انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** دنیاوی ابتلاء پر تاسف اس میں شبہ نہیں کہ قیام ملوکیت کے سلسلہ میں امیر معاویہؓ کو دنیاوی ابتلاءو آزمائشوں میں مبتلا ہونا پڑا اوربحیثیت صحابی رسول کے اس سے اپنا دامن نہ بچا سکے؛ لیکن اپنی لغزشوں کا انہیں ہمیشہ احساس رہا اور آخر وقت میں وہ اس پر نادم وتاسف رہا کرتے تھے ؛چنانچہ مرض الموت میں کہتے تھے کاش میں ذی طوی (نام مقام) میں قریش کا معمولی آدمی ہوتا اوران معاملات میں نہ پڑا ہوتا۔ ایک روایت میں ہے کہ عالم نزع میں اپنا چہرہ زمین پر رگڑتے تھے اور رو رو کر کہتے تھے کہ خدایا تونے اپنی کتاب میں کہا ہے: إِنَّ اللَّهَ لَا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِكَ لِمَنْ يَشَاءُ (نساء:۴۸) یعنی اللہ اس کی مغفرت نہیں کرتا جو اس کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرائے اوراس کے ماسوا جس کو چاہتا ہے بخش دیتا ہے۔ اس لئے بارا لہا مجھ کو ان لوگوں میں شامل فرما جن کی مغفرت تونے اپنی مشیت پر رکھی ہے۔ (البدایۃ والنہایہ:۸/۱۴۲) بحیثیت شخصی فرما نروا کے انہیں ہمیشہ دنیاوی وجاہت اورظاہری شان وشوکت سے واسطہ رہا،لیکن جب ظاہری طمطراق پر ان کی نظر پڑتی تھی تو حسرت وافسوس کے کلمات ان کی زبان پر جاری ہوجاتے تھے عبداللہ بن سعدہ بن حکمہ فرازی بیان کرتے ہیں کہ امیر معاویہ شام کے کسی علاقہ سے اپنے علاقہ میں جارہے تھے راستہ میں ایک مقام پر منزل ہوئی سر راہ ایک بلند اور کھلی چھت پر فرش بچھا یا گیا میں بھی امیر کے ساتھ اس پر بیٹھ گیا اتنے میں اونٹ کی قطاریں گھوڑے اور لونڈی غلام کے غول گذرنے لگے انہیں دیکھ کر امیر نے مجھ سے مخاطب ہوکر کہا ابن مسعدہ خدا ابوبکرؓ پر رحم کرے نہ انہوں نے دنیا کو چا ہا نہ دنیا نے انہیں چاہا، عمرؓ کو دنیا نے چاہا لیکن انہوں نے اس کو نہیں چاہا، عثمانؓ کو کچھ دنیا میں مبتلا ہونا پڑا اورہم لوگ تو بالکل اسی میں آلودہ ہوگئے ،یہ کہہ کر وہ نادم ہوئے پھر کہا خدا کی قسم یہ حکومت بھی خدا ہی نے ہم کو دی ہے۔ (طبری:۷/۲۱۲)