انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** ایک اصولی نکتہ یہ کن لوگوں کا مقام ہے کہ روایت کو درایت پر پرکھیں؟ جن کا قرآنی علم اس کے مبادیات کے ساتھ نہایت اونچا ہو،مختلف اقسام آیات پر مجتہدانہ نظر رکھتے ہوں، تاریخ قرآن سے پورے واقف ہوں اور خدادادفہم کی روشنی میں انہوں نے قرآن پاک سمجھا ہو،ان کے لیے ضروری ہے کہ عربیت اوراسلوب عرب میں ملکہ راسخہ رکھتے ہوں اورصحابہ کرام اور اکابر تابعین کی تفسیرات پر بھی ان کی پوری نگاہ ہو۔درایت محض عقلی توجیہات کانام نہیں،یہ خود ایک فن ہے جس کے اپنے آداب ہیں۔ جہاں تک ہمارے تجربے کا تعلق ہے،اس زمانے میں کوئی ایسا شخص نہیں پایا گیا جو علمی طورپر اس درجے میں ہوکر قرآنی درایت سے روایاتِ حدیث کو پرکھ سکے،اس زمانے میں حدیث کی پرکھ،اس کی اسناد اورامت کے تعامل کی راہ سے ہی ہوسکتی ہے مفتی محمد عبدہ مصری، سرسید احمدخاں،مولوی چراغ علی،علامہ رشید رضا،علامہ مشرقی،تمنا عمادی،اسلم جیراجپوری اور علامہ اقبال میں سے کسی کا یہ علمی مقام نہ تھا؛کہ ائمہ اربعہ کی طرح شان اجتہاد رکھتے ہوں اور روایات حدیث میں قرآنی درایت کی روسے ردا اور قبولا بحث کرسکیں، علامہ اقبال کی کاوش یہی رہی کہ جس طرح بھی بن پڑے مسلمانوں کو اس لائن میں لاکھڑا کریں،جو پہلوں سے چلی آرہی ہے ؎ من کجا نغمہ کجا ساز سخن بہانہ ایست سوئے قطار مے کشم ناقہ بے زمام را (اقبال) تاہم اس سے انکار نہیں کہ اکابر صحابہ اورمجتہدین عظام کے ہاں حدیث کی حفاظت کی ایک یہ صورت بھی کارفرمارہی؛کہ حدیث ہمیشہ قرآن کے تابع رہے اوریہ کہیں قرآن سے ٹکرانہ پائے۔