انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** تیسرا الزام (۳)تیسرا الزام حضرت علیؓ پرسب وشتم کا ہے،لیکن یہ الزام تنہا امیر معاویہؓ پر عائد نہیں ہوتا، حضرت علیؓ اپنی تحریروں اور تقریروں میں سخت سے سخت الفاظ اُن کے لئے استعمال کرتے تھے، آج بھی آپ کے خطبات اس کے شاہد عادل ہیں، حضرت علیؓ تو خیران سے بلند و برتر تھے،ان کے منہ پر یہ باتیں زیب بھی دیتی تھیں، لیکن وہ حامیانِ علیؓ بھی جو معاویہ کی خاک کے برابر بھی نہ تھے، کوئی بدکلامی امیر کی شان میں اٹھانہ رکھتے تھے اورحقیقت یہ ہے کہ وہ مقابل کے حریفوں میں ایک کی بد گوئی کا الزام دوسرے پر رکھنا فطرت انسانی سے جہل کا ثبوت ہے،یہ تقاضائے فطرت ہے کہ جب دو آدمیوں کا اختلاف دشمنی کی حد تک پہنچ جاتا ہے،تو دونوں اخلاقی حدود کو توڑ کر، ادنی ادنی باتوں پر اتر آتے ہیں اس لئے امیر معاویہؓ یا حضرت علیؓ پر ایک دوسرے کے سب وشتم کا الزام رکھنا فطرت انسانی پر الزام ہے،غالباً ناظرین کو یہ معلوم کرکے حیرت ہوگی کہ امیر معاویہ حضرت علیؓ کے مقابلہ میں جنگ آزما ہونے کے بعد بھی ان کے تمام فضائل کے معترف تھے اورانہوں نے بارہا اوربرملا ان کا اعتراف کیا،جنگ صفین کی تیاریوں کے وقت جب ابو مسلم خولانی ان کو سمجھانے کے لئے گئے اور کہا معاویہ میں نے سنا ہے کہ تم علی سے جنگ کا ارادہ رکھتے ہو، تم کو سبقت اسلام کا شرف حاصل نہیں ہے،پھر کس برتے پر اٹھو گے تو انہوں نے صاف صاف اعتراف کیا کہ مجھے اس کا دعویٰ نہیں ہے کہ میں فضل میں ان کے مثل ہوں، میں تو صرف قاتلین عثمانؓ کو مانگتا ہوں، اپنی وفات کے کچھ دنوں پہلے انہوں نے مجمع عام میں جو تقریر کی تھی، اس کے الفاظ یہ تھے کہ میرے بعد آنے والا مجھ سے بہتر نہیں ہوگا، جیسا کہ میں اپنے پیش رو سے بہتر نہیں ہوں۔ (ابن الاثیر:۴/۲،مطبوعہ یورپ) وہ نہ صرف حضرت علیؓ ؛بلکہ خاندانی بنی ہاشم کے شرف و فضیلت کے معترف تھے،ایک مرتبہ ان سے پوچھا گیا کہ بنی امیہ اشرف ہیں یا بنی ہاشم، انہوں نے زمانہ جاہلیت کی پوری تاریخ دہرا کر دونوں کی فضیلت کا اعتراف کیا اورآخر میں کہا کہ نبی ﷺ کی بعثت کے بعد بنی ہاشم کی فضیلت کو کون پہنچ سکتا ہے۔ (البدایہ والنہایہ:۸/۱۳۸)