انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** مسلمانوں پر اچانک حملہ مسلمانوں کا لشکر سہ شنبہ ۱۰شوال کو شام کے وقت حنین پہنچا ، جب یہ لشکر دشمن کے پڑاؤ کے پاس پہنچا تو حضور ﷺ نے صف بندی فرمائی ، پھر ایک دستہ کو دشمن کے مقابلہ کے لئے روانہ کیا ، جوں ہی مسلمانوں کا یہ دستہ آگے بڑھا دشمن کی فوج کے سپاہیوں نے جو پہاڑ ی گھاٹیوں میں چھپے بیٹھے تھے اُن پر تیروں کی بوچھاڑ کر دی، اس اچانک حملہ سے مسلمان سنبھل نہ سکے اور ان میں خلفشار پیداہوگیا، دشمن کے حملہ سے گھبراکر ادھر اُدھر چھٹ گئے، بعض بھاگ بھی نکلے جن کی بددلی پر ابو سفیان نے جو ابھی ابھی مسلمان ہوئے تھے کہا کہ اب ان کی بھگدڑ سمندر سے پہلے نہ رکے گی اور جبلہ یا کلدہ بن جنید نے کہا ! دیکھو آج سحر باطل ہوگیا، کلدہ کی بات صفوان کے کانوں میں پڑی تو اس نے ڈانٹ کر (کلدہ سے) کہا! " تیرے منہ میں آگ پڑے ، بخدا مجھے خود پر ہوازن کی حکومت سے مردِ قریش کی فرمانروائی زیادہ محبوب ہے" (بہ اضافہ : اور صفوان اس وقت تک مسلمان بھی نہ ہوئے تھے) ( اصابہ بن حجر - حیات محمد) حضور ﷺ کا ثبات و قوت ِ عزیمت ابن سعد کا بیان ہے کہ حضور اکرم ﷺ سفید خچر دُلدل پر سوار تھے ، دو زرہیں اور مغفر و خود پہنے ہوئے تھے، پھر ہوازن کے آگے کوئی شئے نظر آئی جس کے مثل تاریکی و کثرت کبھی انھوں نے نہ دیکھی تھی اور صبح کے وقت کی تاریکی میں تھی ، جب مسلمانوں کے لشکر میں افراتفری پیداہوئی تو حضور اکرم ﷺ نے دائیں طرف پکارا … لوگو! میری طرف آؤ ، میں عبداﷲ کا بیٹا محمد ہوں، ابن اسحاق کے بیان کے مطابق اس وقت آپﷺ کے ساتھ نو یا دس مہاجرین و اہلِ خاندان کے سوا کوئی نہ تھا ، اس نازک ساعت میں اتنی شدید بھگدڑ کے باوجود آپﷺ کا رخ کفار کی طرف تھا اور آپﷺ خچر پر آگے بڑھ رہے تھے اور یہ فرمارہے تھے! " اناالنبی لا کذب … انا ابن عبدالمطلب " (ترجمہ) "میں پیغمبر ہوں یہ جھوٹ نہیں ہے میں عبدالمطلب کا بیٹا ہوں"