انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** جہنم کہاں واقع ہے؟ جہنم کہاں ہے حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں جنت ساتویں آسمان پر ہے اللہ تعالی روز قیامت جہاں چاہیں گے سامنے لائیں گے۔ (ابونعیم) حضرت مجاہد فرماتے ہیں میں نے حضرت ابن عباسؓ سے عرض کیا جنت کہاں ہے؟فرمایا سات آسمانون کے اوپر، میں نے عرض کیا اور جہنم کہاں ہے؟ تو فرمایا سات تہ بتہ سمندروں کے نیچے۔ (ابن مندہ) (فائدہ)جب اللہ تعالی کو قیامت برپا کرنا منظور ہوگی تو یہ ساتوں سمندر خشک ہوجائیں گے اورجہنم ظاہر کردی جائے گی۔ حضرت ابن مسعودؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا جنت ساتویں آسمان کے اوپر ہے اور جہنم نچلی ساتویں زمین پر ہے پھر انہوں نے یہ آیات پڑھیں۔ کَلَّا إِنَّ كِتَابَ الْأَبْرَارِ لَفِي عِلِّيِّينَ (المطففین:۱۸) کَلَّا إِنَّ كِتَابَ الْفُجَّارِ لَفِي سِجِّينٍ (المطففین:۷) (ترجمہ)بلاشبہ نیک لوگوں کا نامہ اعمال علیین میں رہے گا،بدکار(یعنی کافر)لوگوں کا نامہ اعمال سجین میں رہے گا۔ (بیہقی باسناد ضعیف) حضرت ابن مسعودؓ کے اس قول کو ابن مندہ نے بھی روایت کیا ہے اوراس میں یہ بھی ہے کہ جب قیامت کا دن ہوگا تو اللہ تعالی جہاں چاہیں گے اسے لے آئیں گے۔ (ابن مندہ) (فائدہ)حضرت ابن مسعودؓ نے مذکورہ پہلی آیت سے جنت کے ساتویں آسمان پر ہونے کااستدلال کیا ہے اوردوسری آیت سے دوزخ کے ساتویں زمین پر ہونے کا استدلال کیا ہے۔ حضرت عبداللہ بن سلام فرماتے ہیں کہ جنت آسمان میں ہے اورجہنم (ساتویں)زمین میں ہے (ابن خزیمہ ابن ابی الدنیا) حضرت قتادہؒ فرماتے ہیں کہ صحابہ فرمایا کرتے تھے کہ جنت ساتوں آسمانوں میں ہے اورجہنم ساتوں زمینوں میں ہے۔ (ابن ابی الدنیا) (فائدہ)یعنی جب حساب کتاب ہوچکے گا اورلوگ جنت دوزخ میں چلے جائیں گے تو ان ساتوں زمینوں کی جگہ دوزخ ہوگی اورساتوں آسمانوں کی جگہ سنت ہوگی (واللہ اعلم) حضرت ابن ابی نجیح حضرت مجاہدؒ سے ذیل کی آیت کی تفسیر میں نقل فرماتے ہیں۔ وَفِي السَّمَاءِ رِزْقُكُمْ وَمَا تُوعَدُونَ (الذاریات:۲۲) (ترجمہ)اورتمہارا رزق اورجو تم سے وعدہ کیا گیا آسمان میں ہے اس سے معلوم ہوا کہ جنت آسمان میں ہے۔ بعض علماء نے یہ استدلال کیا ہے کہ کفار کو جو صبح شام عالم برزخ میں عذاب پر پیش کیا جاتا ہے وہ زمین میں کیا جاتا ہے کیونکہ آسمان کے دروازے ان کے لئے نہیں کھولے جاتے پس اس سے بھی معلوم ہوا کہ جہنم زمین پر ہے۔ (حدیث)حضرت براء بن عازب ؓ نبی اکرم ﷺ سے روح قبض کرنے کی روایت میں فرماتے ہیں کہ آپ ﷺنے کافر کی روح کے متعلق فرمایا: حتی ینتھو ابھا الی السماء الدنیا فیستفتحون فلا یفتح لہ ثم قرارسول اللہﷺلَا تُفَتَّحُ لَهُمْ أَبْوَابُ السَّمَاءِ وَلَا يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ حَتَّى يَلِجَ الْجَمَلُ فِي سَمِّ الْخِيَاطِ(الاعراف:۴۰)قال :یقول اللہ تعالی: اكْتُبُوا كِتَابَهُ فِي سِجِّينٍ فِي الْأَرْضِ السُّفْلَى فَتُطْرَحُ رُوحُهُ طَرْحًا (مسند احمدوغیرہ) (ترجمہ)کافر کی روح نکالنے کے بعد اسے فرشتے پہلے آسمان کے پاس لے جاتےہیں اور دروازہ کھولنے کو کہتے ہیں تو اس کے لئے دروازہ نہیں کھولا جاتا، پھر آپ ﷺ نے یہ آیت پڑھی(ترجمہ)ان کے لئے آسمان کے دروازے نہیں کھولے جائیں گے اورنہ ہی وہ جنت میں داخل ہوں گے یہاں تک کہ اونٹ سوئی کے ناکے میں گھس جائے،پھر حضورﷺ نے فرمایا،اللہ تعالی فرماتے ہیں اس کافر کو نچلی زمین میں سجین میں اس کی سزا میں لکھ دو، حضورﷺ فرماتے ہیں تو اس کی روح کو وہیں سے (سجین کی طرف) پھینک دیا جاتا ہے۔ (فائدہ)جن حضرات نے سجین کو دوزخ میں شمار کیا ہے وہ اس حدیث سے بھی استدلال کے طور پر یہ کہتے ہیں کہ دوزخ ساتوں زمین میں ہے۔ (حدیث)حضرت ابوہریرہؓ روح قبض کرنے کی حالت کو نبی ﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: فتخرج کانتن ریح جیفۃ فینطلقون بہ الی باب الارض فیقولون:مانتن ھذہ الریح کلمااتواعلی ارض قالو اذلک حتی یاتو ابہ الی ارواح الکفار (ابن حبان،حاکم وغیرہ) پس کافر کی روح سڑے ہوئے مردار سے زیادہ بدبودار حالت میں جسم سے نکلتی ہے جسے وہ فرشتے(پہلی)زمین کے دروازے پر لے جاتے ہیں تو(وہاں پر موجود فرشتے)کہتے ہیں اس کی ہوا کتنی زیادہ بدبودار ہے جب بھی(اس سے نیچے کی)زمین پر لے جاتے ہیں(وہاں کے)فرشتے یہی کہتے ہیں یہاں تک کہ اس کو ارواح کفار کے پاس چھوڑدیتے ہیں۔ (فائدہ)اس روایت کی تشریح مذکورہ فائدہ کی طرح ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمر بن العاصؓ فرماتے ہیں کفار کی روحیں ساتو یں زمین میں ہیں۔ (خلاصہ)ان سب احادیث اورصحابہ تابعین ومفسرین کے اقوال سے یہ بات ثابت ہوئی کہ جہنم ساتویں زمین میں ہے (امداد اللہ)