انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** حضرت نعمان بن بشیرؓ نام ونسب نعمان نام،ابوعبداللہ کنیت ،قبیلۂ خزرج سے ہیں،سلسلۂ نسب یہ ہے، نعمان بن بشیر بن سعد بن ثعلبہ بن خلاس بن زید بن مالک اغربن ثعلبہ بن کعب بن خزرج بن حارث بن الخزرج الاکبر، والدہ کا نام عمرۃ بنت رواحہ تھا،جن کا سلسلۂ نسب مالک اغر پر حضرت نعمانؓ کے آبا سے مل جاتا ہے۔ حضرت نعمانؓ کے والد بشیرؓ بن سعد بڑے رتبہ کے صحابی تھے،عقبۂ ثانیہ میں ۷۰/انصار کے ہمراہ مکہ جاکر بیعت کی تھی بدر، احد اورتمام غزوات میں آنحضرتﷺ کے ہمرکاب تھے،سقیفہ بنی ساعدہ میں سب سے پہلے انہی نے حضرت ابوبکرؓ سے بیعت کی تھی ۱۲ھ میں حضرت خالد بن ولیدؓ کے ہمراہ مسیلمۂ کذاب کے مقابلہ کو نکلے اورواپسی کے وقت عین التمر کے معرکہ میں شہید ہوئے۔ والدہ بھی جو حضرت عبداللہ بنؓ رواحہ مشہور صحابی کی ہمشیر ہ تھیں،آنحضرتﷺ سے بیعت کا شرف حاصل کرچکی تھیں، حضرت نعمانؓ ہجرت کے چودھویں مہینے ربیع الثانی ۲ھ میں اس مقدس گھر میں پیدا ہوئے،ہجرت کے بعد انصار میں یہ سب سے پہلے بچے تھے ان کی ولادت کے چھ ماہ بعد حضرت عبداللہ بنؓ زبیر پیدا ہوئے۔ اسلام کی تاریخ میں ۲ھ کو خاص اہمیت حاصل ہے، آغاز سال ہی سے قریش اوردیگر ہمسایہ قبائل سے چھیڑ چھاڑ شروع ہوئی تھی، جس کا نتیجہ چند ماہ کے بعد غزوۂ بدر کی صورت میں رونما ہوا، اس سال جو لڑکے پیدا ہوئے،سب میں اس انقلاب انگیز زمانہ کا اثر موجود تھا؛چنانچہ نعمانؓ جو بدر کے وقت ۳،۴ مہینے کے تھے اورحضرت عبداللہ بن زبیرؓ کہ اسی سال پیدا ہوئے، اپنے اپنے وقت میں بڑے بڑے انقلابات کے بانی ہوئے۔ عام حالات باپ ماں کو ان سے بڑی محبت تھی، باپ ان کو آنحضرتﷺ کے پاس لاتے اور دعا کراتے تھے،ماں کو اس قدر محبت تھی کہ اپنی باقی اولاد کو محروم کرکے تمام جائداد املاک انہی کے نام منتقل کردینا چاہتی تھیں،ایک روز شوہر کو مجبور کرکے اس پر آمادہ کرلیا اور گواہی کے لئے رسول اللہ ﷺ کو منتخب کیا،حضرت بشیرؓ ان کو آنحضرتﷺ کی خدمت میں لے کر آئے اور عرض کیا کہ آپ گواہ رہیں میں فلاں زمین اپنے اس لڑکے کو دیتا ہوں، فرمایا اس کے دوسرے بھائیوں کو بھی حصہ دیا ہے؟ بولے نہیں ارشاد ہوا تو پھر میں ظلم پر گواہی نہیں دیتا، یہ سن کر بشیر اپنے ارادہ سے باز آئے۔ (مسند:۴/۲۶۸) چلنے پھرنے کے قابل ہوئے تو آنحضرتﷺ کے پاس پہنچے ایک مرتبہ آنحضرتﷺ کے پاس طائف سے انگور آئے،آپ نے ان کو دو خوشے عنایت کئے اور فرمایا کہ ایک تمہارا ہے اورایک تمہاری والدہ کا ،نعمانؓ راستہ میں دونوں خوشے چٹ کر گئے اورماں کو خبر تک نہ کی، چنددنوں کے بعد آنحضرتﷺ نے پوچھا کہ اپنی ماں کو انگور دیدیئے تھے؟ انہوں نے کہا نہیں، آپ نے ان کی گوشمالی کی اور کہا یا غدر! کیوں مکار۔ (استیعاب:۱/۳۱۰) اسی زمانہ سے نماز وغیرہ کی طرف توجہ کی،آنحضرتﷺ کے واقعات دیکھتے تو ان کو یادرکھنے کی کوشش کرتے،منبر کے قریب بیٹھ کر وعظ سنتے (مسند:۴/۲۶۹) ایک مرتبہ انہوں نے دعوے سے کہا کہ آنحضرتﷺ کی رات کی نماز کے متعلق میں اکثر صحابہؓ سے زیادہ واقف ہوں۔ شب قدر کی راتوں میں آنحضرتﷺ کے ہمراہ جاگے تھے اور نمازیں پڑھی تھیں (مسند:۴/۲۷۲) ربیع الاول ۱۱ھ میں آنحضرتﷺ نے وصال فرمایا اس وقت حضرت نعمانؓ کا سن ۸ سال ۷ ماہ کا تھا۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے عہد خلافت میں امیر معاویہؓ سے جنگ چھڑی تو نعمانؓ نے ان ہی کا ساتھ دیا اور یہ عجیب بات تھی کہ انصار میں یہی ایک دو صاحب امیر معاویہؓ کے طرفدار تھے؛چنانچہ نعمانؓ کے متعلق صاف طور پر مذکور ہے کہ وہ حضرت معاویہؓ کو دوست رکھتے تھے؛چنانچہ صاحب اسد الغابہ لکھتے ہیں: وکان ھواہ مع معاویۃ ومیلہ الیہ والی ابنی یزید۔ (اسدالغابہ:۵/۲۳) یعنی وہ معاویہ اور یزید دونوں کی طرف مائل تھے۔ امیر معاویہؓ نے اس کے صلہ میں ان کو جلیل القدر عہدے دیئے،عین التمر میں جناب امیر ؓ کی طرف سے مالک بن کعب ارجی حاکم تھے،امیر معاویہؓ نے ان کو بھیج کر وہاں اسلحہ خانہ پر حملہ کرایا (یعقوبی:۲/۲۲۸) فضالہ بن عبید کے بعد دمشق کا قاضی مقرر کیااور جب یمن پر تسلط ہوا تو عثمان بن ثقفی کے بعد وہاں کا ولی بنایا، اس بنا پر یہ یمن کے (سلطنت بنی امیہ) تیسرے امیر تھے۔ ۵۹ھ میں امیر معاویہؓ نے ان کو کوفہ کا حاکم بنایا اورتقریبا ۹ ماہ تک اس منصب پر مامور رہے ،امیر معاویہؓ کے بعد یزید تخت خلافت پر متمکن ہوا، اس نے حضرت امام حسین ؓ حضرت عبداللہ بن عمرؓ اورحضرت عبداللہ بن زبیرؓ کو بیعت کے لئے مجبور کیا،حضرت امام حسین ؓ نے بیعت سے صاف انکار کیا ادھر کوفہ سے شیعان علی کے خطوط پہنچنے لگے جن میں ان کی خلافت تسلیم کرنے پر بڑی آمادگی کا اظہار تھا،چنانچہ حضرت امام حسینؓ نے حضرت مسلمؓ بن عقیل کو تفتیش حالات کے لئے کوفہ روانہ فرمایا، مسلمؓ کوفہ پہنچے تو شہر کا بڑا حصہ ان کے ساتھ تھا ۱۲، ہزار آدمیوں نے ان کے ہاتھ پر بیعت کی ،حضرت نعمانؓ کو یہ تمام خبریں پہونچ رہی تھیں، لیکن انہوں نے جگر گوشۂ بتول کے معاملہ میں خاموشی ہی کو ترجیح دی۔ لیکن جب مختار بن ابی عبید کے مکان پر شیعیوں کا اجتماع ہوا اور نقضِ بیعت کی تیاریاں ہوئیں تو نعمانؓ نے منبر پر ایک پرزور خطبہ دیا، جو درج ذیل ہے: أما بعد فاتقوا الله عباد الله ولا تسارعوا إلى الفتنة والفرقة فإن فيهما يهلك الرجال وتسفك الدماء وتغضب الأموال وكان حليما ناسكا يحب العافية قال إني لم أقاتل من لم يقاتلني ولا أثب على من لا يثب علي ولا أشاتمكم ولا أتحرش بكم ولا أخذ بالقرف ولا الظنة ولا التهمة ولكنكم إن أبديتم صفحتكم لي ونكثتم بيعتكم وخالفتم إمامكم فوالله الذي لا إله غيره لأضربنكم بسيفي ما ثبت قائمه في يدي ولو لم يكن لي منكم ناصر أما إني أرجو أن يكون من يعرف الحق منكم أكثر ممن يرديه الباطل (تاریخ الطبری،باب ذکر الخبر عن مراسلۃ الکوفیین:۳/۲۷۹، شاملۃ۳۸) لوگو! خدا سے ڈرو اور فتنہ اور اختلاف پیدا کرنے میں جلدی نہ کرو،کیونکہ اس میں آدمی ضائع ہوتے ہیں ،خونریزیاں ہوتی ہیں اور مال غصب کئے جاتے ہیں، جو شخص مجھ سے نہ لڑےگا میں بھی اس سے نہ لڑوں گا نہ تم کو برا کہوں گا نہ آپس میں جنگ وجدل برپا کروں گا نہ سوء ظن اور تہمت میں ماخوذ کروں گا، لیکن اگر تم نے علانیہ میری نافرمانی کی بیعت توڑی اوربادشاہ سے مخالفت شروع کی تو خدا کی قسم جب تک میرے ہاتھ میں تلوار رہے گی تم کو ماروں گا خواہ تم میں کا ایک شخص بھی میری مدد نہ کرے ہاں مجھے امید ہے کہ تم میں باطل کے بہ نسبت حق کے پہچاننے والے زیادہ موجود ہیں۔ عبداللہ بن مسلم حلیف بنی امیہ بھی مجمع میں موجود تھا ،والی حکومت کا یہ تساہل دیکھ کر جوش میں اٹھا اورکہا کہ آپ کی رائے اس معاملہ میں نہایت کمزور ہے،یہ نرمی کا وقت نہیں اس وقت آپ کو دشمن کے مقابلہ میں سخت ہونا چاہیے ،حضرت نعمانؓ نے فرمایا میں خدا کی معصیت میں قوی ہونے سے اس کی اطاعت میں کمزور رہنا زیادہ پسند کرتا ہوں اور جس پردہ کو خدانے لٹکا دیا ہے میں اس کو چاک کرنا مناسب نہیں سمجھتا، عبداللہ نے وہاں سے واپس آکر یزید کو خط لکھا کہ "مسلم نے کوفہ آکر تسلط کرلیا ہے، اگر آپ کو یہاں حکومت کی ضرورت ہے تو کسی قوی شخص کو بھیجئے کہ آپ کے احکام نافذ کرسکے، نعمان بالکل بود ے شخص ہیں یا عمداً کمزور بن رہےہیں، عبداللہ کے ساتھ عمارہ بن عقبہ ،عمر بن سعد بن ابی وقاص نے بھی اسی مضمون کے خطوط روانہ کئے، یزید نے نعمانؓ کے بجائے عبید اللہ بن زیاد کو کوفہ کا حاکم بنایا اور وہ شام چلے گئے (طبری:۷/۲۲۸،۳۸۳۹) یہ ۶۰ھ کا واقعہ ہے۔ اس کے بعد حمص کے امیر مقرر ہوئے اور یزید کی وفات تک اسی عہدہ پر قائم رہے۶۴ھ میں جب معاویہ بن یزید کا انتقال ہوگیا تو حضرت عبداللہ بنؓ زبیر کی بیعت کی اہل شام کو دعوت دی اوران کی طرف سے حمص کے حاکم مقرر ہوئے،بعض روایتوں میں ہے کہ انہوں نے پہلے تو ابن زبیرؓ کی بیعت لی اس کے بعد خود اپنی بیعت (اصابہ:۶/۲۴۰) لینا شروع کردی؛ لیکن یہ روایت قرین قیاس نہیں اگر یہ واقعہ ہوتا تو تاریخ اوررجال میں اس کا تذکرہ ہوتا؛ لیکن اکثر تذکرے اس ذکر سے بالکل ساکت ہیں۔ نعمانؓ کی طرح اور لوگ بھی شام میں ابن زبیرؓ کے طرفدار ہوگئے تھے،مروان نے یہ دیکھ کر شام کا سفر کیا اورایک لشکر فراہم کرکے ضحاک بن قیس کے مقابلہ کو بھیجا، ضحاک ابن زبیر کی طرف سے بعض اضلاع شام کے حاکم تھے، نعمان کو خبر ہوئی، تو شرجیل بن ذوالکلاع کے ماتحت کچھ فوج ضحاک کی مدد کے لئے روانہ کی مرج رہط ایک مقام پر لڑائی پیش آئی جس میں ضحاک کو شکست ہوئی ،نعمانؓ کو معلوم ہوا تو خوف کی وجہ سے رات کو حمص سے کوچ کیا، مروان نے خالد بن عدی الکلاعی کو چند سوار دیکر تعاقب کے لئے بھیجا۔ وفات حمص کے نواح میں بیران ایک گاؤں ہے وہاں سامنا ہوا ،خالد نے نعمانؓ کو قتل کرکے سرکاٹ لیا اور ان کے اہل وعیال کو گرفتار کرکے مروان کے پاس حاضر ہوا ،بیوی اپنے شوہر کے انجام کا تماشہ دیکھ چکی تھی،درخواست کی کہ ان کا سر میری گود میں دیدو، کیونکہ میں اس کی سب سے زیادہ مستحق ہوں، لوگوں نے سر ان کی گود میں ڈال دیا، یہ اوائل ۶۵ھ کا واقعہ ہے اس وقت حضرت نعمانؓ کی عمر ۶۴ سال کی تھی۔ اہل وعیال ان کی بیوی جن کا ابھی ذکر ہوا،خاندان کلب سے تھیں،ان کا عجیب قصہ مشہور ہے،وہ امیر معاویہ کے محل میں تھیں کہ انہوں نے ایک روز یزید کی ماں بسون سے کہا کہ تم اس عورت کو جاکر دیکھو،بسون نے دیکھ کر بیان کیا کہ حسن وجمال کے لحاظ سے اپنا نظیر نہیں رکھتی؛ لیکن اس کی ناف کے نیچے ایک تل ہے، اس لئے یہ اپنے شوہر کا سر اپنی گود میں لے گی؛چنانچہ حبیب بن مسلمہ نے ان سے نکاح کیا اور پھر طلاق دیدی،پھر حضرت نعمانؓ نے نکاح کیا اور قتل ہونے کے بعد جیسا کہ بیسون نے پیشن گوئی کی تھی ان کا سران کی گود میں رکھا گیا۔ (یہ واقعات یعقوبی:۲/۳۰۵،واستیعاب:۱/۳۱۰ سے لئے گئے ہیں) اولاد میں تین لڑکے مشہور ہیں اور وہ یہ ہیں محمد،بشیر،یزید فضل وکمال حضرت نعمانؓ کو حدیث فقہ سے کامل واقفیت تھی اور اگرچہ نظم ونسق ملک، اقامتِ امن اور دوسری ذمہ داریوں اور مصروفیتوں میں ان علوم کی خدمت کا موقع نہ ملا ؛تاہم دارالامارت فقہ وحدیث کا مخزن بن گیا تھا،ہزاروں مقدمات فیصلہ کے لئےپیش ہوتے تھے جن کو انہی علوم کی وساطت سے وہ فیصل کرتے تھے۔ حضرت نعمانؓ اگرچہ عہدِ نبوت میں ہشت سالہ تھے؛ تاہم بہت سی حدیثیں یاد ہوگئی تھیں بعد میں حضرت عمرؓ اورحضرت عائشہؓ کے فیض صحبت سے مستفیض ہوئے اپنے ماموں ابن رواحہؓ سے بھی حدیث سنی تھی۔ اس معاملہ میں اگرچہ نہایت محتاط تھے تاہم ان کی سند سے ۱۲۴ روایتیں منقول ہیں فیصلے کے وقت حدیث کا حوالہ دیتے تھے،ایک مرتبہ ایک مقدمہ پیش ہوا، تو فرمایا کہ میں تیرا فیصلہ اسی طرح کرونگا جس طرح آنحضرتﷺ نے ایک شخص کا فیصلہ کیا تھا۔ (مسند ابن حنبل:۴/۲۷۲) بعض وقت مسائل بھی بتلاتے تھے اوراس کا زیادہ تر خطبوں میں اتفاق ہوتا تھا خطبے مذہبی اورسیاسی دونوں قسم کے ہوتے تھےاور نہایت فصیح وبلیغ ہوتے تھے طرز ادا اورانداز تعبیر پر جو قدرت تھی اس کو سماک بن حرب نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے" میں نے جن لوگوں کے خطبے سنے ان میں نعمانؓ کو سب سے بڑھ کر پایا" (تہذیب التہذیب:۱/۴۴۸) خطبہ میں محل و مقام کے مناسب اعضاء کو حرکت دیتے تھے، ایک مرتبہ کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے تو اس لفظ پر انگلی سے کانوں کی طرف اشارہ کیا۔ (مسند:۴/۲۶۹) آنحضرتﷺ اوراپنے زمانہ کی معاشرت کا نقشہ ان الفاظ میں کھینچا: قَالَ نَبِيُّكُمْ عَلَيْهِ السَّلَام يَشْبَعُ مِنْ الدَّقَلِ وَمَا تَرْضَوْنَ دُونَ أَلْوَانِ التَّمْرِ وَالزُّبْدِ (مسند احمد،باب حدیث النعمان بن بشیر عن النبی،حدیث نمبر:۱۷۶۳۳) تم مختلف اقسام کے چھوہاروں اورمکھن پر بھی راضی نہیں؛ حالانکہ نبی اکرمﷺ ردی چھوہاروں سے بھی سیر نہ ہوئے۔ ایک مرتبہ منبر پر خطبہ دیا اور اس میں جماعت کو رحمت اور تفریق کو عذاب بنا کر پیش کیا تو یہ اثر ہوا کہ ابو امام باہلی اٹھے اور مجمع کو مخاطب کرکے کہا "علیکم بالسواد الاعظم"(ایضا:۱۷۸) تم پر سواداعظم کا اتباع فرض ہے۔ ان مواقع پر جن لوگوں کو حدیثیں سننے کا اتفاق ہوا ان کی تعداد ہزاروں سے متجاوز ہے؛ لیکن وہ لوگ جو تلامذہ خاص کا درجہ رکھتے ہیں حسب ذیل ہیں: شعبی ،حمید بن عبدالرحمن ،خثیمہ ،سماک بن حرب، سالم بن ابی الجعد، ابو اسحٰق،سبیعی، عبدالملک بن عمیر، یسیع کندی ، حبیب بن سالم(نعمانؓ کے میر منشی تھے) (مسند:۴/۲۷۱) عبید اللہ بن عبداللہ بن عتبہ، عروہ بن زبیر، ابو قلابۃ الجرمی، ابو سلام الاسود، غیر از بن حریث ،مفصل بن مہلب بن ابی صفرہ،ازہر بن عبداللہ حزاری،نثر کے ساتھ نظم میں بھی دخل تھا، یہ اشعار انہی کی طرف منسوب ہیں: وإني لأعطي المال من ليس سائلاً وأدرك للمولى المعاند بالظلم وإني متى ما يلقني صارماً له فما بيننا عند الشدائد من صرم فلا تعدد المولى شريكك في الغنى ولكنما المولى شريكك في العدم إذا مت ذو القربى إليك برحمه وغشك واستغنى فليس بذي رحم ومن ذاك للمولى الذي يستخفه أذاك ومن يرمي العدو الذي ترمي (الاستیعاب،باب بن سعد بن ثعلبۃ الانصاری:۱/۴۷۲) اخلاق حضرت نعمانؓ شوروشر،فتنہ وفساد اوردیگر انقلابات میں گھر ے رہنے کے باوجود جبروظلم روا نہیں رکھتے تھے،وہ نہایت نرم دل اور رحیم تھے اور شورش کے مواقع پر سختی کے بجائے لطف وکرم سے کام لیتے تھے،مورخ طبری لکھتے ہیں: کان حلیماً ناسکا یحب العافیۃ وہ برد بار، عابد، اورعافیت پسند تھے مسلمؓ بن عقیل کا واقعہ اوراس کے متعلق حضرت نعمانؓ کا خطبہ اوپر نقل ہوچکا، قیس بن الہثیم کو ایک خط لکھا تو اس میں تحریر فرمایا "تم نہایت بدبخت بھائی ہو، ہم نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا اورآپ سے حدیث سنی،تم نے نہ دیکھا نہ حدیث سنی ،آپ نے فرمایا ہے کہ قیامت کے قریب بہت سے تیرۂ وتار فتنے اٹھیں گے جن میں آدمی صبح کو مسلمان ہوگا تو شام تک کافر ہوجائے گا اورلوگ دنیا کی تھوڑی منفعت کےلئے اپنا مذہب بیچ ڈالیں گے۔ (مسند:۴/۲۷۷) لیکن یہ نرمی طبع ،جبن وبزدلی کا نتیجہ نہ تھی،وہ حلم و تحمل میں جس طرح یکتا تھے شجاعت وبسالت میں بھی نظیر نہیں رکھتے تھے۔ سخاوت کا بھی یہی حال تھا ،حمص کے والی ہوئے تو اعشی ہمدانی پہنچا اورکہا کہ میں نے یزید سے مدد کی درخواست کی ؛لیکن اس نے نہ سنی اب تمہارے پاس آیا ہوں کہ کچھ قرابت کا پاس کرو اورمیرا قرض ادا کرو ،نعمانؓ کے پاس کچھ نہ تھا قسم کھا کر کہا میرے پاس کچھ نہیں،پھر کچھ سوچ کر کہا، "ہنہ" اور منبر پر کھڑے ہوکر ۲۰ ہزار کے مجمع میں ایک خطبہ دیا جس کا مضمون حسب ذیل ہے: لوگو!غشی ہمدانی تمہارے ابن عم ہیں ،مسلمان اور عالی خاندان ہیں ان کو روپیہ کی ضرورت ہے اور تمہارے پاس اسی غرض سے وارد ہوئے ہیں،اب تمہاری کیا رائے ہے، تمام مجمع نے یک زبان ہوکر کہا، جو آپ کا حکم ہو، فرمایا نہیں میں کچھ حکم نہیں دیتا کہا تو فی کس ایک دینا (۵روپیہ) فرمایا نہیں دوشخصوں میں ایک دینار، سب نے منظور کیا تو کہا کہ سردست میں ان کو بیت المال سے دیئے دیتا ہوں جب تنخواہ کا روپیہ برآمد ہوگا تو وضع کرلیا جائے گا،حضرت نعمانؓ نے ۱۰ ہزار دینار (یہ استیعاب کی روایت ہے ،اسد الغابہ میں ۴۰ ہزار دینار لکھا ہے اس حساب سے دو لاکھ روپے ہوئے) (۵۰ ہزار روپیہ) دیئے تو اعشی سراپا شکرو امتنان تھا؛چنانچہ حسب ذیل اشعار مدح میں کہے: لم أر للحاجات عند انكماشها كنعمان الندى ابن بشير حاجتوں کے پیش آنے کے وقت میں نے سخی نعمان بن بشیر کی طرح کسی کو نہیں دیکھا إذا قال أوفى بالمقال ولم يكن كعدل إلى الأقوام حبل غرور جب وہ کچھ کہتے ہیں تو اپنے قول کو ایفا کرتے ہیں اس شخص کی طرح نہیں جو لوگوں کی طرف دھوکے کی ڈوری لٹکاتے ہیں فلولا أخو الأنصار كنت كنازل ثوى ما ثوى لم ينقلب بنقير اگر یہ انصاری نہ ہوتے تو میں اس شخص کی طرح ہوتا جو کہیں اتر ٹھہرے اور کچھ لیکر نہ لوٹے متى أكفر النعمان لم أك شاكراً ولا خير فيمن لم يكن بشكور جب میں نعمان کا کفران کروں تو مجھ میں احسان مندی کا مادہ نہیں کہ شکر گذار نہیں اس میں کوئی بھلائی نہیں۔ (الاستیعاب،باب بن سعد بن ثعلبۃ الانصاری:۱/۴۷۲)