انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حضرت اسماء بنتِ عمیس رضی اللہ عنہا نام ونسب اسماء نام، قبیلہ خثعم سے تھیں، سلسلہ نسب یہ ہے، اسماء بنت عمیس بن معد بن حارث بن تمیم بن کعب بن مالک بن قحافہ بن عامر بن ربیعہ بن عامر بن معاویہ بن زید بن مالک ابن بشیر بن وہب اللہ ابن صہران بن عفرس بن خلف بن اقبل (خثعم) ماں کا نام ہند (خولۃ) بنت عوف تھا اور قبیلہ کنانہ سے تھیں، اس بناپرحضرت میمونہ رضی اللہ عنہا (ام المؤمنین) اور اسماء رضی اللہ عنہا اخیافی بہنیں تھیں۔ نکاح حضرت جعفر رضی اللہ عنہ سے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بھائی تھے (اور دس برس بڑے تھے) نکاح ہوا۔ اسلام آنحضرت صلی اللہ علیہ سلم کے خانۂ ارقم میں مقیم ہونے سے قبل مسلمان ہوئیں، حضرت جعفر رضی اللہ عنہ نے بھی اسی زمانہ میں اسلام قبول کیا تھا۔ (سیرت ابن ہشام:۱/۱۳۶) عام حالات حبشہ کی ہجرت کی اور کئی سال تک مقیم رہیں، سنہ۷ھ میں جب خیبر فتح ہوا تومدینہ آئیں، حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے گھر گئیں توحضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی آگئے، پوچھا یہ کون ہیں جواب ملا اسماء! بولے، ہاں وہ حبش والی وہ سمندر والی، حضرت اسماء رضی اللہ عنہا نے کہا: ہاں وہی، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: ہم کوتم پرفضیلت ہے، اس لیے کہ ہم مہاجر ہیں، حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کو یہ فقرہ سنکر غصہ آیا، بولیں کبھی نہیں! تم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھوکوں کوکھلاتے اور جاہلوں کوپڑھاتے تھے؛ لیکن ہماری حالت بالکل جداگانہ تھی، ہم نہایت دور دراز مقام میں صرف اللہ اور رسول کی خوشنودی کے لیے پڑے رہے اور بڑی بڑی تکلیفیں اُٹھائیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مکان تشریف لائے توانہوں نے سارا قصہ بیان کیا، ارشاد ہوا انہوں نے ایک ہجرت کی اور تم نے دوہجرتیں کیں، اس لیے تم کوزیادہ فضیلت ہے، حضرت اسماء رضی اللہ عنہا اور دوسرے مہاجرین کواس سے اس درجہ مسرت ہوئی کہ دنیا کی تمام فضیلتیں ہیچ معلوم ہوتی تھیں، مہاجرین حبشہ جوق درجوق حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کے پاس آتے اور یہ واقعہ دریافت کرتے تھے۔ (بخاری:۲/۶۰۷،۶۰۸) سنہ۸ھ غزوۂ موتہ میں حضرت جعفر رضی اللہ عنہ نے شہادت پائی، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوخبر ہوئی (حضرت اسماء رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی دیکھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم آبدیدہ تھے میں نے عرض کیا کہ یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) آپ غمگین کیوں ہیں؟ کیا جعفر رضی اللہ عنہ کے متعلق کوئی اطلاع آئی ہے، حضور نے ارشاد فرمایا کہ ہاں وہ لوگ شہید ہوگئے ہیں، بچوں کونہلادھلاکر ہمر اہ لے گئی تھی، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بچوں کواپنے پاس بلایا اور میں چیخ اٹھی) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے (اہلِ بیت کے پاس تشریف لے گئے) اور فرمایا، جعفر رضی اللہ عنہ کے بچوں کے لیے کھانا پکاؤ؛ کیونکہ وہ رنج وغم میں مصروف ہیں۔ (مسند:۶/۳۷۰) اس کے بعد مسجد میں جاکر غم زدہ بیٹھے اور اس خبر کا اعلان کیا؛ اسی حالت میں ایک شخص نے آکر کہا کہ جعفر رضی اللہ عنہ کی مستورات ماتم کررہی ہیں اور رورہی ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کومنع کرابھیجا، وہ گئے اور واپس آکر کہا کہ میں نے منع کیا؛ لیکن وہ باز نہیں آتیں، آپ نے دوبارہ بھیجا وہ پھرگئے اور واپس آکر کہا کہ میں نے منع کیا لیکن وہ باز نہیں آتیں، آپ نے دوبارہ بھیجا وہ پھرگئے اور واپس آکر عرض کی کہ ہم لوگوں کی نہیں چلتی، آپ نے ارشاد فرمایا توان کے منہ میں خاک بھردو، یہ واقعہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے صحیح بخاری میں منقول ہے، صحیح بخاری میں یہ بھی ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اس شخص سے کہا کہ خدا کی قسم تم یہ نہ کروگے (منہ میں خاک ڈالنا) توآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوتکلیف سے نجات نہ ملے گی۔ (بخاری:۲/۶۱۱) تیسرے دن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت اسماء کے گھر تشریف لائے اور سوگ کی ممانعت کی (جس عورت کے شوہر کا انتقال ہوجائے اس کو چارماہ دس دن سوگ کرنا چاہیے، مسئلہ یہی ہے حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کی اس روایت سے شبہ میں نہ پڑنا چاہیے، اس لیے کہ یہ روایت تمام صحیح احادیث کے خلاف ہے اور شاذ ہے اور اجماع اس کے مخالفامام طحاوی کے نزدیک یہ روایت منسوخ ہے اور امام بیہقی کے نزدیک منقطع ہے، ملاحظہ ہوفتح الباری:۹/۴۲۹، ان کے سوا اور بہت سے جوابات ہیں جن کی تفصیل کا یہاں موقع نہیں ہے) تقریباً چھ مہینے کے بعد شوال سنہ۸ھ میں جوغزوۂ حنین کا زمانہ تھا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے ان کا نکاح پڑھادیا (اصابہ:۸/۹) جس کے دوبرس بعد ذوقعدہ سنہ۱۰ھ میں محمد بن ابوبکر رضی اللہ عنہ پیدا ہوئے، اس وقت حضرت اسماء رضی اللہ عنہا حج کی غرض سے مکہ آئی تھیں؛ چونکہ محمدذوالحلیفہ میں پیدا ہوئے تھے، حضرت اسماء رضی اللہ عنہا نے دریافت کرایا کہ میں کیا کروں؟ ارشاد ہوا نہاکر احرام باندھیں۔ (مسلم:۱/۳۸۵،۳۹۴) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مرض الموت میں حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا اور حضرت اسماء رضی اللہ عنہا نے ذات الجنب تشخیص کرکے دواپلانی چاہی؛ چونکہ گوارا نہ تھی، آپ نے انکار فرمایا، اسی ممانعت میں غشی طاری ہوگئی، انہوں نے منہ کھول کرپلادی، افاقہ کے بعد آپ کواحساس ہوا توفرمایا یہ مشورہ حضرت اسماء رضی اللہ عنہا نے دیا ہوگا، وہ حبشہ سے اپنے ساتھ یہی حکمت لائی ہیں، عباس رضی اللہ عنہ کے علاوہ سب کودواپلائی جائے، چنانچہ تمام ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنھن کودواپلائی گئی۔ (طبقات:۲/۳۱) سنہ۱۳ھ میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے وفات پائی تووصیت کی کہ حضرت اسماء رضی اللہ عنہا غسل دیں (اصابہ:۸/۹، بحوالہ ابن سعد) حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے بعد حضرت اسماء رضی اللہ عنہا، حضرت علی رضی اللہ عنہ کے عقدنکاح میں آئیں، محمدبن ابوبکر رضی اللہ عنہ بھی ساتھ آئے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے آغوشِ تربیت میں پرورش پائی، ایک دن عجیب لطیفہ ہوا، محمدبن جعفر رضی اللہ عنہ اور محمد بن ابوبکر باہم فخراً کہا کہ ہم تم سے بہتر ہیں، اس لیے کہ ہمارے باپ تمہارے باپ سے بہتر تھے، حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت اسماء رضی اللہ عنہا سے کہا کہ اس جھگڑے کا فیصلہ کرو، بولیں کہ تمام نوجوانوں پرجعفر رضی اللہ عنہ کواور تمام بوڑھوں پرابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کوفضیلت حاصل ہے، حضرت علی رضی اللہ عنہ بولے پھرہمارے لیے کیا رہا۔ (اصابہ:۸/۹) سنہ ۳۸ھ میں محمدبن ابوبکر رضی اللہ عنہ مصر میں قتل ہوئے اور گدھے کی کھال میں ان کی لاش جلائی گئی، حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کے لیے اس سے زیادہ تکلیف دہ واقعہ کیا ہوسکتا تھا؟ ان کوسخت غصہ آیا لیکن نہایت صبر سے کام لیا اور مصلے پرکھڑی ہوگئیں۔ (اصابہ:۸/۹) وفات سنہ۴۰ھ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ نے شہادت پائی اور ان کے بعد حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کا بھی انتقال ہوگیا۔ (خلاصہ تہذیب:۴۸۸) اولاد جیسا کہ اوپرگذرچکا ہے حضرت اسماء رضی اللہ عنہا نے تین نکاح کئے چنانچہ حضرت جعفر رضی اللہ عنہ سے محمد، عبداللہ، غون، حضرت ابوبکر محمد، اور حضرت علی رضی اللہ عنہ سےیحییٰ پیدا ہوئے۔ (استیعاب:۲/۷۲۵) ریاض النضرہ میں لکھا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دولڑکے ہوئے تھے یحییٰ اور عون (ریاض النضرہ:۲/۶۴۹) لیکن علامہ ابن اثیر نے اس کوغلط کہا ہے اور لکھا ہے کہ یہ ابن کلبی کا خیال ہے جومشہور دروغ گوتھا۔ فضل وکمال حضرت اسماء رضی اللہ عنہا سے ساٹھ احادیث مروی ہیں، جن کے راویوں کے نام یہ ہیں: حضرت عمر رضی اللہ عنہ، ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ، عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ، ابن عباس رضی اللہ عنہ، قاسم بن محمد، عبداللہ بن شداد بن الہاد، عروہ ابن مسیب، ام عون بنت محمد بن جعفر، فاطمہ بنت علی رضی اللہ عنہ، ابویزید مدنی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے براہِ راست تعلیم حاصل کرتی تھیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مصیبت اور تکلیف میں پڑھنے کے لیے ان کوایک دعابتائی تھی۔ (مسند:۵۳۶۹) ایک مرتبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جعفر رضی اللہ عنہ کے بچوں کودبلادیکھا توپوچھا کہ یہ اس قدر دبلے کیوں ہیں، حضرت اسماء رضی اللہ عنہانے کہا ان کونظر بہت لگتی ہے، فرمایا توتم جھاڑ پھونک کرو ، حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کوایک منتر یاد تھا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوسنایا، فرمایا: ہاں یہی سہی۔ (مسلم:۲/۲۲۳) حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کوخواب کی تعبیر میں بھی دخل تھا؛ چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اکثر ان سے خوابوں کی تعبیر پوچھتے تھے۔ (اصابہ:۸/۹)