انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حضرت فضالہ لیثیؓ نام ونسب فضالہ نام، باپ کے نام میں اختلاف ہے،بعض عبداللہ،بعض وہب اور بعض عمیر بتاتے ہیں،عمیر زیادہ مرجح ہے،نسب نامہ یہ ہے،فضالہ بن وہب بن بحرہ بن بحیرہ بن مالک بن عامر یشی اسلام عام مشرکین کی طرح فضالہ بھی آنحضرتﷺ کے جانی دشمن تھے،فتح مکہ کے دن جب آنحضرتﷺ خانۂ کعبہ کا طواف کررہے تھے،فضالہ موقع پاکر قتل کرنے کے ارادہ سے آپ کی طرف بڑھے،قریب پہنچے تو آنحضرتﷺ نے پوچھا فضالہ ہیں؟کہا ہاں یا رسول اللہ! فرمایا ابھی تمہارا دل تم سے کیا باتیں کررہا تھا، کہا کچھ نہیں، اللہ عزوجل کو یاد کررہا تھا،یہ مصنوعی جواب سن کر آنحضرتﷺ ہنس دیئے اور استغفر اللہ کہہ کر ان کے سینہ پر ہاتھ رکھا،اس سے فضالہ کو بڑا سکون قلب محسوس ہوا،ان کا بیان ہے کہ ابھی آپ نے ہاتھ نہ ہٹایا تھا کہ میرا دل آپ کی محبت سے معمور ہوگیا اور تمام مخلوق میں کوئی آپ سے زیادہ محبوب باقی نہ رہا۔ اس سعادت کے بعد گھر لوٹے،راستہ میں ایک عورت جس سے یہ باتیں کیا کرتے تھےملی اس نے معمول کے مطابق انہیں بلایا،مگر انہوں نے انکار کردیا اوریہ اشعار پڑہتے ہوئے آگے بڑھ گئے۔ (سیرت ابن ہشام:۲/۴۶) قالت ھلم الی الحدیث فقلت لا یابی علیک اللہ والا سلام ترجمہ : اس نے کہا آؤ بات چیت کریں،میں نے کہا نہیں خدا اوراسلام نے تیری مخالفت کی ہے۔ لو مارأیت محمداً وقبیلہ بالفتح یوم تکسرالامنام ترجمہ: کاش تو محمد اوران کے ساتھیوں کو فتح کے دن دیکھتی جب وہ بت توڑ رہے تھے۔ لدأیت دین اللہ اضحی بیننا والشرک یغشی وجمہ الاخلام ترجمہ: تو تجھے نظر آتا کہ خدا کا دین ہمارے درمیان روشن ہوگیا اورشرک کے چہرے کو تاریکی نے چھپا لیا۔ اسلام قبول کرنے کے بعد آنحضرتﷺ نے اسلامی فرائض کی تعلیم دی اورہدایت فرمائی کہ نمازِ پنجگانہ پابندی کے ساتھ پڑھا کرو۔ (اسد الغابہ:۴/۱۸۲) فضل وکمال ان سے ان کے لڑکے عبداللہ نے روایت کی ہے،حفاظتِ عصرین کی روایت انہیں سے مروی ہے۔ وفات وفات کا زمانہ غیر متعین ہے۔