انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** رستم یہود مرحب کا قتل،قلعہ قموص کی فتح قلعٔہ قموص کی فتح : قلعٔہ قموص تمام قلعوں میں سب سے زیادہ مستحکم تھاجس کا حاکم مرحب رستمِ یہود سمجھاجاتاتھا، اس لئے اس کا محاصرہ طویل عرصہ تک جاری رہا،حضور ﷺ نے ایک دن حضرت ابو بکر ؓ کو جھنڈا عطا فرمایا، بڑی شدید جنگ ہوئی ؛لیکن پھر بھی فتح نہ ہوئی، دوسرے دن آپﷺ نے حضرت عمرؓ کو جھنڈا مرحمت فرمایا؛ لیکن اس دن بھی فتح نہ ہوئی ، تیسرے روز آپﷺ نے حضرت علیؓ کو طلب فرمایا ، معلوم ہوا کہ آشوب چشم میں مبتلاہیں ، حضور ﷺنے انھیں قریب بلایا، دعا فرمائی اور اپنا لعاب دہن آنکھوں میں لگایا ، فوراً ہی آنکھیں اچھی ہو گئیں ، پھر آپﷺ نے انھیں زرہ پہنائی ، تلوار ذوالفقار ہاتھ میں دی اور حضرت عائشہ ؓ کی سیاہ چادر سے تیار کردہ پرچم عطا فرمایا! قلعہ کا رئیس مرحب بڑے طمطراق سے مقابلہ کو نکلا اورمبارزت طلب کی تو حضرت عامر ؓ بن اکوع بڑھے ، مرحب کے وار کو سپر پر روکا ، اپنی تلوار چلائی تو وہ گھوم کر خود ان کے پاؤں پر لگی ، اس کے زخم سے وہ جانبر نہ ہو سکے، ان کے بھائی سلمہؓ بن اکوع نے سمجھا چونکہ وہ خود اپنی تلوار کا نشانہ بنے ان کے اعمال ضائع ہو گئے ، آنحضرت ﷺ نے اپنی دونوں انگلیاں اکھٹی کر کے فرمایا: ان کا اجر دوہرا ہے ، وہ بڑا جانباز مجاہد تھا ، ان جیسا کوئی عرب روئے زمین پر نہ چلا ہو گا ، وہ شہید ہے، ان کی نماز جنازہ پڑھائی اور رجیع میں محمودؓ بن مسلمہ کے ساتھ دفن کیا، یہ وہی صحابی ہیں جن کی حدی خوانی پر حضورﷺنے دعائے مغفرت فرمائی تھی ، مرحب حاکمِ قلعہ قموص عرب کا مشہور پہلوان تھا جو ہزار سواروں کے برابر ماناجاتاتھا، مرحب اور حضرت علی کے درمیان مقابلہ ہوا اور وہ مارا گیا( واقدی نے محمد بن مسلمہ کو مرحب کا قاتل بتلایاہے) مرحب کے مارے جانے کے بعد یہود نے عام حملہ کر دیا لیکن وہ فتح حاصل نہ کر سکے غرضیکہ قلعہ قموص (۲۰) دن کے محاصرہ کے بعد فتح ہو گیا، جب تمام قلعے فتح ہو گئے تو یہودیوں نے درخواست کی کہ آدھی پیداوار کی بٹائی پر انھیں بطور کاشتکار زمینوں پر کام کرنے کی اجازت دی جائے ، حضور اکرم ﷺ چاہتے تو شریعت موسوی کے مطابق انھیں قتل کر دیتے ، عورتوں اور بچوں کو غلام بنا لیتے ؛لیکن حضور ﷺ نے نہایت فراخدلی سے ان کی جاں بخشی فرمائی اور ان سے ایک معاہدہ کیا جس کی شرائط حسب ذیل ہیں: ۱- یہودی آئندہ قلعوں میں سکونت اختیار نہیں کریں گے، ۲- اپنے تمام ہتھیار اور حربی ساز و سامان مسلمانوں کے حوالے کر دیں گے، ( حکومت مدینہ جب چاہے انھیں مدینہ سے نکال باہر کر سکے گی) ۳- تمام دفینے حکومت مدینہ کے حوالے کر دئیے جائیں گے ، ۴- اگریہودی ان شرائط کی خلاف ورزی کریں گے تو جو سامان انھیں بخشا گیا ہے وہ واپس لے لیا جائے گا ، اس معاہدہ پر حضرت ابو بکر ؓ ، حضرت عمرؓ ، حضرت علی ؓ اور حضرت زبیر ؓ نے بطور گواہ دستخط کئے، فتح کے بعد زمین مفتوحہ پر قبضہ کر لیا گیا؛ لیکن یہود نے درخواست کی کہ زمین ہمارے قبضہ میں رہنے دی جائے ہم پیداوار کا نصف حصہ ادا کریں گے، یہ درخواست منظور ہوئی، بٹائی کا وقت آتا تو آنحضرت ﷺ حضرت عبداللہ ؓبن رواحہ کو بھیجتے ، وہ غلہ کو دو حصوں میں تقسیم کر کے یہود سے کہتے تھے کہ اس میں سے جو حصہ چاہو لے لو، یہود اسی عدل پرمتحیر ہو کرکہتے تھے کہ زمین اور آسمان ایسے ہی عدل سے قائم ہیں،