انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حضرت عمروؓبن عبسہ نام ونسب عمرونام،ابونجیح کنیت،سلسلہ نسب یہ ہے،عمروبن عبسہ بن عامر بن خالد بن غاضرہ بن عتاب بن امراؤالقیس، ماں کانام رملہ بنت دقیعہ تھا،یہ خاتون قبیلہ بنی حزام سے تھیں،عمرومشہور صحابی حضرت ابوذرغفاریؓ کے ماں جائے بھائی تھے۔ (مستدرک حاکم:۳/۶۱۶) اسلام عمروابتداہی سے سلیم الفطرت تھے؛چنانچہ زمانۂ جاہلیت میں جب کہ سارا عرب بت پرستی میں مبتلا تھا، ان کو اس سے نفرت تھی اوربت پرستوں کو گمراہ سمجھتے تھے،بعثت نبویﷺ کی خبر پاکر مکہ آئے،اس وقت آنحضرتﷺ مشرکین کی معاندانہ روش کے باعث علی الاعلان دعوت اسلام نہیں کرتے تھے،اس لیے عمروبن عبسہؓ نے خفیہ طورپر آنحضرتﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر سوال کیا، آپ کون ہیں؟ آنحضرتﷺ نے فرمایا نبی ہوں،پوچھا نبی کیا چیز ہے؟ فرمایا مجھ کو اللہ نے بھیجا ہے،پوچھا کن تعلیمات کے ساتھ؟ فرمایا :صلہ رحمی،بت شکنی اور توحید کے ساتھ،پوچھا کسی اور نے بھی اس دعوت کو قبول کیا ہے؟فرمایا:ہاں ایک غلام اورایک آزاد نے، اس وقت صدیق اکبرؓ اورسرخیل عشاق بلالؓ آپ کے ساتھ تھے، اس سوال وجواب کے بعد عرض کیا ،مجھ کو بھی خدا پرستوں کے زمرہ میں داخل کیجئے میں آپ کے ساتھ ہی رہوں گا، فرمایا ایسی حالت میں جب کہ ہر چہارجانب سے میری مخالفت کے طوفان اٹھ رہے ہیں، میرے ساتھ کیسے رہ سکتے ہو اس وقت تم وطن واپس جاؤ،میرے ظہور کے بعد پھر چلے آنا۔ وطن کی واپسی غرض مشرف باسلام ہونے کے بعد حسبِ ارشاد نبوی وطن لوٹ گئے اورآنے جانے والوں سے برابر حالات کا پتہ چلاتے رہے، اتفاق سے یثرب کے کچھ اشخاص آپ کے یہاں آگئے،ان سے پوچھا کہ جو شخص مدینہ آیا ہے، اس کا کیا حال ہے انہوں نے کہا کہ لوگ جوق درجوق اس کی طرف ٹوٹ رہے ہیں، اس کی قوم نے تو اس کو قتل کردینے کا تہیہ کرلیا تھا، مگر قتل نہ کرسکی، اب وہ مدینہ آگیا ہے۔ ہجرت اس خبر کے بعد مدینہ روانہ ہوگئے اورآنحضرتﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر اپنا تعارف کرایا، آپ نے فرمایا، میں نے تم کو پہچان لیا تم مکہ میں مجھ سے ملے تھے پھر کچھ صوم وصلوۃ کے مسائل وغیرہ دریافت کرکے وہیں مقیم ہوگئے۔ (مسلم:۱/۳۰۷،۳۰۸،ومسند احمد بن حنبل:۵/۱۱۲) غزوات بدر،احد، حدیبیہ اورخیبر وغیرہ کے معرکے وطن کے زمانہ قیام میں ختم ہوچکے تھے، سب سے پہلا غزوۂ جس میں ابورہم شریک ہوئے فتح مکہ ہے،(اصابہ:۵/۵) طائف میں بھی شرکت کا ایک روایت سے پتہ چلتا ہے،ان کا بیان ہے کہ طائف کے محاصرہ میں آنحضرتﷺ نے فرمایا جو شخص اللہ کے راستہ میں ایک تیر چلائے گا، اس کے لیے جنت میں ایک دروازہ کھل جائے گا، یہ بشارت سن کر میں نے ۱۶ تیر چلائے،(اصابہ:۵/۲) طائف کے علاوہ اورکسی غزوۂ کی شرکت کی تصریح نہیں ملتی؛لیکن اس قدر معلوم ہوتا ہے کہ اس کے بعد بھی بعض غزوات میں شرکت کا شرف حاصل کیا۔ وفات زمانہ وفات صحت کے ساتھ نہیں بتایا جاسکتا،ارباب سیر قیاساً آخر عہدِعثمانی بتاتے ہیں؛چنانچہ صاحب اصابہ نے محض اس قیاس پر کہ یہ عہد عثمانی کے فتنوں اور معاویہ کے زمانہ میں کہیں نظر نہیں آتے ان کا زمانہ وفات آخر عہد عثمانی لکھا ہے،(مسند احمد بن حنبل:۴/۱۱۳،بہ روایت ترمذی میں بھی ہے) لیکن مسند احمد بن حنبل میں سلیم بن عامر سے ایک روایت ہے کہ امیر معاویہ اوررومیوں کے درمیان ایک معاہدہ ہوا تھا جس کی رو سے امیر معاویہؓ ایک مدت معینہ تک اس پر حملہ نہیں کرسکتے تھے ؛چنانچہ یہ اس حساب سے حملہ کی تیاریاں کرکے چلے کہ رومیوں کی سرحد تک پہنچتے پہنچتے میعاد ختم ہوجانے کے ساتھ ہی فورا ًحملہ کردیا جائے،اس وقت حضرت عمروبن عبسہؓ پکارتے پھرتے تھے،کہ وعدہ وفا کرو،دھوکہ نہ دو۔ (اصابہ:۵/۲) اس روایت سے یہ احتمال ہوتا ہے کہ امیر معاویہؓ کے زمانہ تک زندہ تھے؛لیکن اگر صاحب اصابہ کا قیاس صحیح مانا جائے تو یہ واقعہ اس عہد کا ہوگا، جب معاویہؓ عہد عثمانی میں شام کے گورنر تھے؛کیوں کہ اس زمانہ میں بھی ان کے اور رومیوں کے درمیان نبرد آزمائیاں ہوتی رہتی تھیں۔ فضل وکمال عمروبن عبسہؓ کو گو صحبت نبویﷺ سے فیضیاب ہونے کا بہت کم موقع ملا، تاہم جو لمحات بھی میسر آئے ان میں خوشہ چینی سے غافل نہ رہے؛چنانچہ مدینہ آنے اوراپنا تعارف کرانے کے بعد سب سے پہلا سوال آنحضرتﷺ سے یہی کیا کہ" علمنی ما علمک اللہ "آپ کو جو اللہ نے سکھایا ہے وہ تھوڑا مجھے بھی سکھائیے، اسی لیے اس قلیل مدت کے باوجود آپ کی ۴۸ روایتیں کتب حدیث میں موجود ہیں،(تہذیب الکمال:۲۹۱) اورآپ کے رواۃ کے نام حسب ذیل ہیں، عبداللہ بن مسعود،سہیل بن سعد، ابوامامہ باہلی، معدان بن ابی طلحہ،ابوعبداللہ صنابجی،شرجیل بن سخط وغیرہ۔ (تہذیب التہذیب :۸/۶۹)