵۲۳) د:اور بعض علماء اس بات کے قائل ہیں کہ عرف وعادت کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے، دونوں مترادف الفاظ ہیں ،علامہ ابن عابدین شامیؒ فرماتے ہیں کہ عرف وعادت اگرچہ مفہوم کے اعتبار سے مختلف ہیں؛ لیکن مصداق کے لحاظ سے ایک ہی ہیں؛یہی وجہ ہے کہ بہت سی کتابوں میں جب عرف کا ذکر کیا جاتا ہے تو اس کے ساتھ عادت کو بیان کردیا جاتا ہے۔ (اصول مذہب الامام احمد بن حنبل:۵۲۳۔ مجموعہ رسائل ابن عابدین:۲/۱۱۴) عرف اور اجماع کے مابین فرق بعض علماء نے عرف اور اجماع کے درمیان چند فروق بیان کئے ہیں، جن کا خلاصہ درجِ ذیل ہے: ۱۔ایسا قول یافعل جوعوام وخواص میں پایا جاتا ہو، اس کو اکثر لوگوں کے قبول کرلینے کا نام عرف ہے، جب کہ اجماع کسی ایک زمانہ کے مجتہدین کرام کا کسی مسئلہ پر متفق ہونے کو کہتے ہیں۔ (اصول مذہب الامام احمد بن حنبل:۵۲۴) ۲۔عرف میں بعض لوگوں کی مخالفت سے کوئی نقص نہیں آتا، جب کہ اجماع کے تحقق کے لیے یہ ضروری ہے کہ تمام مجتہدین کرام کا اتفاق ہو، کسی کی مخالفت نہ ہو۔ (اصول مذہب الامام احمد بن حنبل:۵۲۴) ۳۔اجماع سے ثابت ہونے والا حکم ناقابلِ تنسیخ ہوتا ہے ،اس کی حیثیت نص سے ثابت شدہ احکام کے درجے میں ہے، جب کہ عرف کی بناء پر جوحکم ثابت ہوتا ہے ،اس میں تبدیلی عرف کی وجہ سے پھرحکم کے بدل جانے کا امکان پایا جاتا ہے۔ (اصول مذہب الامام احمد بن حنبل:۵۲۴) ۴۔عرف کبھی فاسد ہوتا ہے، مثلاً اگرلوگوں کا عرف کسی حرام امر پر ہوجائے جونص شرعی سے متصادم ہو (جیسے سود کھانے اور شراب پینے کا عرف) برخلاف اجماع کے کہ وہ کبھی نص سے متصادم نہیں ہوتا ہے۔ عرفِ صحیح وعرفِ فاسد اولاً عرف کی دوقسمیں ہیں: عرفِ صحیح۔ عرفِ فاسد۔ ۱۔عرفِ صحیح: وہ عرف ہے جو نصوص شارع کے معارض نہ ہو، یاشریعت فی الجملہ اس کے معتبر ہونے کی شہادت دے رہی ہو۔ (اصول مذہب الامام احمد بن حنبل:۵۲۶۔ اصول الفقہ لابی زہرہ:۲۱۶) اس عرف کو اختیار کرنا اور لینا معتبر ہے؛ چونکہ یہ اصولِ شرعی میں سے ایک اصل ہے۔ ۲۔عرف فاسد: وہ عرف ہے جس سے لوگ متعارف ہوں (یعنی اس کا وہ عرف رہا ہو اور اس پر تعامل بھی رہا ہو) لیکن وہ شریعت کے مخالف ہو اور قواعد شرع سے متصادم ہو۔ (اصول مذہب الامام احمد بن حنبل:۵۲۶۔ اصول الفقہ لابی زہرہ:۲۱۶) عرفِ فاسد کا کوئی اعتبار نہیں اور یہ متروک العمل ہے۔ عرف کے اقسام جوعرف شرعاً معتبر ہے، (یعنی عرفِ صحیح) اور وہ احکام پر اثرانداز ہوتا ہے، اس کی دوقسمیں ہیں: (۱)عرفِ عام۔ (۲)عرفِ خاص۔ ۱۔عرفِ عام: جس عرف پر لوگوں کا تعامل ہوچکا ہو اور لوگ اس سے متعارف ہوں اور وہ اتناعام ہوگیا ہو کہ کسی خاص قوم اور خطہ کے ساتھ مخصوص نہ رہا ہو، مثلاً حمام میں اجرت دیکر غسل کرنا، یہ عمل اتنا عموم اختیار کرگیا ہے کہ یہ کسی خاص قوم یاکسی خاص علاقہ میں محدود نہ رہا، ہرجگہ لوگ اس پر عمل پیرا ہوگئے؛ حالانکہ اس میں ٹھہرنے کی مدت، پانی کے استعمال کی مقدار اور اجرت کی کوئی تعیین نہیں ہوتی ہے، جس کا تقاضا یہ ہے کہ اسے ناجائز قرار دیا جائے لیکن ان سب چیزوں کی تعیین رواج کے حوالہ کردی گئی اور عرف ورواج کے مطابق اس عمل کو جائز قرار دیا گیا۔ (مجموعہ رسائل ابن عابدین:۲/۱۱۴۔ اصول مذہب الامام احمد بن حنبل:۵۲۵۔ اصول الفقہ لابی زہرہ:۲۱۷۔ الاشباہ والنظائر:۱/۲۹۶) اسی طرح عرفِ عام عقد استصناع کے جواز کا ہے، استصناع کا مطلب ہے کسی چیز کے بنانے اور تیار کرنے کا آرڈر کسی کمپنی یافرد کو دینا، عقد بیع کے صحیح ہونے کے لیے یہ شرط ہے کہ مبیع فی الحال موجود ہو؛ لیکن استصناع کے اندر مبیع فی الحال موجود نہیں ہوتی ہے؛ لہٰذا شرطِ مذکور کے مفقود ہونے کی وجہ سے اس عقد کو صحیح نہیں ہونا چاہیے؛ لیکن عرف اور تعامل یہ رہا ہے کہ لوگ ہرزمانہ میں عقد استصناع کا معاملہ کرتے رہے ہیں، اس لیے فقہاء نے اس کو جائز قرار دیا ہے۔ (الاشباہ والنظائر:۱/۱۲۲) ۲۔عرفِ خاص: وہ عرف ہے جو کسی خاص شہر یاملک یالوگوں کی ایک جماعت کا عرف ہو اور انہی کے یہاں وہ متعارف ورائج ہو، مثلاً بخاریٰ کا عرف یامصر وقاہرہ کا عرف یاتاجروں اور کاشتکاروں کا عرف وغیرہ وغیرہ، عرف کی اس قسم میں عرفِ عام کے مقابلہ میں قوت کم ہے؛ لیکن اس کے باوجود یہ فتاویٰ اور احکام پر اثرانداز ہوتا ہے؛ مگراس کا اثر اس وقت ظاہر ہوگا جب کہ نص موجود نہ ہو۔ (اصول الفقہ لأبی زہرہ:۲۱۷۔ اصول مذہب الامام احمد بن حنبلؒ:۵۲۶۔ الاشباہ والنظائر:۱/۲۹۶۔ مجموعہ رسائل ابن عابدین:۲/۱۱۴) عرفِ عام وخاص کی تعریف کا حاصل یہ ہے کہ عرفِ عام میں یہ قید ہوتی ہے کہ ایک زمانہ کے تمام لوگوں کا تعامل کسی عمل پر ہو اور علماء کی طرف سے اس پر نکیر نہ کی گئی ہو؛ لیکن عرفِ خاص کے اندر تمام لوگوں کا تعامل نہیں ہوتا ہے؛ بلکہ کسی مخصوص شہر کے لوگوں کا تعامل ہوتا ہے اور وہاں کے علماء نے اس پر نکیر بھی نہ کیا ہو، اوّل کی مثال عقد استصناع ہے اور ثانی کی مثال عقد کے اندر غالب نقد بلد کا اعتبار ہے۔ (الاشباہ والنظائر،القاعدۃ السادسۃ،العادۃ محکمۃ:۱/۱۵) عرفِ عام وعرفِ خاص میں حکم کے اعتبار سے فرق ۱۔پہلا فرق یہ ہے کہ عرفِ عام سے حکم عام ثابت ہوگا یعنی ایسا عرف جو تمام بلاد والوں کا ہو، تو اس کے ذریعہ جوحکم ثابت ہوگا وہ تمام بلاد والے پر اس کی پابندی لازم ہوگی؛ لیکن عرفِ خاص کے ذریعہ حکمِ خاص ثابت ہوگا اور اس حکم کے پابند صرف وہی شہر والے ہوں گے، جس شہر والے کا یہ عرف ہے۔ (مجموعہ رسائل ابن عابدین:۲/۱۳۲) ۲۔اگرعرفِ عام نصِ قطعی "قرآن وحدیث" کے خلاف واقع ہوجائے توعرفِ عام کے اعتبار سے نص میں تغیر کرنا ہرگز جائز نہیں ہے؛ لیکن اگرقیاس کے خلاف عرفِ عام آجائے تواس صورت میں عرفِ عام کے لحاظ سے قیاس میں تبدیلی کرنی جائز ہے؛ لیکن عرفِ خاص سے قیاس میں تغیروتبدل کرنے میں اختلاف ہے، راجح قول یہ ہے کہ تبدیلی جائز ہے۔ ۳۔اگرعرفِ عام یاخاص علماء متقدمین کی رائے کے خلاف واقع ہوتو اس صورت میں عرف پر عمل کرکے ثابت شدہ مسئلہ میں تغیر کرنا جائز ہے۔ (الاشباہ والنظائر،تعارض العرف مع الشرع:۱/۱۲۰،دورالاجتھاد،۱/۱۳ ) ۴۔عرفِ عام اگر نص شرعی کے معارض ہوتو اس کے ذریعہ اثر کی تخصیص بھی درست ہے، جیسے عقد استصناع اور اگرعرفِ خاص نص شرعی کے معارض ہوتو اس کے ذریعہ اثر کی تخصیص کرنے اور نہ کرنے میں اختلاف ہے اصح یہ ہے کہ اثر کی تخصیص درست نہیں ہے۔ (رسائل ابنِ عابدین:۲/۱۳۳)اصل سے مقابلہ کرلیا جائے عرف کے معتبر ہونے کی شرطیں عرف کے معتبر ہونے کے لیے فقہاء کرام نے درجِ ذیل شرطیں لگائی ہیں: ۱۔"عرف" عام ہو اور لوگ اس کا ہمیشہ لحاظ کرتے ہوں، ایسا تعامل جسے کبھی اختیار کیا جائے اور کبھی ترک کردیا جاتا ہو وہ "عرف" شرعاً معتبر قرار نہیں پائے گا۔ (اصول مذہب الامام احمد بن حنبلؒ:۵۲۹) ۲۔"عرف" کا انشاء تصرف کے ساتھ یااس سے پہلے پایا جانا ضروری ہے ،مثلاً دوآدمیوں کے درمیان اگر کوئی معاملہ طے پائے اور ان میں نزاع کی شکل پیدا ہوجائے تو نزاع کے حل کے لیے اس "عرف" کا اعتبار ہوگا جومعاملہ کے شروع ہونے کے ساتھ یااس سے پہلے لوگوں میں موجود تھا، ایسا عرف جوبعد میں قائم ہو اس کو پہلے سے طے ہونے والے معاملہ میں فیصل نہیں مانا جائے گا؛ چنانچہ فقہاء کرامؒ لکھتے ہیں کہ: "لاعبرۃ بالعرف الطاری والعرف الذی یحمل علیہ الالفاظ انما ھوالمقارن السابق دون المتأخر"۔ (اصول مذہب الامام احمد بن حنبلؒ:۵۲۸) ترجمہ:بعد میں ظاہر ہونے والے عرف کا اعتبار نہیں ہے؛ اسی طرح فقہاء کہتے ہیں کہ وہ عرف جس پر الفاظ کو محمول کیا جائے، اس کا عقد کے ساتھ یاپہلے ہونا ضروری ہے، بعد میں قائم ہونے والے عرف کا اعتبار نہیں ہوگا۔ مثال کے طور پر مہر کی ادائیگی میں تقدیم وتاخیر کا اگرذکر عقد نکاح کے وقت نہ کیا جائے تو"عرف" کے مطابق فیصلہ کیا جائے گا؛ لیکن اگرلوگوں کا تعامل بدل جائے اور نکاح کے وقت جوعرف تھا وہ باقی نہ رہے تو نئے "عرف" کا اطلاق اس معاملہ پر نہیں ہوگا۔ اسی طرح اگرکسی علاقہ میں "گوشت" سے صرف گائے کا گوشت مراد لیا جاتا ہو اور کسی شخص نے گوشت نہ کھانے کی قسم کھالی ہو تواس کی قسم اسی وقت ٹوٹے گی جب وہ گائے کا گوشت کھائے گا؛ کسی اور چیز کاگوشت کھانے سے وہ حانث نہیں ہوگا۔ (اصول مذہب الامام احمد بن حنبلؒ:۵۲۸) ۳۔تصریح عرف کے خلاف نہ ہو، مثال کے طور پر رواج توصرف آدھا مہر ادا کرنے کا ہو؛ لیکن نکاح کے وقت عورت نے یہ شرط لگادی ہو کہ وہ پورا مہرمعجّل لے گی اور شوہر نے اسے قبول بھی کرلیا ہوتو اب "عرف" کا اعتبار نہیں ہوگا؛ بلکہ صراحتاً عقد میں جوبات طے ہوئی ہے، اسی کا اعتبار ہوگا؛ کیونکہ "عرف" کا سہارا لینے کی ضرورت تووہاں پیش آتی ہے ،جہاں کسی معاملہ میں عاقدین کا مقصد معلوم نہ ہو، تب سکوت اس بات کا قرینہ ہوا کرتا ہے کہ معاملہ "عرف" کے مطابق ہوا ہوگا؛ لیکن جب تصریح عرف کے خلاف ہوتو پھر: "لاعبرۃ للدلالۃ فی مقابل التصریح"۔ ترجمہ:صراحت کے مقابلہ میں دلالت کا اعتبار نہیں ہے۔ (اصول مذہب الامام احمد بن حنبل:۵۳۰) ۴۔"عرف" کسی شرعی نص کے منافی اور اس کو معطل کرنے کا باعث نہ ہو؛ کیونکہ ایسا عرف جوشرعی نصوص شریعت کے مقاصد اور ا سکی روح کے خلاف ہو وہ "عرف فاسد" کہلاتا ہے اور شریعت میں اعتبار صرف "عرف صالح" کا ہے، مثال کےطور پر اگرشراب نوشی، قماربازی، سودی کا روبار، رقص وسرور کہیں کا عرف بن جائے، ضیافت میں حرام چیزوں کے پیش کرنے یامنگیتر کے ساتھ عقد سے پہلے ہی بے تکلف سیروتفریح کا رواج ہوجائے تونہ صرف یہ کہ اس طرح کے عرف کا شریعت میں اعتبار نہیں؛ بلکہ اس طرح کی چیزوں کی روک تھام اور معاشرہ کی ان امور میں اصلاح شریعت کا اولین مقصد ہوگا؛ ورنہ توتمام ترتکلیفی احکام ہی فوت ہوجائیں گے اور شریعت کا عملی زندگی سے یکسرخاتمہ ہوکر رہ جائے گا۔ (اصول مذہب الامام احمد بن حنبلؒ:۵۲۸) ۵۔صاحب فروق نے ذکر کیا ہے کہ "عادت" کے استعمال کا مکرر ہونا ضروری ہے اس حد تک کہ جب وہ لفظ بولا جائے توبغیر کسی قرینہ کے وہی معنی سمجھ میں آئے جومعنی اس کی طرف منقول ہے اور فہم کسی اور معنی کے بجائے اس معنی کی طرف سبقت کرے؛ اسی لیے "کلب معلَّم" اسی کو کہا جاتا ہے جب کہ مالک کتے کوتین مرتبہ شکار پر چھوڑے اور تینوں مرتبہ شکار کوپکڑکر مالک کے لیے چھوڑ دے خود نہ کھائے، اسی طرح جب اسے شکار پر چھوڑا جائے اور کسی وجہ سے اسے راستے سے واپس بلانا ہو اور وہ بلائے تو واپس بھی آجائے تواب اس کے بارے میں یہ کہا جائے گا کہ شکار کو نہ کھانے کی کتے کی عادت ہوگئی ہے اور اب یہ کتا "کلبِ معلم" کہلائیگا۔ (اصول مذہب الامام احمد بن حنبل:۵۲۸) ۶۔چھٹی شرط یہ ہے کہ عادت مطرد ہو یاغالب ہو، یعنی لوگوں کا کسی عمل کو بار بار (پے درپے، مسلسل) کرنے کی عادت بن جائے، یاغالب معنی پر محمول کرنے کی عادت ہو، جیسے اگر کسی نے دراہم یادنانیر کے بدلے فروخت کیا اور متبایعان کسی ایسے شہر میں رہتے ہیں، جہاں مختلف نقود رائج ہوں اور ہرایک کی مالیت بھی الگ الگ ہوں اور رواج میں بھی اختلاف ہو، کسی کا زیادہ کسی کا کم رواج ہو تو بیع غالب نقد بلد کی طرف لوٹے گی یعنی جس سکے کا رواج زیادہ ہو وہی مشتری کو ادا کرنا پڑے گا۔ (اصول مذہب الامام احمد بن حنبل:۵۲۸) عرف کی حجیت قرآن سے ذیل میں اسی عرف کے متعلق تھوڑی تفصیل ذکر کی جاتی ہے: "عرف" کے دلیل شرعی ہونے پر استدلال عام طور پر قرآن کریم کی اس آیت سے کیا جاتا ہے: "خُذِ الْعَفْوَ وَأْمُرْ بِالْعُرْفِ وَأَعْرِضْ عَنِ الْجَاهِلِينَ"۔ (الاعراف:۱۹۹) ترجمہ:سرسری برتاؤ کو قبول کرلیا کیجئے اور نیک کام کی تعلیم کردیا کیجئے اور جاہلوں سے ایک کنارہ ہوجایا کیجئے۔ (ترجمہ تھانویؒ) آیت بالا میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے نبیﷺ کو عرف یعنی امربالمعروف کا حکم دیا اور عرف اس چیز کو کہتے ہیں جس کو لوگ معروف اور اچھا سمجھیں اور ان کے دلوں اور نفوس کو وہ امور اچھا لگے؛ لہٰذا عرف پر عمل کرنا امر کا مقتضی ہے؛ لیکن بعض علماء نے نے لکھا ہے کہ اس آیت میں عرف اپنے لغوی معنی میں مستعمل ہوا ہے، یعنی وہ أمر مستحسن جوپسندیدہ ہو، نہ کہ فقہی اصطلاح کی رو سے جوعرف کا مفہوم ہے وہ اس آیت میں مراد ہے؛ مگریہ کہا جاسکتا ہے کہ اس آیت میں اگرچہ اصطلاحی معنی والا عرف مراد نہیں ہے؛ مگرمصطلحہ عرف کے اسلام میں معتبر ہونے کے لزوم پر دلالت کرنے سے آیت خالی بھی نہیں ہے؛ کیونکہ اعمال اور معاملات میں لوگوں کا عرف وہی قابلِ اعتبار ہوتا ہے جو ان کے نزدیک مستحسن ہو اور جن سے ان کی عقل مانوس ہوچکی ہو۔ (مجموعہ رسائل ابن عابدین:۲/۱۱۵۔ اصول مذہب الامام احمد بن حنبلؒ:۵۴۰) عرف کی حجیت حدیث سے "عرف" کے دلیل شرعی ہونے پر عبداللہ بن مسعودؓ کی اس روایت کا بھی ذکر کیا جاتا ہے، جس کے الفاظ یہ ہیں: "مارآہ المسلمون حسناً فھوعند اللہ حسن"۔ (نصب الرایہ، باب الاجارۃ الفاسدۃ:۴/۱۳۳) ترجمہ:مسلمان جس چیز کو اچھا سمجھیں وہ اللہ کے نزدیک بھی بہتر ہے۔ لیکن محدثین کے نزدیک اس کا حدیث رسول اللہﷺ ہونا ثابت نہیں ہے؛ البتہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ اثراگرچہ عبداللہ بن مسعود پر موقوف ہے؛ لیکن اس طرح کی بات چونکہ محض ظن وتخمین یاقیاس سے نہیں کہی جاسکتی، اس لیے یوں سمجھا جائے گا کہ حضرت عبداللہ بن مسعود نے یہ بات حضور اکرمﷺ سے سن کر ہی فرمائی ہوگی؛ بہرحال "عرف" کے دلیل شرعی اور حجت ہونے کی سب سے بڑی حجت یہی ہے کہ خود حضور اکرمﷺ نے بہت سے احکام عربوں کے "عرف" پر مبنی رکھے ہیں، جن میں خرید وفروخت کے طریقوں سے لیکر نکاح میں کفاءت تک کے لحاظ کا مسئلہ ہے۔ عرف کے سلسلے میں جمہور علماء کی رائے حنفیہ اور مالکیہ میں سے بہت سے حضرات کی رائے یہ ہے کہ عرف ان اصولوں میں سے ایک اصل ہے جس سے احکام میں استیناد کیا جاتا ہے یعنی جن پر احکام کی بنیاد رکھی جاتی ہے، جب کہ وہاں کوئی نص موجود نہ ہو، حنفیہ میں سے علامہ ابن نجیمؒ فرماتے ہیں: "وَاعْلَمْ أَنَّ اعْتِبَارَ الْعَادَةِ وَالْعُرْفِ يُرْجَعُ إلَيْهِ فِي الْفِقْهِ فِي مَسَائِلَ كَثِيرَةٍ حَتَّى جَعَلُوا ذَلِكَ أَصْلًا"۔ (الاشباہ والنظائر:۱/۲۹۵) ترجمہ:جاننا چاہیے کہ عرف وعادت کا اعتبار ہوتا ہے، اس کی طرف فقہ میں بہت سے مسائل کے اندر رجوع کیا جاتا ہے یہاں تک کہ علماء نے اس کو ایک اصل (شرعی) قرار دیا ہے۔ اور علامہ سرخسیؒ سے مبسوط میں نقل کیا گیا ہے کہ: "الثابت بالعرف کالثابت بالنص"۔ ترجمہ:عرف سے ثابت ہونے والے (حکم کی حیثیت) نص سے ثابت ہونے والے (حکم) کے مانند ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ حکم جوعرف سے ثابت ہو وہ حکم ایسی دلیل سے ثابت ہے، جونص کے مانند قابل اعتماد ہے، جہاں کوئی نص موجود نہ ہو اور فقہاء کی زبان پر یہ قول مشہور ہے کہ: "الْمَعْرُوف عرفاً کَالْمَشْرُوْطِ شَرْطًا"۔ یعنی جوچیز عرف کی بنیاد پر معروف ومشہور ہوجائے تووہ عرف اس شرط کے مانند ہے جس کی شرط لگائی گئی ہو۔ علامہ ابنِ نجیمؒ نے اس قاعدہ کو ذکر کرکے اس پر بہت سے فروع اور امثلہ کو متفرع کیا ہے۔ (اصول مذہب الامام احمد بن حنبل:۵۳۱) فقہ مالکی بھی فقہ حنفی کی طرح عرف کو تسلیم کرتا ہے اور اصول فقہ میں اُسے ایک اصل مانتا ہے، جہاں کوئی نص قطعی موجود نہ ہو؛ بلکہ فقہ مالکی عرف کے احترام میں مذہب حنفی سے زیادہ غلو کرتا ہے ،اس لیے کہ مصالح مرسلہ فقہ مالکی کے اہم ستون ہیں اور اس میں کوئی شک نہیں کہ اس عرف کی رعایت کرنا جس میں کوئی فساد نہیں ہے، مصلحت کی قسموں میں سے ایک قسم ہے، اس کا ترک کرنا فقیہ کے لیے درست نہیں؛ بلکہ اس کا لینا واجب ہے۔ ( امام مالک لابی زہرہ:۴۴۴) حنابلہ بھی دیگر اصحاب مذاہب کی طرح اپنے فتاویٰ اور احکام کے اندر عرف کا لحاظ کرتے ہیں اور حنابلہ چونکہ معاملات کے باب میں توسع سے کام لیتے ہیں اور وہ الفاظ پر اکتفا نہیں کرتے؛ بلکہ مفہوم اور مقاصد کو معتبر قرار دیتے ہیں، اس لیے حنابلہ خاص طور پر معاملات کے باب میں عرف کا لحاظ کرتے ہیں؛ اسی طرح عقود کے صیغوں اور معاملات ونکاح کے شرطوں میں لوگوں کے عرف اور تعامل کا بہت زیادہ خیال کرتے ہیں اور عقود ومعاملات میں جوشرائط عرفاً لوگوں کو معلوم ہوں لیکن عقد کرتے وقت اس کی شرط نہیں لگائی تووہ بغیر ذکر کئے ہوئے بھی شرط کی حیثیت سے عندالحنابلہ شرعاً معتبر ہوگی؛ یہی وجہ ہے کہ حنابلہ عرف کو نطق اور تکلم کے قائم مقام مانتےہیں۔ علامہ ابن القیمؒ اعلام الموقعین کے اندر لکھتے ہیں کہ: "وقد أجرى العرف مجرى النطق في أكثر من مائة موضع منها نقد البلد في المعاملات"۔ ترجمہ:سوسے زائد مقام میں عرف کونطق کے قائم مقام کیا گیا ہے، ان میں سے ایک معاملات کے اندر نقدِ بلد ہے۔ ان تصریحات سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ حنابلہ بھی عرف کو اصول شرع میں سے ایک اصل مانتے ہیں جہاں کوئی نص شرعی موجود نہ ہو۔ (اصول مذہب الامام احمد بن حنبل:۵۳۳) شافعیہ بھی جب نص نہ ہو عرف کا لحاظ کرتے ہیں؛ چنانچہ ابنِ حجرؓلکھتےہیں کہ جب عرف نص کے مخالف نہ ہوتوعرف پر عمل کرنا چاہیے اور یہ اس لیے کہ علامہ قرطبیؒ نے ابوسفیان کی بیوی کے سلسلے میں نبی کریمﷺ کا قول نقل کیا ہے "ابوسفیان کے مال میں سے اتنا لوجتنا عرف عام میں تمہارے بچہ اور تمہارے لیے کفایت کرے" یہ بات ایک حیثیت سے اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ شافعیہ کبھی عرف کو لیتے ہیں؛ لیکن یہ شرط لگاتے ہیں کہ اس کے لیے نص شرعی ہو۔ ( امام مالک لابی زہرہ:۴۴۵) عرف وعادت سے متعلق فقہی قواعد فقہاء نے "عرف وعادت" کے شریعت میں اعتبار کو اصول کی حیثیت سے مان کر جوقواعد وضع کئے ہیں ان کی تعبیر مختلف انداز سے کی جاتی ہے اور پھراس کی روشنی میں مختلف مسائل کا شرعی حکم متعین کیا جاتا ہے، اس سلسلہ میں فقہاء کی تعبیرات حسبِ ذیل قواعد کی شکل اختیار کرگئی ہیں: ۱۔"اَلْعَادَۃُ مُحَکَّمَۃٌ"۔ یعنی عرف وعادت کی حیثیت شرعی احکام اور حقوق والتزام میں فیصلہ کن ہوتی ہے اور "عرف" کے مطابق فیصلہ کرنا بھی لازم ہوتا ہے۔ ۲۔"اَلْحَقِیْقَۃُ تَتْرک بِدَلَالَۃِ الْعَادَۃِ"۔ یعنی معاملات اور شرعی احکام میں لفظ کے لغوی مفہوم کو "عرف" کی بناء پر چھوڑدیا جاتا ہے اور عرف کولفظ کے حقیقی معنی پرترجیح ہوتی ہے۔ ۳۔"اِسْتِعْمَال النَّاس حجَّۃ یجب العمل بھا"۔ یعنی لوگوں کا تعامل اور عرف غیرمنصوص أمور میں شرعی حجت کی حیثیت رکھتا ہے۔ ۴۔"المعروف عرفاً کالمشروطِ شَرْعًا"۔ عقود ومعاملات اور وہ باتیں جوعرفاً لوگوں کو معلوم ہوں وہ بغیر ذکر کئے ہوئے بھی شرط کی حیثیت سے معتبر ہوں گی، بشرطیکہ وہ شرعی نصوص کے مغائر نہ ہوں۔ ۵۔"التَّعْیین بِالْعُرْفِ کَالْتَعْیین بِالنَّصِّ"۔ یعنی وہ امور جہاں کوئی شرعی نص نہ ہو، ان میں "عرف" کی حیثیت شرعی نص جیسی ہی ہوتی ہے؛ چنانچہ عقود ومعاملات کی تمام ترشروط کی تعیین "عرف" کی روشنی میں ہی کی جائے گی۔ ۶۔"الثَّابِتُ بِالْعُرْفِ کَالثَّابِتُ بِالنَّصِ"۔ اس کا بھی حاصل یہی ہے کہ جہاں کوئی شرعی نص نہ ہو وہاں "عرف" کو وہی حیثیت حاصل ہوگی جوشرعی نص کو ہوا کرتی ہے اور عرف پر ہی عمل کیا جائے گا۔ ۷۔"لَاینْکر تغیرالاَحْکَامِ بِتَغْیییر الازمان"۔ ترجمہ:زمانہ اور عرف وعادت کے بدل جانے سے احکام میں بھی تبدیلی ہوجایا کرتی ہے، یہ ایک حقیقت ہے، جس کا انکار نہیں کیا جاسکتا۔ (الاشباہ والنظائر:۱/۸۹شاملہ) (مجلة مجمع الفقه الاسلامي التابع لمنظمة المؤتمر الاسلامي بجدة، منزلة العرف في التشريع الإسلامي،۵/۲۸۳۳) (الموسوعة الفقهية الكويتية،۳۰/۵۶،شاملہ) غرض یہ کہ شرعی نصوص میں عام کی تخصیص، مطلق کی تقیید اور نص کے معنی ومفہوم کی تعیین وتحدید کے علاوہ فقہاء بہت سے احکام ومعاملات کی بنیاد عرف پر رکھتے ہیں، مثلاً مال کب محرز سمجھا جائے گا اور سرقہ کا تحقق کب ہوگا؟ خریدوفروخت میں معاملہ کب مکمل سمجھا جائے گا اور تفرق کا معیار کیا ہے؟ اسی طرح قسموں اور نذر وغیرہ میں استعمال ہونے والے الفاظ کو کس معنی پر محمو ل کیا جائے گا؟ یہ سب ایسے امور ہیں جن کا فیصلہ "عرف" ہی کی روشنی میں کیا جائے گا۔ عرف کی تبدیلی کا احکام پر اثر عرف اور زمانہ کی تبدیلی کا اثر چونکہ احکام کی تبدیلی کی شکل میں بھی ظاہر ہوتا ہے، اس لیے فقہاء اس بات پر خاص طور پر زور دیتے ہیں کہ شرعی احکام بیان کرنے والوں کو عرف وعادت زمانہ اور ماحول کو کبھی نظر انداز نہیں کرنا چاہیے، علامہ ابن القیمؒ نے اپنی مایہ ناز کتاب "اعلام الموقعین" میں ایک مستقل باب ہی اس عنون سے قائم کیاہے: "تَغَيُّر الفَتْوَى واختلافِها بحسْب تَغيُّر الأزْمنة والأمكنة والأحوال والنِّيات والعَوائد"۔ (اعلام الموقعین:۳/۵) ترجمہ:زمان ومکان، حالات، نیتوں اور عادتوں میں اختلاف کا اثر فتویٰ پر پڑتا ہے۔ پھر اس کی وضاحت کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں کہ: "هذا فصل عظيم النفع جدا وقع بسبب الجهل به غلط عظيم على الشريعة أوجب من الحرج والمشقة وتكليف مالاسبيل إليه"۔ (اعلام الموقعین:۳/۵) ترجمہ:یہ بڑا ہی عظیم اور مفید باب ہے اور اس ناواقفیت کی وجہ سے شریعت کے بارےمیں بڑی غلطیاں ہوئی ہیں اور وہ حرج ومشقت کا سبب بنی اور ایسی مشقت میں لوگوں کو ڈالدیا ہے جس کی کوئی بنیاد نہیں تھی۔ ان تصریحات سے ثابت ہوتا ہے کہ زمانہ اور عرف کی تبدیلی کا اثر احکام پر بھی پڑتا ہے، ذیل میں اس کی کچھ مثالیں دی جاتی ہیں: ۱۔قرآن کریم کی تعلیم، اذان، امامت، یہ سب عبادتیں ہیں جس کی ادائیگی آدمی آخرت کے اجروثواب کے لیے کیا کرتا ہے؛ لہٰذا اصل کی رو سے ان فرائض کی ادائیگی پر اجرت لینا جائز نہیں ہونا چاہیے؛ چنانچہ فقہاء یہی فتویٰ دیا کرتے تھے؛ لیکن جب انہوں نے یہ دیکھا کہ سیاسی تبدیلیوں کی وجہ سے بیت المال کا دروازہ دینی کام کرنے والوں کے لیے بند کردیا گیا ہے اور امامت اور تعلیم قرآن کے فرائض انجام دینے والوں کواگر اپنی معاش کے لیے زراعت، تجارت، صناعت وغیرہ میں مشغول ہوجانا پڑا تواس سے دین کا زیاں ہوگا اور دینی ذمہ داریوں کی انجام دہی کے لیے کوئی نہیں ملے گا؛ چنانچہ متاخرین نے یہ فتویٰ دیا کہ امامت اور تعلیم قرآن وغیرہ کی اجرت لینا جائز ہے۔ (مجموعہ رسائل ابن عابدین:۲/۱۲۵،۱۲۶) ۲۔دھوبی اور درزی وغیرہ کوجوکپڑے ڈرائی کلن یاسلائی کے لیے دیئے جاتے ہیں؛ چونکہ وہ اجیرمشترک ہیں اس لیے وہ اُن کے ہاتھوں میں امانت کی حیثیت رکھتے ہیں، امانت اگربغیر تعدی کے ہلاک ہوجائے تواس کا تاوان نہیں ہوا کرتا، لیکن پیشہ وروں کی طرف سے اہمال اور بے احتیاطی رونما ہونے لگی اور وہ بکثرت اس طرح کے دعوے کرنے لگے کہ مال ضائع ہوگیا ہے، جس میں مالکین کی کھلی حق تلفی تھی؛ چنانچہ فقہاء نے اس صورتِ حال کے پیشِ نظر تاوان واجب ہونے کا فتویٰ دیا؛ تاکہ لوگوں کے مال کی حفاظت کی جاسکے؛ چنانچہ شرعی حکم یہ ہے کہ اگرکوئی عمومی قسم کی مصیبت اور حادثہ رونما نہ ہو جیسے زلزلہ یاعمومی آتش زدگی وغیرہ تواجیر مشترک ضائع شدہ مال کا تاوان اداکرے گا۔ (مجموعہ رسائل ابن عابدین:۲/۱۲۶۔اصول الفقہ لأبی زہرہ:۲۱۸) ۳۔امام ابوحنیفہؒ کے زمانہ میں چونکہ حق گوئی اور صداقت تھی اور دروغ گوئی کا زیادہ چلن نہیں ہوا تھا؛ کیونکہ وہ خیرالقرون کا زمانہ تھا، اس لیے گواہوں کی ظاہری عدالت کو وہ کافی قرار دیا کرتے تھے؛ گواہوں کے ثقہ ہونے کی شہادت کی ضرورت نہیں سمجھتے تھے؛ لیکن امام ابویوسفؒ اور امام محمدؒ نے جب اس بارے میں لوگوں کی بے احتیاطی دیکھی تو انہوں نے شاہدوں کے ثقہ ہونے کے لیے تزکیہ وشہادت ضروری سمجھی؟ کیونکہ عملی طور پر قضا سے وابستگی کی بناء پر ان لوگوں کی بے احتیاطی اور دروغ گوئی کا زیادہ تجربہ تھا؛ چنانچہ حالات کی تبدیلی نے انہیں اس بات پر مجبور کیاکہ وہ فتویٰ میں تبدیلی کریں۔ (مجموعہ رسائل ابن عابدین:۲/۱۲۶۔اصول الفقہ لأبی زہرہ:۲۱۸) ۴۔امام ابوحنیفہؒ بادشاہ کے علاوہ کسی اور کی طرف سے جبر کو "اکراہ" قرار نہیں دیتے تھے؛ کیونکہ ان کے زمانہ میں قوت کا مظاہرہ صرف بادشاہ کی طرف سے ہوا کرتا تھا؛ لیکن بعد میں جب ڈاکہ زنی اور جبر واکراہ کے واقعات کی عام لوگوں کی طرف سے زیادتی ہوگئی توامام صاحبؒ کے دونوں شاگردوں امام ابویوسفؒ اور امام محمدؒ نے یہ بات تسلیم کی کہ اکراہ کا معاملہ سلطان کے علاوہ دوسرے لوگوں کی طرف سے بھی ہوسکتا ہے؛ چنانچہ انہوں نے اس کے مطابق فتویٰ دیا۔ (مجموعہ رسائل ابن عابدین:۲/۱۲۶۔اصول الفقہ لأبی زہرہ:۲۱۸) ۵۔صحیح روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ حضور اکرمﷺ کے زمانہ میں عورتیں عام طور پر مساجد میں نماز کی ادائیگی کے لیے جایا کرتی تھیں؛ لیکن جب معاشرہ میں خرابی پیدا ہوئی توخود صحابہ کرامؓ کے زمانہ میں ہی ان کو مسجد میں نماز کی ادائیگی سے روک دیا گیا۔ (مجموعہ رسائل ابن عابدین:۲/۱۲۶) عرف پر مبنی بعض اہم فروعات کا ذکر "عرف" پر مبنی تمام احکام کا احاطہ تویہاں ممکن نہیں ہے، خاص طور پر ایسی صورت میں جب کہ "عرف" کے بدلنے سے احکام میں تبدیلی بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے ؛تاہم بطورِ مثال چند ایسے احکام کوذکر کیا جاسکتا ہے، جس سے مزید اندازہ کیا جاسکے کہ فقہی اور شرعی احکام میں عرف کا اثر کہاں تک ہوتا ہے؟: ۱۔شادی بیاہ کے موقع پر عورت کو جومال واسباب جہیز کے طور پر دیا جاتا ہے، وہ شوہر کی ملکیت ہوگی یابیوی کی؟ اور شادی کا رشتہ اگرکسی وجہ سے برقرار نہ رہ سکا تواس پر کس کا حق تسلیم کیا جائے گا؟ اس بارے میں "عرف" ہی کا لحاظ کیا جائے گا؟ شوہر کا دعویٰ خواہ کچھ ہی کیوں نہ ہو؛ لیکن فیصلہ "عرف" کوسامنے رکھ کر کیا جائے گا۔ (مجموعہ رسائل ابن عابدین:۲/۱۳۴) ۲۔مکان کی خریدی کے بعد ،اس کی چھت سے اوپر کا حصہ "حق علو" یعنی حق تعلّی کے بارے میں بائع اور مشتری کے درمیان نزاع کا فیصلہ بھی "عرف" ہی کی بنا پر کیا جائے گا؛ خواہ حقوق ومرافق کا ذکر عقد میں نہ کیا گیا ہو۔ (مجموعہ رسائل ابن عابدین:۲/۱۳۲) ۳۔ضرورت کی مختلف چیزیں جو ابھی وجود میں نہ آئی ہوں اور عقد کے وقت عملاً معدوم ہوں ،آرڈر دے کر تیار کرانا اور کسی شخص یاکارخانہ سے ایسے مال کا سودا کرنا، جن کا تیار کرنا تواس کارخانہ کا کام ہو؛ لیکن مال ابھی تیار شدہ نہ ہو اور جسے فقہاء کی اصطلاح میں "استصناع" کہا جاتا ہے "عرف" ہی کی بناء پراس کے جواز کا حکم دیا گیا ہے؛ ورنہ ہرشخص جانتا ہے کہ ایک ایسی چیز کی بیع جوابھی وجود میں نہ آئی ہو شرعاً درست نہیں ہونی چاہیے۔ (اصول الفقہ لابی زہرہ:۲۱۷) ۴۔تربوز، بیگن، انگور اور اس طرح کے دوسرےپھل اور ترکاریاں جن میں سے بعض تودرخت پہ ہوں اور بعض ابھی ظاہر ہی نہ ہوئے ہوں، ان کی خریدوفروخت کی فقہائے مالکیہ اور احناف میں شمس الائمہ حلوانی نے اجازت دی ہے؛ کیونکہ "عرف" میں یہ لوگوں کی ضرورت اور ان کے تعامل کا ایک حصہ ہے، جب کہ شوافع، حنابلہ اور اکثر احناف نے اس طرح کے معاملہ کو ناجائز قرار دیا ہے۔ (مجموعہ رسائل ابن عابدین:۲/۱۳۹) متاخرین میں سے علامہ شامیؒ نے بھی عرف وعادت کے پیشِ نظر اس کے جواز کا فتویٰ دیا ہے۔ (مجموعہ رسائل ابنِ عابدین:۲/۱۳۹) ۵۔گھڑی، ریڈیو، فریج اور واشنگ مشین اور اسی طرح کی بہت سی اشیاء کی خریداری کے وقت عام طور پر اسے کمپنیاں پانچ سال دوسال، ایک سال یااسی طرح کی کسی متعین مدت تک کے لیے ایک کفالت نامہ دیتی ہیں کہ اگر اس عرصہ میں وہ چیز خراب ہوگئی تواس کی اصلاح ومرمت کی ذمہ داری کمپنی پر ہوگی؛ چنانچہ اس وقت صورتِ حال یہ ہوگئی ہے کہ ایک ہی مال تیار کرنے والی مختلف کمپینوں کے تیار کردہ مال میں زبردست تفاوت ہوا کرتا ہے، اس لیے لوگ عام طور پر اس کمپنی کا مال لینے کے لیے آمادہ ہوتے ہیں جواس طرح کا کفالت نامہ دے اور عموماً بل کے اوپر یہ عبارت لکھی ہوتی ہے: "البضاعۃ مکفولہ لمدۃ خمس سنوات"۔(5year warranty) اب اصل قاعدہ کا تقاضا تو یہ تھا کہ چونکہ بیع اور شرط دونوں ہی پائی گئی، جس کی صراحت کے ساتھ ممانعت کی گئی ہے۔ "أَنَّهُ نَهَى عَنْ بَيْعٍ وَشَرْطٍ، الْبَيْعُ بَاطِلٌ، وَالشَّرْطُ بَاطِلٌ"۔ (نصب الرایہ:۴/۱۷) ترجمہ:حضورﷺ نے بیع اور شرط کو جمع کرنے سے منع فرمایا ہے، ایسی صورت میں بیع بھی باطل اور شرط بھی باطل ہوگی۔ لیکن فقہاء نے اس طرح کے معاملہ کی "عرف" کی بناء پر اجازت دی ہے اور علامہ ابن عابدین شامیؒ نے حدیث کی توجیہہ یہ کی ہے کہ اس سے مقصود ایسی شرط ہے جونزاع کا باعث بنے اور اس زمانے کے "عرف" نے اس کا فیصلہ کردیا ہے کہ اوپر ذکر کی ہوئی شرط نزاع کا باعث نہیں بنتی؛ بلکہ بیع وشراء کے مقصد کی مزید تکمیل کا ذریعہ بنتی ہے ،اس لیے فتویٰ "عرف" کے مطابق دیا جائے گا اور حدیث میں ذکر کردہ بیع وشرط کی ممانعت پر اس کے قیاس کو ترک کردیا جائے گا۔ (مجموعہ رسائل ابن عابدین:۲/۱۴۱) ۶۔وقفہ نامہ کے الفاظ کو ہرزمانہ کے عرف پر ہی محمول کیا جائے گا اور اس سلسلہ میں پیدا ہونے والے نزاع کا فیصلہ "عرف" کی روشنی ہی میں کیا جائے گا۔ (مجموعہ رسائل ابن عابدین:۲/۱۲۶) ۷۔وقف کو اصل کی رو سے مؤبد ہونا چاہیے؛ لیکن امام محمدؒ نے منقولہ جائیداد کے وقف کی بھی اجازت دی ہے؛ کیونکہ عرفاً یہ چیز انہوں نے رائج دیکھی۔ ۸۔خود شریعت نے بعض حالتوں میں دیت قاتل کے بجائے اس کے عاقلہ پر واجب کی ہے، جودرحقیقت عربوں کے عرف پر ہی مبنی ہے؛ ورنہ دیت کا وجوب اصولاً قاتل پر ہی ہونا چاہیے۔ ۹۔کفاءت کا لحاظ اور اس میں پیشہ وغیرہ کی رعایت بھی عرف پر ہی مبنی ہے؛ ورنہ شریعت کی تعلیم کی رو سے انسانوں کے تمام طبقات میں مساوات پائی جاتی ہے؛ البتہ شادی کی مصلحت اور نکاح کی پائیداری کے مقصد کے پیشِ نظر کفاءت کا لحاظ رکھنے کی تعلیم دی گئی ہے؛ کیونکہ عربوں کے عرف کے مطابق بعض پیشوں کوذلت کی نظر سے دیکھا جاتا تھا اور اس سے وابستہ لوگوں کے ساتھ استحقار کا معاملہ کیا جاتا تھا، جس کو نظرانداز کرنے سے نکاح کا مقصد ہی فوت ہوجاتا ہے۔ ۱۰۔عقدِ نکاح میں اگرمہر کے معجل یامؤجل ہونے کی وضاحت نہ ہو توفقہاء کی تصریح کے مطابق اس کا فیصلہ "عرف وعادت" ہی کی روشنی میں کیا جائے گا۔ ۱۱۔بیع کی قیمت اور اجیر کی اجرت کی صراحت نہ کی گئی ہوتو اس کے بارے میں فیصلہ بھی "عرف" کو سامنے رکھ کر ہی کیا جائے گا۔ ۱۲۔کرایہ پر لی ہوئی چیز سے کس درجہ انتفاع کی مستاجر کو اجازت ہے اور اجرت پرلی ہوئی چیز کے استعمال سے تلف ہوجانے کی صورت میں تعدی کب شمار کی جائے گی اور اسےنقصان کی تلافی کا ذمہ دار کب قرار دیا جائے گا؟ اس کا فیصلہ بھی عرف وعادت ہی کی روشی میں کیا جائے گا۔ ۱۴۔وہ چیزیں جوامانت کے طور پر رکھی ہوئی ہوں، ان کی حفاظت کا کیا معیار ہے؟ اور ودیعت رکھنے والے شخص کوکب اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی میں کوتاہی کا قصور وار ٹھہرایا جائے گا، اس کا فیصلہ بھی عرف وعادت ہی کوپیشِ نظر رکھ کر کیا جاسکتا ہے؛ کیونکہ ہرچیز کی حفاظت کا طریقہ اور معیار ہرجگہ یکساں نہیں ہوا کرتا۔ ۱۵۔کسی شخص کو اگر ہمہ وقتی اجیر رکھا جائے توکون کون سے کام کی ذمہ داری اس کے سرہوگی اور کس طرح کے کام کی انجام دہی سے اس کو مستثنیٰ رکھا جائے گا ،اس کا فیصلہ بھی "عرف" ہی کی بناء پر کیا جائے گا۔ ۱۶۔عام طور پر ٹیلرنگ سنٹر، یابیگ سازی وغیرہ کے کارخانوں میں یہ ہوتا ہے کہ کچھ عرصہ گزرنے کے بعد سیکھنے والا شخص بھی مال کی تیاری میں اپنے استاد اور کاریگر کا بھرپور معاون بن جاتا ہے، ایسی صورت میں استاد کو سکھانے کی اجرت کس حد تک لینے اور شاگرد کے تیار کردہ مال کی منفعت میں کس حد تک اسے شریک کرنے کی گنجائش ہوگی، اس کا فیصلہ بھی "عرف" کی روشنی میں ہی کیا جائے گا۔ حالات وزمانہ اور عرف وعادت کی تبدیلی کی بناء پر جن مسائل میں فقہاء نے اپنے پیش رو مجتہدینؒ سے اختلاف کیا ہے اور ان سے مختلف فتویٰ دیا ہے اور اس کے بارے میں وہ عموماً لکھا کرتے ہیں: "ہذا اختلاف عصر وأوان لااختلاف حجۃ وبرھان"۔ (مجموعہ رسائل ابن عابدین:۲/۱۲۶) یہ زمانہ اور حالات کے اختلاف کا نتیجہ ہے،دلیل وحجت کا اختلاف نہیں ہے۔