انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** عباسیوں کی سازش ابوہاشم عبداللہ بن محمد حنفیہ بن علی بن ابی طالب کی سلیمان بن عبدالملک وغیرہ خلفائے بنواُمیہ بہت عزت ومدارت کیا کرتے تھے؛ لیکن بنواُمیہ سے ان کوبھی ہاشمی ہونے کے سبب تعصب تھا اور وہ بدل بنواُمیہ کی حکومت مٹانے اور بنوہاشم کوبرسراقتدار لانے کے خواہاں تھے، ان کی کوشش صرف یہیں تک محدود تھی کہ وہ اپنے معتقدوں اور دوستوں میں جس کواہل پاتے اپنے خیالات سے آگاہ فرمادیتے تھے اور اس قسم کے لوگ ان کوتھوڑے نہیں بہت دستیاب ہوگئے تھے، جوعراق میں بھی تھے اور خراسان وحجاز میں بھی رہتے تھے، محمد بن علی بن عبداللہ بن عباس بن عبدالمطلب بھی بنواُمیہ کی حکومت کے مٹا نے اور بنوعباس کی خلافت قائم کرنے کی فکر میں مصروف تھے، ایک مرتبہ سلیمان بن عبدالملک کے عہد خلافت میں ابوہاشم عبداللہ بن محمد سلیمان بن عبدالملک کے پاس دمشق گئے، وہاں سے واپسی میں وہ مقام حمیمہ علاقہ بلقاء میں محمد بن علی بن عبداللہ بن عباس کے پاس ٹھہرے اتفاقاً وہ وہاں بیمار ہوکر فوت ہوگئے، فوت ہوتے وقت انھوں نے محمد بن علی بن عبداللہ کووصیت کی کہ تم خلافتِ اسلامیہ کے حاصل کرنے کی کوشش کرو، اس وصیت نے محمد بن علی کوبہت فائدہ پہنچایا، یعنی وہ تمام لوگ جوابوہاشم عبداللہ بن محمد کے معتقد وہمراز تھے، محمد علی کے ہاتھ پرآکرمخفی طور پربیعت ہوگئے، اس کے بعد سنہ۱۰۰ھ میں بہ عہد خلافت حضرت عمر بن عبدالعزیز، محمد بن علی عباسی نے اپنےکارندے عراق وخراسان وحجاز ویمن ومصر وغیرہ ممالکِ اسلامیہ کی طرف روانہ کیے، حضرت عمر بن عبدالعزیز نے اگرچہ بنواُمیہ کی نسبت اس عداوت ونفرت کوجواکثر لوگوں کے دلوں میں تھی بہت کم کردیا تھا؛ لیکن پھربھی محمد بن علی کی تحریک باربر مصروف عمل رہی؛ چنانچہ محمد بن کی طرف سے میسرہ عراق میں ابومحمد صادق خراسان میں عباسیوں کی خلافت کے لیے برابر دعوت دیتے رہے، محمد بن علی نے مضافات بلقا میں سکونت اختیا رکرکے وہیں سے اپنی تحریک کوممالکِ اسلامیہ میں شامل کیا، چند روز کے بعد اس نے اپنے بارہ نقیب مقرر کیے، ہرچہار سمت ممالکِ اسلامیہ میں بھیجے ان لوگوں کوہرجگہ کامیابی حاصل ہوئی۔ سنہ۱۰۲ھ اور بہ روایت دیگر سنہ۱۰۴ھ میں ابومحمدصادق خراسانی سے وہاں کے چندلوگوں کو جنھوں نے اس دعوت کوقبول کرلیا تھا ہمارہ لے کر محمد بن علی کے پاس آیا انھیں ایام میں محمد بن علی اپنے اس لڑکے کوجس کی عمر صرف پندرہ یوم تھی لے آیا اور ان لوگوں سے کہا کہ یہی تمہارا سردار ہوگا (یہی لڑکا عبداللہ سفاح تھا) اس کے بعد بکیر بن ماہان جوسندھ میں جنید کے ساتھ تھا وہاں سے کوفہ میں آیا اور ابومحمد صادق سے ملا، اس نے بکیر کودعوت دی اس نے فوراً قبول کرلیا۔ یہ سنہ۱۰۵ھ کا واقعہ ہے سنہ۱۰۷ھ میں بکیر بن ماہان نے جوکوفہ میں محمد بن علی کی جانب سے دعوت عراق وخراسان کا افسرومہتمم تھا، ابوعکرمہ، ابومحمد صادق، محمدخنین عمار عبادی وغیرہ چند شخص کوخراسان کی خلافتِ عباسیہ کی دعوت کے لیے روانہ کیا، خراسان میں اسدقسری گورنر تھا اس کواتفاقاً اس کا علم ہوگیا کہ چند آدمی خلافت عباسیہ کے لیے لوگوں کودعوت دے رہے ہیں، اس نے سب کوگرفتار کراکر قتل کرادیا، صرف ایک شخص عمار بچ کربھاگا اور بکیر بن ماہان کوآکر اطلاع دی، بکیر نے یہ کیفیت محمدبن علی کے پاس لکھ کربھیجی، محمد بن علی نے جواب میں لکھا کہ خدا کا شکر ہے کہ تمہاری کوشش کامیاب ونتیجہ خیز ثابت ہوئی، اب تم خود کواپنے قتل کا بھی منتظر رکھو، سنہ۱۱۸ھ میں بکیر نے عمار بن زید کوہواخواہان بنوعباس کا سردار بناکر خراسان کی جانب روانہ کیا، اس نے وہاں جاکر اپنے آپ کوخراش کے نام سے موسوم کیا، خراش نے ہمدردی بنوعباس کونماز، روزہ پربھی ترجیح دی اور لوگوں سے کہا کہ روزہ نماز سے بڑھ کریہ کام ہے کہ بنوعباس کی خلافت قائم کرنے کے لیے کوشش کرو اور اس معاملہ کورازداری میں رکھ کرافشا ہونے سے بچاؤ، محمد علی نے یہ حالات سن کرخراش کی نسبت ناراضی کا اظہار کیا، گورنرخراسان اسد قسری کوخراش کا حال معلوم ہوا تواس نے گرفتار کراکر اس کوقتل کرادیا، محمد بن علی اہلِ خراسان کی اس ضعیف الاعتقادی سے ناراض ہوگئے تھے؛ لہٰذا خراسان سے بااثرلوگوں کا ایک وفد محمد بن علی کی خدمت میں حاضر ہوا اور اپنی خطاؤں کی معافی چاہی۔ محمد بن علی نے خراسان میں خود نقیب مقرر کرکے روانہ کیے ان کے لیے چند عصا اپنے پاس سے مرحمت کیے جونقیبی اور سرداری کی علامت سمجھے گئے، سنہ۱۲۴ھ میں محمد بن علی بن عبداللہ بن عباس کا بہ حالتِ قید انتقال ہوگیا، مرتے وقت وہ اپنے بیٹے ابراہیم کواپنا جانشین بناگئے اور اپنے نقیبوں اور مریدوں کووصیت کرگئے کہ میرے بعد سب ابراہیم بن محمد بن علی کوامام تسلیم کرکے اس کی اطاعت وفرماں برداری کریں، بکیر بن ماہان ابراہیم بن محمد کی خدمت میں حاضر ہوکر اور ابراہیم بن محمد سے ہدایت لے کرخراسان کی طرف روانہ ہوا کہ وہاں جاکر لوگوں کومحمد بن علی کے فوت ہونے اور ابراہیم بن محمد کے امام مقرر ہونے کی خبرسنانے بکیر بن ماہان نے خراسان جاکر پوشیدہ طور پراپنے ہم خیال لوگوں کوجمع کرکے سب کوحالات سنائے اور ہدایات پہنچائیں، ہواخواہان بنوعباس نے جوکچھ زرنقد ان کے پاس تھا، لالاکر جمع کیا اور بکیر بن ماہان اس روپے کولے کرامام ابراہیم کی خدمت میںحاضر ہوا اسی سنہ۱۲۴ھ میں ابراہیم بن محمد نے ابومسلم کوخراسان کی طرف روانہ کیا، ابومسلم اور امام ابراہیم کے حالات اور اس تحریک کی آ:ندہ حالت آگے کسی دوسرے موقع پربیان کی جائے گی، ہشام بن عبدالملک کی خلافت کے حالات جوقابل تذکرہ تھے، مختصر طور پربیان ہوچکے ہیں، یزید بن عبدالملک کی وصیت کے موافق ہشام کے بعد ولید بن یزید ولی عہد تھا؛ لیکن ہشام کی خواہش تھی کہ ولید کومعزول کرکے اپنے بیٹے کوولی عہد بنائے مگرامرائے سلطنت چونکہ اس پررضامند نہ تھے؛ لہٰذا وہ اپنے ارادے میں کامیاب نہ ہوسکا؛ ٹگرہشام اور ولید کے دلوں میں رنجش ضرور پیدا ہوگئی تھی، آخر ۶/ربیع الثانی سنہ۱۲۵ھ میں ساڑھے انیس سال خلافت کرنے کے بعد ہشام بن عبدالملک نے وفات پائی۔