انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حضرت سعید ؓبن العاص نام ونسب ۱ھ میں پیدا ہوئے،سعید نام رکھا گیا، نسب نامہ یہ ہے سعید بن عاص بن سعید بن عاض بن امیہ بن عبد شمس بن عبد مناف قرشی اموی،ماں کا نام ام کلثوم تھا، نانہالی شجرہ یہ ہے ام کلثوم بنت عمر بن عبداللہ بن ابو قیس بن عبدودبن نصر بن مالک بن حسل بن عامر بن لوئی ،بنی امیہ کے گھرانے میں سعید کے آباد واجداد بڑے دبدبہ وشکوہ کے رئیس تھے، ان کے والد عاص بدر میں حضرت علیؓ کے ہاتھ سے مارے گئے، ان کے دادا سعید ابواحیحہ ذوالتاج تاج والے کہلاتے تھے، یہ جس رنگ کا عمامہ باندھتے تھے،اس رنگ کا مکہ میں دوسرا نہ باندھ سکتا تھا۔ (اسد الغابہ:۲/۳۰۹) فتح مکہ کے بعد قریش کا کوئی گھرانہ اسلام سے خالی نہ رہ گیا تھا، اس وقت سعید کی عمر ۸،۹ سال کی ہوگی ،اس لیے ہوش سنبھالتے ہی انہوں نے اپنے گرد وپیش اسلام کو پرتو فگن دیکھا،عہد نبوی اور عہد صدیقی میں بالکل بچہ تھے، عہد فاروقی کے آخر میں عنفوان شباب تھا، اس لیے ان تینوں زمانوں کا کوئی واقعہ قابلِ ذکر نہیں ہے۔ جرجان اورطبرستان کی فتح حضرت عثمان کے زمانہ میں پورے جوان ہوچکے تھے؛چنانچہ اسی عہد سے ان کے کارناموں کا آغاز ہوتا ہے، ان کا گھرانا ریاست وحکومت میں ممتاز تھا، اس لیے حضرت عثمانؓ نے انہیں اس کام کے لیے منتخب کیا اور ۲۹ ھ میں ولید ابن عقبہ کی جگہ کوفہ کا گور نر مقرر کیا شجاعت و بہادری ورثہ میں ملی تھی،اس لیے کوفہ پر تقرر کے ساتھ ہی ۲۹ھ میں جرجان اورطبرستان پر فوج کشی کردی دوسری طرف سے عبداللہ ابن عامر والی بصرہ بڑھا، سعید کے ساتھ حضرت حسنؓ، حسینؓ،عبداللہ بن عباس، ابن عمرؓ اورابن زبیرؓ وغیرہ تمام نوجوانان قریش تھے (ابن اثیر:۲/۸۴)ان لوگوں نے عبداللہ بن عامر کے پہنچنے کے قبل طبرستان پر حملہ کرکے طیمہ ،نامند،رویان اور دبادند فتح کرلیا اورجرجان کے فرما نروانے دولاکھ پر صلح کرلی، کوہستانی علاقہ والوں نے بھی صلح کرلی (فتوح البلدان بلاذری:۳۴۲) طبرستان اورجرجان کے بعد آذر بیجان کی بغاوت فرو کی معزولی اورعہد معاویہ ۳۴ھ میں اہل کوفہ کی شکایت پر حضرت عثمانؓ نے معزول کردیا، ۳۵ھ میں حضرت عثمانؓ کی شہادت کا واقعہ پیش آیا، اس کے نتائج میں جمل اور صفین کی خون ریز لڑائیاں ہوئیں، لیکن سعید ان میں خانہ نشین رہے اورحضرت علیؓ اور معاویہ کسی کا ساتھ نہ دیا، استقرار حکومت کے بعد امیر معاویہ نے ان کو مدینہ کا عامل بنایا، لیکن پھر کچھ دنوں کے بعد معزول کرکے ان کی جگہ مروان کو مقرر کیا۔ (استیعاب:۲/۵۵۶) وفات ۶۹ھ میں وفات پائی، وفات کے بعد سات لڑکے یاد گار چھوڑے، عمر، محمد، عبداللہ ،یحییٰ عثمان عنبہ اورآبان ،سعید کےکئی بھائی تھے، لیکن عاص کی نسل ان ہی کی اولاد سے چلی۔ (ایضا، استیعاب:۲/۵۵۶) فضل وکمال حضرت عثمانؓ نے مصاحف کی کتابت کے لیے جو جماعت منتخب کی تھی ان میں ایک سعید بھی تھے،(اسد الغابہ:۲/۳۱۱) اور قرآن مجید کی کتابت میں صرف ونحو اور زبان کی صحت کی نگرانی ان ہی کے متعلق تھی ، ان سے حدیثیں بھی مروی ہیں، لیکن چونکہ آنحضرتﷺ کے زمانہ میں بچہ تھے، اس لیے براہ راست مرفوع حدیثیں نہیں ہیں؛بلکہ حضرت عمروؓ عثمان اورعائشہ ؓ سے روایتیں کی ہیں۔ (ایضاً) سعید نہایت عاقل و فرزانہ تھے اور ان کے بہت سے حکیمانہ مقولے ضرب المثل ہوگئے تھے کہا کرتے تھے کہ شریف سے مذاق نہ کرو کہ وہ تم سے جلنے لگے گا اورکمینہ سے مذاق نہ کرو کہ وہ جری ہوجائے گا ،رائے ظاہر کرنے میں بہت محتاط تھے، کسی چیز کے متعلق پسندیدگی اورناپسند یدگی کا اظہار نہ ہونے دیتے تھے کہا کرتے تھے کہ دل بدلتا رہتا ہے،اس لیے انسان کو اظہار رائے میں احتیاط کرنی چاہیے اور ایسا نہ کرنا چاہیے کہ آج ایک چیز کی تعریف و توصیف میں رطب اللسان ہوا، اور کل اس کی مذمت شروع کردے۔ (اصابہ:۲/۹۸) فیاضی شجاعت وشہامت کے ساتھ فیاضی اوردریادلی بھی خمیر میں داخل تھی، ہفتہ میں ایک دن اپنے بھائی بھتیجوں کو ساتھ کھلاتے تھے،اس کے علاوہ سب کو کپڑے دیتے ،نقدی سلوک کرتے تھے اور ان کے گھروں پر سازوسامان بھجواتے تھے، (اسدالغابہ:۲/۳۱۱)یہ فیاضی محض اعزہ کے ساتھ مخصوص نہ تھی ؛بلکہ کار خیر میں بھی بہت فیاضی سے صرف کرتے تھے، ہر شب جمعہ کو کوفہ کی مسجد میں غلام کے ہاتھ دینار سے بھری ہوئی تھیلیاں نمازیوں میں تقسیم کراتے تھے، اس معمول کی وجہ سے شبِ جمعہ کو مسجد میں نمازیوں کا بڑا ہجوم ہوتا تھا۔ (اسد الغابہ:۲/۳۱۰) کبھی کوئی سائل دروازہ سے ناکام واپس نہ ہوتا تھا، اگر روپیہ پاس نہ ہوتا تو ایک تحریر ی یاداشت بطور ہنڈی کے دیدیتے کہ جب روپیہ آجائے سائل وصول کرلے (اسد الغابہ:۲/۳۱۰)اس فیاضی کی وجہ سے لوگ ان کے ساتھ لگے رہتے تھے اورکوئی نہ کوئی ہر وقت ساتھ رہتا تھا، مدینہ کی معزولی کے زمانہ میں ایک دن مسجد سے آرہے تھے،ایک آدمی ساتھ ہولیا، سعید نے پوچھا کوئی کام ہے، اس نے کہا نہیں آپ کو تنہا دیکھ کر ساتھ ہوگیا، کہا کاغذ دوات لاؤ اورمیرے فلاں غلام کو لیتے آؤ، اس آدمی نے فوراً حکم کی تعمیل کی سعد نے بیس ہزار کا سرخط لکھ دیا اورکہا جب ہمارا وظیفہ ملے گا ،تویہ رقم تم کو مل جائے گی، لیکن ادائیگی کے پہلے ان کا انتقال ہوگیا، ان کے انتقال کے بعد وہ سرخط اس شخص نے ان کے لڑکے عمرو کو دیا، انہوں نے اس کی رقم ادا کی۔ (استیعاب :۲/۵۵۶) شریف اہل حاجت کو بلا سوال دیتے تھے اور شرفا پروری کی وجہ سے بہت مقروض ہوگئے تھے، وفات کے وقت اسی ہزار قرض تھا ،وفات سے پہلے لڑکوں کو بلا کر پوچھا ، تم میں سے کون میری وصیت قبول کرتا ہے، بڑے لڑکے نے اپنے کو پیش کیا، سعید نے کہا اگر میری وصیت قبول کرتے ہو تو میرا قرض بھی چکا نا ہوگا، لڑکے نے پوچھا کتنا ، کہا اسی ہزار دینار، لڑکے نے کہا اتنا قرض کس طرح ہوگیا، کہا بیٹا ان شریفوں اورغیرت مند لوگوں کی حاجت پوری کرنے میں جو میرے پاس حاجت لیکر آتے تھے، اورفرط خجالت سے ان کے چہرہ کا خون خشک ہوا جاتا تھا، میں سوال کے قبل ہی ایسے لوگوں کی حاجت پوری کردیتا تھا۔ (اسد الغابہ:۲/۳۱۱) حق پسندی بنی امیہ میں خاندانی عصبیت بہت زیادہ تھی اوران میں بہت سے ایسے تھے کہ مدتیں گذر جانے کے بعد بھی ان کے دلوں سے اموی مقتولین بدر واحد کے قاتلوں کی نفرت نہ مٹی تھی، لیکن سعید کی ذات اس کینہ پروری سے مستثنی تھی اوران کے دل میں خلافِ حق کبھی کوئی عصبیت کا جذبہ پیدا نہ ہوا، ان کے والد عاص جنگ بدر میں حضرت علیؓ کے ہاتھ سے مارے گئے تھے، حضرت عمرؓ نے عاص کے ہمنام اپنے ماموں کو قتل کیا تھا، اس لیے اشتراک نام کی وجہ سے دھوکا ہوتا تھا کہ حضرت عمرؓ نے سعید کے والد کو قتل کیا، ایک موقع پر حضرت عمرؓ نے اس غلط فہمی کو رفع کرنے کے لیے فرمایا کہ میں نے تمہارے والد کو نہیں ؛بلکہ اپنے ماموں عاص کو قتل کیا تھا، یہ سن کر سعید نے جواب دیا کہ اگر آپ میرے ماموں کو بھی قتل کیے ہوتے تو کیا برا کیا تھا، آپ حق پر تھے اوروہ باطل پر،حضرت عمرؓ کو اس حق پسندی پر بڑی حیرت ہوئی۔ (اسد الغابہ:۶/۳۱۱)