انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** ۴۔اسمٰعیل بن ابی خالد احمسیؒ نام ونسب اسمٰعیل نام،ابوعبداللہ کنیت،قبیلہ بجیلہ کی شاخ بنی احمس کے غلام تھے،اسی نسبت سے احمسی کہلاتے ہیں،ابن سعد کی روایت کے مطابق چھ صحابہ کو دیکھا تھا،انس بن مالک ابن ابی اوفی،ابوکاہل،ابو جحیفہ ،عمرو بن حریث اورطارق بن شہاب اورابو نعیم کی روایت کے مطابق بارہ کو۔ (تہذیب التہذیب :۱/۲۹۲) فضل وکمال فضل وکمال کے اعتبار سے کبار تابعین میں تھے،عامر کہتے تھے،انہوں نے علم کو پی لیاہے۔ (ابن سعد:۶/۲۶۰) امام نوویؓ لکھتے ہیں کہ ان کی توثیق وجلالت پر سب کا اتفاق ہے۔ (تہذیب الاسماء:۱/۱۲۱) حدیث حدیث میں ان کا پایہ نہایت بلند تھا،حافظ ذہبی لکھتے ہیں کہ وہ حجت تھے ،متفن تھے، مکثر تھے اورعالم تھے (تہذیب التہذیب:۱/۲۹۱) تمام بڑے بڑے علماء ان کے حفظ حدیث کے معترف تھے،سفیان ثوریؓ کہتے تھے کہ حفاظ ہمارے نزدیک چار ہیں،عبدالملک بن ابی سلیمان ،اسمٰعیل بن ابی خالد، عاصم الاحول اوریحییٰ ابن سعید انصاری۔ امام شعبی کے تمام ساتھیوں میں ابو حاتم ان پر کسی کو ترجیح نہیں دیتے تھے (تہذیب الاسماء:۱۲۱) اپنی صداقت کی وجہ سے میزان کہے جاتے تھے۔ (تہذیب الاسماء:۱۲۱) صحابہ میں انہوں نے اپنے والد ابو خالدؓ اورابو حجیفہؓ،عبداللہؓ بن ابی اوفی ،عمروؓ بن حریث اور ابوکاہلؓ سے سماع کیا تھا اورغیر صحابہ میں زید بن وہب،محمد بن سعد،ابی بکر بن عمارہ قیس بن ابی حازم،اشبیل بن عوف،حارث بن شبیل ،طارق بن شہاب اورشعبی وغیرہ سے۔ ان سے روایت کرنے والوں میں شعبہ دونوں سفیان ،زائدہ،ابن مبارک،ہشیم،یزید بن ہارون اوریحییٰ القطان وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں۔ (تہذیب الاسماء:۱/۱۲۱) ابن مدائنی کے بیان کے مطابق ان کے مرویات کی تعداد تین سو ہے (تہذیب الاسماء:۱/۱۲۱) اورعجلی کے بیان کے مطابق پانسو کے قریب ۔ (تہذیب التہذیب :۱/۲۵۲) عمل کا درجہ علم کے ساتھ عمل کے لباس سے بھی آراستہ تھے،حافظ ذہبی لکھتے ہیں کہ وہ باعمل علماء میں تھے (تذکرۃ الحفاظ:۱/۱۳۸) ابن حبان کا بیان ہے کہ وہ شیخ صالح تھے۔ (تہذیب التہذیب:۱/) کسب حلال علمائے اسلام کا یہ خاص امتیاز رہا ہے کہ انہوں نے علم کو کسب معاش کا ذریعہ نہیں بنایا،اسمٰعیل بھی انہیں علماء میں تھے اورآٹا پیسنے کی چکی چلاکر رزق پیدا کرتے تھے۔ (تذکرہ الحفاظ:۱/۱۳۸) وفات ۱۴۶ھ میں وفات پائی (ابن سعد:۶/۲۴۰)