انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** جنت میں داخلہ اللہ کی رحمت سے ہوگا رحمتِ خداوندی کی وسعت: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُهَا لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَالَّذِينَ هُمْ بِآيَاتِنَا يُؤْمِنُونَ (الأعراف:۱۵۶) ترجمہ:اور میری رحمت تمام اشیاء کومحیط ہورہی ہے (باوجود اس کے کہ ان میں بہت سی مخلوق سرکش اور معاند ہے جواس کی مستحق نہیں؛ مگران پربھی ایک گونہ رحمت ہے گودنیا ہی میں سہی؛ پس میری رحمت غیرمستحقین کے لیے بھی عام ہے) میں اس رحمت کوکامل طور پران لوگوں کے لیے ضرور لکھوں گا جوخدا تعالیٰ سے ڈرتے ہیں اور زکوٰۃ دیتے ہیں اور جوہماری آیات پر ایمان لاتے ہیں۔ حدیث:حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: أن الله كتب كتاباً يوم خلق السموات والأرض: إن رحمتي تغلب غضبي، وفي رواية سبقت غضبي، وفي رواية: فهو موضوع عنده فوق العرش۔ (نہایہ فی الفتن والملاحم:۲۵۱) ترجمہ:بلاشبہ اللہ نے جس دن آسمانوں اور زمین کوپیدا کیا یہ لکھ دیا تھا کہ میری رحمت میرے غصب سے زیادہ ہے اور ایک روایت میں (یہ اضافہ بھی ہے) کہ (اللہ تعالیٰ نے اپنا یہ فیصلہ لکھ کر) اپنے پاس عرش پررکھ دیا ہے۔ قیامت میں رحمت کی وسعت: حدیث:حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: إن لله مائة رحمة، أنزل منها واحدة بين جميع الخلق، فبها يتراحمون وبها تعطف الوحوش على أولادها، وأخر تسعة وتسعين رحمة، يرحم بها عباده يوم القيامة۔ (نہایہ فی الفتن والملاحم:۲۵۱) ترجمہ:اللہ تعالیٰ کی سورحمتیں ہیں ان میں سے مخلوقات کے درمیان صرف ایک رحمت نازَ کی ہے اسی ایک رحمت کی وجہ سے یہ مخلوقات کے درمیان صرف ایک رحمت نازل کی ہے اسی ایک رحمت کی وجہ سے یہ مخلوقات آپس میں ایک دوسرے پرترس کھاتی ہیں اور اسی کی وجہ سے تمام وحشی جانور اپنی اولاد پرشفقت کامعاملہ کرتے ہیں اور نناوے رحمتیں اللہ تعالیٰ نے مؤخر کردی ہیں ان کے ساتھ قیامت کے دن اپنے بندوں پررحمت کا معاملہ کریں گے۔ آخرت میں عذاب کس کوہوگا: جناب رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: إن الأم لاتلقي ولدها في النار، فأكب رسول صلى الله عليه وسلم يبكي ثم رفع رأسه إلينا، فقال: إن الله عزوجل لايعذب من عباده إلاالمارد المتمرد، الذي يتمرد على الله، ويأبى أن يقول لاإله الله (نہایہ فی الفتن والملاحم:۲۵۲) ترجمہ:ماں اپنے بچے کوکبھی آگ میں نہیں ڈالتی، اس کے بعد حضوراکرمﷺ خوب روتے رہے پھرآپ نے اپنا سرمبارک اٹھاکر ہماری طرف توجہ کی اور ارشاد فرمایا اللہ تبارک وتعالیٰ اپنے بندوں میں سے کسی کوعذاب نہیں دیں گے (یعنی دوزح میں نہیں ڈالیں گے) مگرسرکش متکبر کواور وہ جوکلمہ لَاإِلَهَ إِلَّااللَّهُ پڑھنے سے انکار کرے۔ فائدہ:یہ حدیث سند کے اعتبار سے ضعیف ہے اگراس کا مضمون درست ہوتو اس حدیث کوپڑھ کرقارئین رحمت خداوندی کودیکھ کرگناہوں میں ملوث نہ ہوں اور نہ رحمت کے سہارے پرگناہوں پرسرکشی کرنے والوں میں شریک ہوجائیں گے اور سرکشی پررحمت نہ ہونے اور دوزخ میں جانے کا آپ اسی حدیث میں پڑھ چکے ہیں۔ ابلیس کوبھی رحمت کی اُمید ہونے لگے گی: حدیث:حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جناب رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: مجھے اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے دین کے معاملہ میں گناہ میں ملوث ہونے والا اور احمق حماقت میں مبتلا بھی ضرور جنت میں داخل ہوگا اور مجھے قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے وہ شخص بھی جنت میں ضرور داخل ہوگا جس کے چوتڑوں کوآگ جلادے گی اور مجھے قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اتنا وسیع پیمانہ پررحمت کا معاملہ فرمائیں گے کہ ابلیس کوبھی رحمت کی اُمید ہونے لگے گی کہ شاید اس کوبھی رحمت حاصل ہوجائے۔ (نہایہ ابن کثیر:۲/۳۵۳، بحوالہ طبرانی) مؤمن کی بخشش کا بہانہ: حدیث:حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن گنہگار بندے کواپنے قریب بلائیں گے اور اس پراپنے بازوکاپردہ ڈالیں گے اور تمام مخلوقات سے اس کوچھپالیں گے اور پردے ہی میں اس کا اعمالنامہ عطاء کریں گے اور فرمائیں گے (اے آدم زاد اپنے) اعمالنامہ پڑھو! تووہ (اپنے اعمالنامہ کو پڑھتے ہوئے) نیکی کوپڑھے گا تواس کی وجہ سے اس کا چہرہ روشن ہوجائے اور دل خوش ہوجائے گا تواللہ تعالیٰ فرمائیں گے، اے میرے بندے! کیا تمھیں (اس نیکی کا علم ہے تووہ عرض کرے گا ہاں! اے پروردگار میں) اسکوجانتا ہوں اللہ تعالیٰ فرمائیں گے میں تم سے اس نیکی کوقبول کیا تووہ سجدہ میں گرپڑے گا تواللہ تعالیٰ فرمائیں گے اپنا سراٹھاؤ اس نیکی کواپنے اعمالنامہ میں رہنے دو؛ پھروہ شخص (اعمالنامہ پڑھتے ہوئے اپنے) گناہ کے پاس سے گذرے گا تواس کی وجہ سے شرم کے مارے خود ہی اس کا چہرہ سیاہ ہوجاے گا اور اس سے اس کا دل گھبراجائے گا تواللہ تعالیٰ پوچھیں گے، اے میرے بندے! اس (گناہ) کو پہچانتے ہو؟ تووہ عرض کرے گا ہاں! یارب پہچانتا ہوں، تواللہ تعالیٰ فرما ئیں گے میں اس گناہ کوتم سے زیادہ جانتا ہوں میں نے اس کوتمہاری خوشی کے لیے معاف کیا؛ چنانچہ وہ بندہ نیکی کے پاس سے گذرتا رہے گا اس کی نیکی قبول ہوتی رہے گی اور سجدہ میں جاتا رہے گا اور گناہ کے پاس سے گذرتا رہے گا اس کا گناہ معاف کیا جاتا رہے گا اور وہ (اس کے شکرانہ میں) سجدہ میں گرتا رہے گا؛ پس مخلوقات اس کی کسی حالت (شرمندگی اور خوشی) کو نہیں دیکھیں گے؛ سوائے سجدوں کے؛ حتی کہ مخلوقات ایک دوسرے کوندا کریں گی خوشخبری ہو اس بندے کے لیے جس نے اللہ تعالیٰ کی کبھی نافرمانی نہیں کی؛ کیونکہ ان کواس صورتِ حال کا پتہ نہ چلے گا کہ اس مؤمن کا اس کے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان کیا معاملہ گذرا اور یہ اللہ تعالیٰ کے سامنے رکا رہا ہے۔ (البدورالسافرہ:۸۵۰، بحوالہ زوائد زہد۔ نہایہ ابن کثیر:۲/۲۴۷) فائدہ:علامہ ابن قیم فرماتے ہیں کہ جنت میں مسلمانوں کا داخلہ اللہ تعالی کی رحمت کی وجہ سے ہوگا، جیسا کہ حضورﷺ کا ارشاد ہے: لَنْ يُدْخِلَ أَحَدَكُمْ الْجَنَّةَ عَمَلُهُ کہ تم میں سے کوئی شخص جنت میں اپنے اعمال کی بناء پرداخل نہیں ہوگا۔ (ترمذی:۲۵۴۹۔ مشکوٰۃ:۵۶۴۷۔ ترغیب:۴/۵۳۹) لیکن جنت کے اعلیٰ درجات نیک اعمال کی کثرت کے مطابق عطاء کئے جائیں گے جیسا کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں مروی ہے کہ أَنَّ أَهْلَ الْجَنَّةِ إِذَا دَخَلُوهَا نَزَلُوا فِيهَا بِفَضْلِ أَعْمَالِهِمْ (ترمذی، حدیث نمبر:۲۴۷۲، شاملہ، موقع الإسلام) یعنی جب جنت والے جنت میں داخل ہوں گے تواس میں اپنے اعمالِ صالحہ کے مراتب کے مطابق فائز ہوں گے۔ اللہ کی رحمت پریقین رکھنے والا نوجوان: حکایت:حضرت ابوغالبؒ فرماتے ہیں کہ میں حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ کی خدمت میں ملک شام میں آتا جاتا رہتا تھا ایک دن میں حضرت ابوامامہ کے پڑوسی جوان کے پاس گیا جوبیمار ہورہا تھا اس کے پاس اس کا چچا بھی موجود تھا وہ اس جوان سے کہہ رہا تھا اے خدا کے دشمن! میں نے تمھیں یہ کام کرنے کونہیں کہا تھا؟ میں نے تجھے اس کام سے نہیں روکا تھا؟ تواس نوجوان لڑکے نے کہا: اے چچاجان! اگراللہ تعالیٰ مجھے میری ماں کے سپرد کردیں تووہ میرے ساتھ کیا معاملہ کرے گی؟ چچا نے کہا وہ تجھے جنت میں داخل کردے گی تولڑکے نے کہا: میرا پروردگار اللہ تعالیٰ میری ماں سے زیادہ شفیق اور اس سے زیادہ مجھ پرمہربان ہے بس یہی بات کہتے ہی اس کی جان نکل گئی، جب اس کے چچا نے اس کے کفن دفن کا انتظام کیا اور اس پرنماز جنازہ پڑھ لی اور ارادہ کیا کہ اس کوقبر میں اتارے تومیں بھی سا کے چچا کے ساتھ قبر میں اترا جب اس نے لحد کودرست کیا تواس کی چیخ نکل گئی اور گھبراگیا میں نے اس سے پوچھا تمھیں کیا ہوا اس نے بتایا کہ اس کی قبر بہت وسیع ہوگئی اور نور سے بھرگئی ہے میں اسی سے دہشت زدہ ہوگیا تھا۔ (تذکرۃ القرطبی:۲/۳۵۷) دودوزخیوں پررحمت: حدیث: حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا جولوگ جہنم میں داخل ہوں گے ان میں سے دوشخصوں کی چیخ وپکار بہت بڑھ جائے گی، اللہ تبارک وتعالیٰ حکم فرمائیں گے کہ ان دونوں کودوزخ سے باہر نکالو جب ان کودوزخ سے باہر نکال لیا جائے گاتواللہ تعالیٰ ان دونوں سے پوچھیں گے تمہاری چیخ وپکار کس وجہ سے بڑھ گئی ہے؟ وہ عرض کریں گے ہم نے یہ اس لیے کیا ہے تاکہ آپ ہم پررحم کریں، اللہ تعالیٰ فرمائیں گے میری رحمت تمہارے لیے یہ ہے کہ تم یہاں سے چلے جاؤ اور جہاں پرتم دوزخ میں تھے اپنے آپ کووہیں گرادو تووہ چل پڑیں گے ان میں سے ایک تواپنے آپ کودوزخ میں گرادے گا تواس کے لیے دوزخ ٹھنڈی سلامت بنادی جائے گی اور دوسرا آدمی (دوزخ کے کنارے) کھڑا ہوجائے گا اپنے آپ کو (دوزخ میں) نہیں گرائے گا تواللہ تبارک وتعالیٰ اس سے پوچھیں گے تمھیں کس چیز نے منع کیا تونے اپنے آپ کو کیوں نہیں گرایا، جس طرح سے تیرے ساتھی نے (اپنے آپ کودوزخ میں) گرالیا ہے؟ تووہ عرض کریگا، اے میرے رب! مجھے آپ سے امید نہیں ہے کہ آپ مجھے دوزخ سے نکالنے کے بعد دوبارہ اس میں ڈالدیں گے، تواللہ تعالیٰ فرمائیں گے ہم تیرے ساتھ تیری اُمید کا معاملہ کریں گے؛ چنانچہ یہ دونوں اللہ کی رحمت کی وجہ سے جنت میں داخل ہوجائیں گے۔ (تذکرۃ القرطبی:۲/۳۵۷، بحوالہ ترمذی) ایک اور دوزخی جنت میں: حدیث:حضرت فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ اور حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جناب رسول اللہﷺ نے ارشادفرمایا: جب قیامت کا دن ہوگا اور اللہ تعالیٰ مخلوق کے فیصلہ سے فارغ ہوجائیں گے اور صرف دوآدمی بچ جائیں گے ان کودوزخ میں جانے کا حکم دیا جائے گا تو(کے اللہ تعالیٰ سے رخصت ہوجانے کے بعد) ان میں سے ایک واپس مونہہ موڑ کردیکھے گاتواللہ جبار تبارک وتعالیٰ فرمائیں گے اس کوواپس لاؤ تواس کوواپس لایا جائے گا اور اس سے پوچھا جائے گا تونے واپس مونہہ موڑ کرکیوں دیکھا ہے؟ تووہ عرض کریگا مجھے آپ سے یہ اُمید تھی کہ آپ مجھے جنت میں داخل کریں گے تواس کوجنت میں داخل کرنے کا حکم دیا جائے گا، تووہ (خوشی میں آکر) کہے گا مجھے میرے پروردگار نے اتنا عطاء کیا ہے کہ اگرمیں تمام جنت والوں کی دعوت کروں توجوکچھ میرے پاس (میری جنت میں) ہے اس سے کچھ بھی کم نہ ہو (راویانِ حدیث فضالہؓ اور عبادہؓ) فرماتے ہیں جب حضورﷺ نے اس حدیث کوذکر کیا توآپ کا چہرہ انور خوشی سے دمک اٹھا تھا۔ (تذکرۃ القرطبی:۲/۳۵۸، بحوالہ ابن المبارک۔ مسنداحمد:۵/۳۳۰)