انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** جانبازوں کی شہادت پچھلے معرکوں میں شمعِ امامت کے بہت سے پروانے فدا ہوچکے تھے اب امامؓ کے ساتھ صِرف چند جاں نثار باقی رہ گئے تھے،ان کے مقابلہ میں کوفیوں کا ٹڈی دل تھا اس لئے ان کے قتل ہونے سے ان میں کوئی کمی نظر نہ آتی تھی، لیکن حسینی فوج میں سے ایک آدمی بھی شہید ہوجاتا تھا تو اس میں نمایاں کمی محسوس ہوتی تھی، یہ صورت حال دیکھ کر عمروبن عبداللہ صاعدی نے امام سے عرض کیا کہ میری جان آپ پر فدا ہو،اب شامی بہت قریب ہوتے جاتے ہیں اورکوئی دم میں پہنچنا چاہتے ہیں، اس لئے چاہتا ہوں کے پہلے میں جان دے لوں اس کے بعد پھر آپ کو کوئی گزند پہنچے ابھی میں نے نماز نہیں پڑھی ہے، نماز پڑھ کر خدا سے ملنا چاہتا ہوں ان کی اس درخواست پر حضرت حسینؓ نے فرمایا، ان لوگوں سے کہو کہ تھوڑی دیرکے لئے جنگ ملتوی کردیں تاکہ ہم لوگ ظہر کی نماز ادا کرلیں، آپ کی زبان سے یہ فرمائش سن کر حصین بن نمیر شامی بولا، تمہاری نماز قبول نہ ہوگی؟حبیب بن مظہر نے جواب دیا گدھے! آل رسول کی نماز قبول نہ ہوگی اور تیری قبول ہوگی؟ یہ جواب سن کر حصین کو طیش آگیا اورحبیب پر حملہ کردیا، حبیب نے اس کے گھوڑے کے منہ پر ایسا ہاتھ مارا کہ وہ دونوں پاؤں اٹھا کر کھڑا ہوگیا اورحصین اس کی پیٹھ سے نیچے آگیا؛ لیکن اس کے ساتھیوں نے بڑھ کر بچالیا اس کے بعد حبیب اور کوفیوں میں مقابلہ ہونے لگا کچھ دیر تک حبیب نہایت کامیابی کے ساتھ مقابلہ کرتے رہے؛ لیکن تن تنہا کب تک انبوہ کثیر کے مقابل میں ٹھہرسکتے بالآخر لڑتے لڑتے شہید ہوگئے، ان کی شہادت سے حضرت حسینؓ کا ایک اور بازو ٹوٹ گیا اورآپ بہت شکستہ خاطر ہوئے مگر کلمۂ صبر کے علاوہ زبان مبارک سے کچھ نہ نکلا، حر نے آقا کو غمگین دیکھا تو رجز پڑہتے ہوئے بڑھے اور مشہور جان نثار زہیر بن قین کے ساتھ مل کر بڑی بہادری اورشجاعت سے لڑے؛لیکن یہ بھی کب تک لڑتے، آخر میں کوفی پیادوں نے ہر طرف سے حر پر ہجوم کردیا اور یہ پروانہ بھی شمع امامت پر سے فدا ہوگیا۔ (طبری:۷/۳۴۷،۳۵۰)