انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** علی اکبرکی شہادت جب سارے فدایانِ اہل بیت ایک ایک کرکے جامِ شہادت پی چکے اور نونہالان اہل بیت کے علاوہ اور کوئی جان نثار باقی نہ رہا تو اہل بیت کرام کی باری آئی اور سب سے اول ریاضِ امامت کے گل تر خاندانِ نبویﷺ کے تابندہ اختر علی اکبرؓ میدان میں آئے اور تلوار چمکاتے اوریہ رجز انا علی بن حسین بن علی ورب البیت ولی بالبنی میں حسینؓ ابن علیؓ کا بیٹا علی ہوں خانہ کعبہ کے رب کی قسم ہم نبی کے قرب کے زیادہ حقدار ہیں تاللہ لا یحکم فینا ابن الدعی خداکی قسم نامعلوم باپ کا بیٹا ہم پر حکومت نہیں کرسکے گا۔ پڑہتے ہوئے بڑھے، آپ رجز پڑھ پڑھ کر حملہ کرتے تھے اوربجلی کی طرح کوند کر نکل جاتے تھے، مرہ بن منقذ تمیمی آپ کی یہ برق رفتاری دیکھ کر بولا، اگر علی اکبرؓ میری طرف سے گذریں تو حسینؓ کو بے لڑکے کا بنادوں، علی اکبرؓ ابھی کم سن تھے، جنگ وجدال کا تجربہ نہ تھا مرہ کا طنز سن کر سیدھے اس کی طرف بڑھے مرہ ایک جہاندیدہ اورآزمودہ کار تھا جیسے ہی علی اکبرؓ اس کے پاس پہنچے ،اس نے تاک کر ایسا نیزہ مارا کہ جسم اطہر میں پیوست ہوگیا،نیزہ لگتے ہی شامی ہر طرف سے ٹوٹ پڑے اوراس گلبدن کے جسم کو جس نے پھولوں کی سیج پر پرورش پائی تھی ٹکڑے اڑادئے، ان کی جان نثار پھوپھی جنہوں نے بڑے نازوں سے ان کو پالا تھا،خیمہ کے روزن سے یہ قیامت خیز نظارہ دیکھ رہی تھیں، چہیتے بھتیجے کو خاک وخون میں تڑپتا دیکھ کر بے تاب ہوگئیں یا رائے ضبط باقی نہ رہا اوریا ابن خاہ کہتی ہوئی خیمہ سے باہر نکل آئیں اور بھتیجے کی لاش کے ٹکڑوں پر گرپڑیں، ستم رسیدہ بھائی حسینؓ نے دکھیاری بہن کا ہاتھ پکڑ کر خیمہ کے اندر کیا کہ ابھی وہ زندہ تھے اور مخدرات عصمت مآب پر غیر محرموں کی نظر پڑنے کا وقت نہیں آیا تھا بہن کو خیمے میں پہنچانے کے بعد علی اکبر کی لاش اوراپنے قلب وجگر کے ٹکڑوں کو بھائیوں کی مدد سے اٹھواکر لائے اورخیمہ کے سامنے لٹادیا۔ (ابن اثٰر:۴/۳۵۷) یہ بھی عجیب بے کسی کا عالم تھا، تمام اعزہ واقربا شہید ہوچکے ہیں،ایک طرف جانثاروں کی تڑپتی ہوئی لاشیں ہیں دوسری طرف جوان مرگ بیٹے علی اکبرؓ کا پاش پاش بدن ہے تیسری طرف زینب خستہ حال پر غش طاری ہے،اس بے کسی کے عالم میں کبھی علی اکبرؓ کی لاش کو دیکھتے ہیں اور کبھی آسمان کی طرف نظر اٹھاتے ہیں کہ آج تیرے ایک وفادار بندہ نے تیری راہ میں سب سے بڑی نذر پیش کر کے سنت ابراہیمی پوری کی ہے، تو اسے قبول فرما لیکن اس وقت بھی زبان پر صبر وشکر کے علاوہ حرف شکایت نہیں آتا کہ من ازیں درد گرانما یہ چہ لذت یابم کہ بہ اندازۂ آن صبروثباتم دادند