انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا نام ونسب صفیہ نام، عبدالمطلب جدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دختر تھیں ماں کا نام ہالہ بنت وہب تھا، جوحضرت آمنہ (آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ ماجدہ) کی ہمشیر ہیں، اس بناپر حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پھوپھی ہونے کے ساتھ آپ کی خالہ زاد بہن بھی تھیں، حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ عم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی ہالہ سے پیدا ہوئے تھے، اس لیے وہ اور حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا حقیقی بھائی بہن تھے۔ نکاح ابوسفیان بن حرب کے بھائی حارث سے شادی ہوئی، جس سے ایک لڑکا پیدا ہوا، اس کے انتقال کے بعد حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے بھائی عوام بن خویلد سے نکاح ہوا، جس سے حضرت زبیر رضی اللہ عنہ پیدا ہوئے۔ اسلام ۴۰/برس کی عمر ہوئی توآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام پھوپھیوں میں یہ شرف صرف حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کوحاصل ہے کہ انہوں نے اسلام قبول کیا، اسدالغابہ میں ہے وَالصَّحِيْحُ أَنَّهٗ لَمْ يُسَلِّمُ غَيْرهَا (اسدالغابہ:۵/۴۹۲) یعنی صحیح یہ ہے کہ ان کے سوا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی پھوپھی ایمان نہیں لائیں۔ عام حالات حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کے ساتھ ہجرت کی، غزوۂ احد میں جب مسلمانوں نے شکست کھائی تووہ مدینہ سے نکلیں، صحابہ رضی اللہ عنہم سے عتاب آمیز لہجہ میں کہتی تھیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوچھوڑ کرچل دیئے؟ (طبقات:۸/۲۸) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کوآتے ہوئے دیکھا توحضرت زبیر رضی اللہ عنہ کوبلاکر ارشاد فرمایا: کہ حمزہ رضی اللہ عنہ کی لاش نہ دیکھنے پائیں، حضرت زبیر رضی اللہ عنہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام سنایا بولیں کہ میں اپنے بھائی کا ماجرا سن چکی ہوں؛ لیکن خدا کی راہ میں کوئی بڑی قربانی نہیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت دی لاش پرگئیں، خون کا جوش تھا اور عزیز بھائی کے ٹکڑے بکھرے پڑے ہوئے تھے لیکن إِنَّالِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ کہہ کرچپ ہوگئیں (اسدالغابہ:۵/۴۹۲۔ اصابہ:۸/۱۲۹) اور مغفرت کی دعا مانگی، واقعہ چونکہ نہایت دردانگیز تھا، اس لیے ایک مرثیہ کہا، جس کے ایک شعر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کواس طرح مخاطب کرتی ہیں ؎ إِنَّ يَوْماً أتَى عَلَيْکَ لِيَومٌ كوَّرتْ شمسُهُ وكان مُضِيّا ترجمہ:آج آپ پروہ دن آیا ہے جس میں آفتاب سیاہ ہوگیا ہے؛ حالانکہ پہلے وہ روشن تھا غزوۂ احد کی طرح غزوۂ خندق میں بھی انہوں نے نہایت ہمت اور استقلال کا ثبوت دیا، انصار کے قلعوں میں فارع سب سے مستحکم قلعہ تھا اور حضرت حسان رضی اللہ عنہ کا تھا، یہ قلعہ یہود بنوقریظہ کے آبادی سے متصل تھا، مستورات اسی میں تھیں اور ان کی حفاظت کے لیے حضرت حسان رضی اللہ عنہ (شاعر) متعین کردیئے گئے تھے، یہود نے یہ دیکھ کرکہ تمام جمعیت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہے، قلعہ پرحملہ کردیا، ایک یہودی قلعہ کے پھاٹک تک پہنچ گیا اور قلعہ پرحملہ کرنے کا موقع ڈھونڈرہا تھا، حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا نے دیکھ لیا، حسان رضی اللہ عنہ سے کہا کہ اترکر قتل کردو؛ ورنہ یہ جاکر دشمنوں کوپتہ دیگا، حضرت حسان رضی اللہ عنہ کوایک عارضہ ہوگیا تھا، جس میں ان میں اس قدر جبن پیدا کردیا تھا کہ وہ لڑائی کے طرف نظر اٹھا کربھی نہیں دیکھ سکتے تھے اس بناپر اپنی معذوری ظاہر کی اور کہا کہ میں اس کام کاہوتا تویہاں کیوں ہوتا؟ حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا نے خیمہ کی ایک چوب اکھاڑلی اور اترکریہودی کے سرپراس زور سے ماری کہ سرپھٹ گیا، حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا چلی آئیں اور حسان رضی اللہ عنہ سے کہا کہ ہتھیار اورکپڑے چھین لاؤ، حسان رضی اللہ عنہ نے کہا جانے دیجئے، حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا نے کہا اچھا جاؤ اس کا سرکاٹ کرقلعہ کے نیچے پھینک دوتاکہ یہودی مرعوب ہوجائیں؛ لیکن یہ خدمت بھی حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا ہی کو انجام دینی پڑی، یہودیوں کویقین ہوا کہ قلعہ میں بھی کچھ فوج متعین ہے، اس خیال سے پھرانہوں نے حملہ کی جرأت نہ کی۔ (طبقات ابن سعد:۸/۲۷،۲۸۔ اسدالغابہ:۵/۴۹۳) سنہ۱۱ھ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انتقال فرمایا، حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کوجوصدمہ ہوا ہوگا ظاہر ہے، نہایت پردردمرثیہ لکھا، جس کا مطلع یہ ہے ؎ لفقد رَسُوْل الله إِذْحَانَ يَوْمِهِ فَيَا عَيْنَ جُوْدِيِّ بِالدَّمُوْعِ السواجم ترجمہ:آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پراے آنکھ خوب آنسو بہا۔ یہ مرثیہ ابنِ اسحاق نے اپنی سیرت میں نقل کیا ہے۔ (اصابہ:۸/۱۱۹) وفات حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا نے سنہ۲۰ھ میں وفات پائی اور بقیع میں دفن ہوئیں، اس وقت تہتر برس کا سن تھا۔ فضل وکمال حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا نے بقول صاحب اصابہ کچھ حدیثیں بھی روایت کی ہیں؛ لیکن ہماری نظر سے نہیں گذریں اور نہ مسند میں ان کی حدیثوں کا پتہ چلتا ہے۔ (اصابہ:۸/۱۲۸)