انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** فرانس پر حملہ سلطان حکم کو تخت نشین ہوئے قریباً بیس سا ل ہوگئے تھے اس بیس سال کے عرصے میں اس کو مسلسل ملک کی اندرونی بغاوتوں اور عیسائیوں کے بیرونی حملوں کا مقابلہ کرنا پڑا زیادہ وقت اس کا بغاوتوں ہی کے فرو کرنے میں صرف ہوا عیسائیوں پر حملہ آور ہونے کی فرصت ومہلت نہ پاسکا اب بظاہر ملک میں خاموشی دیکھ کر حکم نے ایک جرار فوج تیار کی اور اپنے حاجب عبدالواحد کی سرداری میں شمالی سمت کو عیسائیوں کے مقابلے کے لیے روانہ کی حاجب عبدالکریم نے ریاست ایسٹریاس سے صرف اظہار فرماں برداری ہی کو غنیمت سمجھا اور سیدھا ملک فرانس میں جبل البرتات کے اس طرف پہنچ کر قتل وغارت اور فتوحات میں مصروف ہوا یہ مہم ۲۰۰ھ میں ملک فرانس کی طرف روانہ ہوئی تھی۲۰۳ھ تک عبدالکریم ملک فرانس تک جنگ وپیکار کے سلسلے کو جاری رکھا سلطان حکم اور اس کے سپہ سالار وں کی یہ غلطی تھی کہ وہ صرف شارلیمین کی سلطنت کو اپنا حریف سمجھتے اور اسی کے حدود حکومت میں پہنچ کر وہاں کے شہروں کو فتح کرتے تھے۔ گاتھک مارچ کی ریاست جوجبل البرتات سے اس کی جنوبی ومغربی میدانوں تک وسیع ہوچکی تھی اس کے کے لیے ان کے لیے ناقابل التفات تھی،ان ریاستوں کو نہ انھوں نے مٹانا چاہا نہ ان کے رقبہ کو کم کرنا ضروری سمجھا وہ صرف اس بات کو کافی سمجھتے تھے کہ عیسائی ریاستیں ہماری فرماں بردار ی کا اقرار کرتی رہیں اور وہاں کے عیسائی آبادی پر خود ہی حکومت کریں ،فرانس کے ملک پر وہ اس لیے حملہ آور ہوتے تھے کہ اگر فرانس کی سلطنت کو مٹادیاگیا توخطرہ باقی نہ رہےگا اور یہ پہاڑی عیسائی ریاستیں شاہ فرانس سے مل کر اوراس کی سازش میں شریک ہوکر ہمارے لیے مشکلات پیدا کرنے کا موقع نہ پاسکیں لیکن سلطانحکم ان دونوں سرحدی ریاستوں کو بالکل مٹاکر جبل البرتات پر اپنی زبردست فوجی چوکیاں قائم کردیتا تو آئندہ کے لیے ملک اندلس خطرات سے محفوظ رہ سکتا اورممکن تھا کہ کسی وقت ملک فرانس اور یورپ کے دوسرے ممالک بھی مستقل طور پر سملان فتح کریتے ان پہاڑی سرحدی ریاستوں نے اندلس کے اسلامی سلطنت کو جونقصان پہنچانئے اس کا تفصیلی تذکرہ آئندہ آنے والا ہے۔ سلطان حکم ہی کی عہد حکومت میں ایسٹریاس کے ایک پادری نے ریاست ایسٹریاس اور صوبہ جلیقیہ کی سرحد کے ایک جنگل میں بتایا کہ یہاں سینٹ جیمس رسول کی قبر ہے اور مجھ کو خواب میں فرشتے نے اس قبر کا پتہ بتایا ہے؛چنانچہ وہاں حاکم ایسٹریاس نے ایکگرجا تعمیر کرادیا گرجا نہ صرف ایسٹریاس اور صوبہ جلیقیہ کے عیسائیوں کی زیارت گاہ بنا بلکہ یورپ کے دور دراز مقامات تک اس کی شہرت ہوگئی اور عیسائی لوگ جوق درجوق آنےلگےرفتہ رفتہ یہاں آبادی قائم ہوئی اور تھوڑے ہی دنوں کے بعد ریاست ایسٹریاس کا حاکم نشین شہر اور دارلسلطنت بن گیا اور اپنے محل وقوع کے اعتبار سے تمام صوبہ جلیقیہ کو بھی قدرتاً اپنے ہی زیر اثر لےآیا۔ سپہ سالار عبدالکریم کئی سال کے بعد ۲۰۳ھ میں سالماً غانماً ملک فرانس سے واپس ہوااور یہ مہم بڑی کامیاب سمجھی گئی کہ فرانسیسیوں کو ان کے گستاخیوں کی اچھی طری سزادی گئی،مگر افسوس ہے کہ اس طرف مطلق توجہ نہ ہوئی کہ ریاست گاتھک مارچ اورایسٹریاس کا نام ونشان مٹایاجاتا بلکہ اندونوں عیسائی ریاستوں کے وجود کو بہت ہی غنیمت سمجھاگیا کہ ان کے ذریعےباقاعدہ حکومت اس علاقہ میں قائم ہے جہاں مسلمان جانا اور رہنا پسند نہیں کرتے تھے،ملک فرانس میں رہنے کے لیے بھی کوئی عرب سردار رضامند نہ تھا اور اسی خیال سے مسلمانوں نے بار بار فرانس کوفتح کیا مگر اس کی قدر وقینت اس کی سرد آب وہوا کے سبب کچھ نہ سمجھی وہاں سے مال غنیمت کے حاصل ہونے اور وہاں کے رئیسوں سے خراج وصول کرلینے ہی کو کافی سمجھتے رہے ،ہر ایک عربی نزاد سردار جب ناربون ،جلیقیہ اور جبل البرتات کے متصلہ سرد علاقے میں عامل مقرر کرکے بھیجاجاتا تو وہ کبیدہ خاطر ہوتا اور جنوبی گرم ومعتدل میدانی علاقوں میں رہنے اور جنوبی شہروں کا عامل مقرر ہونے کو اپنی خوش نصیبی جانتا۔