انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** مسجد ضرار کی تعمیر اپنے ان ناپاک مقاصد کی تکمیل کے لئے اور مسلمانوں کے خلاف سازشیں کرنے کے لئے ایک جگہ کا تعین کرکے منافقین نے مسجد کی شکل کا ایک ڈھانچہ تیار کیا اور حضور اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا… یا رسول اﷲ ! ہم لوگوں نے بیماروں اور محتاجوں کے لئے نیز بارش اور سردی کی راتوں میں نماز کے لئے ایک مسجد بنائی ہے ، ہماری خواہش ہے کہ آپﷺ اس مسجد میں تشریف لائیں اور ہمیں نما ز پڑھائیں، اس درخواست کے پسِ پشت منافقین کا یہ مقصد تھا کہ حضور ﷺ کے وہاں نماز پڑھنے کے بعد مسلمان اس میں آتے جاتے رہیں گے اور ان کے سایہ تلے منافقین اپنے ہمنواوں کو اس جگہ محفوظ رکھ سکیں گے، چونکہ حضور اکرم ﷺ اس وقت غسّانیوں کے خلاف جنگی تیاریوں میں مصروف تھے ،اس لئے آپﷺ نے ان سے فرمایا کہ جنگ سے واپسی کے بعد وہاں نماز ادا فرمائیں گے، حضور ﷺ کے اس جواب نے منافقین کی اُمیدوں پر پانی پھیر دیا، ابن ہشام کے مطابق جن لوگوں نے یہ مسجد بنائی تھی وہ بارہ اشخاص تھے جن کے نام یہ ہیں: ۱) خذام بن خالد یہ بنو عبید بن زید کی شاخ بنو عمر و بن عوف کا ایک فرد تھا ، اس کے گھر کے ایک حصہ میں یہ مسجد بنائی گئی تھی، ۲) ثعلبہ بن حاطب بنو اُمیہ بن زید کا آدمی تھا، ۳) معتب بن قشیر بنوضبیعہ بن زید سے تھا ، ۴) ابوحبیبہ بن ازعر بنوضبیعہ بن زید سے تھا ، ۵) عباد بن حنیف اخو سہل بن حنیف بن عمرو بن عوف سے تھا، ۶) جاریہ بن عامراور اس کے دو بیٹے، ۷) مجمع بن جاریہ ۸) زید بن جاریہ ۹) نبتل بن حارث بنوضبیعہ بن زید سے تھا ، ۱۰) یخرج بنوضبیعہ بن زید سے تھا ، ۱۱) بجاد بن عثمان بنوضبیعہ بن زید سے تھا ، ۱۲) ودیعہ بن ثابت بنو اُمیہ بن زید سے تھا، (ابن ہشام) حضور اکرم ﷺ کی جنگی تیاریاں ہرقل کے عظیم لشکر کے مسلمانوں پر حملہ کی خبریں تمام عرب میں پھیل گئیں اور اور قرائن اس قدر قوی تھے کہ انہیں غلط سمجھنے کی کوئی وجہ نہیں تھی، اس بنا پر حضور اکرم ﷺ نے فوج کی تیاری کا حکم دے دیا، سوء اتفاق یہ کہ ملک میں اس وقت قحط سالی پھیلی ہوئی تھی اور شدت کی گرمی کا زمانہ تھا، ان حالات میں منافقین کی ایک جماعت کے لوگ جو بظاہر خود کو مسلمان کہتے تھے لوگوں سے یہ کہہ رہے تھے کہ اس شدت کی گرمی میں نہ نکلو، وہ خود بھی شرکت سے جی چراتے اور دوسروں کو بھی منع کرتے تھے، چنانچہ اﷲ تعالیٰ نے ان کے بارے میں فرمایا: (ترجمہ) " اور انہوں نے کہا گرمی میں جنگ کے لئے نہ نکلو، آپﷺ کہہ دیجیے جہنم کی آگ زیادہ گرم ہے اگر وہ سمجھیں تو کم ہنسیں اور زیادہ روئیں، ان کرتوت کے بدلے میں جو وہ کرتے ہیں" (سورہ توبہ : ۸۲) رسول اﷲ ﷺ کو خبر ملی کہ کچھ منافقین سویلم یہودی کے گھر میں جمع ہوکر غزوۂ تبوک میں شرکت کرنے سے لوگوں کو منع کررہے ہیں، آپﷺ نے طلحہؓ بن عبیدا ﷲ کو چند صحابہ کے ساتھ ان کی طرف بھیجا اور حکم دیا کہ سویلم کا گھر معہ ان لوگوں کے جلادیں، طلحہؓ نے ایسا ہی کیا،حضور اکرم ﷺ نے سفر کی تیاری شروع کردی اور لڑائی میں شرکت کے لئے اعلانِ عام فرمایا، آپﷺ نے عرب کے قبائل کو پیغام دیا کہ جنگ کے لئے نکل پڑیں ، حضور اکرم ﷺ کا دستور تھا کہ جب کسی غزوہ کا ارادہ فرماتے تو کسی اور ہی جانب کا اشارہ فرماتے ؛لیکن صورتِ حال کی تنگی کے باعث اب کی مرتبہ آپﷺ نے صاف صاف فرمادیا کہ رُومیوں سے جنگ کا ارادہ ہے جو ہمارے خلاف لڑائی کے لئے تیار ہورہے ہیں، اس موقع پر آپﷺ نے لوگوں کو جہاد کی ترغیب دی، عین اسی موقع پر سورہ توبہ کی آیت ۴۱ نازل ہوئی جس میں فرمایاگیا: (ترجمہ) " با سر و سامان ہو یا بے سروسامان اﷲ کے راستے میں نکل کھڑے ہو اور اپنے مالوں اور جانوں کے ساتھ دینِ حق کو سر بلند کرنے کی پوری کوشش کرو، یہی تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم جانو" (سورہ توبہ : ۴۱)