انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** مصالح مرسلہ فقہ میں چونکہ مصالح مرسلہ کی بھی رعایت کی گئی ہے اور اس کی بناء پر مسائل کی ایک معتدبہ مقدار فقہ کے مختلف ابواب میں پائے جاتے ہیں، اس لیے مصالح مرسلہ کی حقیقت، فقہاء کے یہاں اس کا درجۂ اعتبار اور دیگر ضروری تفصیلات ذیل کے سطور میں پیش کی جاتی ہیں۔ مصالحِ مرسلہ کی تعریف کسی منفعت کی تحصیل یاتکمیل یاکسی مضرت وتنگی کا ازالہ یاتخفیف کی وہ صورت جوشارع کے مقصود کی رعایت وحفاظت پر مبنی ہو اور اس کی تصریح وتشخیص یااس کے کسی نوع کی صراحت شریعت نے نہ کی ہو، اسے اصطلاح میں مصالح مرسلہ کہا جاتا ہے اور اسے "مرسلہ" "الاستدلال المرسل" اور الاستصلاح بھی کہا جاتا ہے۔ (ارشاد الفحول:۲۸۵۔ البحرالمحیط:۶/۷۶) مصالح مرسلہ کے معتبر ہونے کے شرائط فقہاء نے مصالح مرسلہ پر عمل کرنے کی تین شرطیں بیان کی ہیں: ۱۔وہ مصلحت ایسی ہوجوشریعت کے مقاصد کے مناسب ہو اور دلائلِ قطعیہ کے مخالفت نہ ہو اور نہ ہی کسی اصل کے منافی ہو؛ بلکہ شارع کی مراد کے موافق اور اس سے متفق ہو۔ ۲۔مصلحت بذاتِ خود معقول ہو، عقول سے بالاتر نہ ہو، عقل سلیم ان کو قبول کرتی ہو۔ ۳۔مصلحت کی رعایت کا مقصد کسی ضرر کو دفع کرنا ہو، محض نفسانی خواہشات کی پیروی نہ ہو۔ (المدخل:۲۰۱) امام غزالیؒ کی تحریروں سے بھی مصالح مرسلہ کے معتبر ہونے کی یہی شرائط معلوم ہوتے ہیں،وہ لکھتے ہیں کہ مصلحت ایسی ہو جوضرورت کے قبیل سے ہو، حاجات وتحسینات کے قبیل سے نہ ہو۔ مصلحت محض احتمال وظن پر مبنی نہ ہو، اس مصلحت کے ذریعہ ضرر عامہ کو دفع کرنا مقصود ہو، اس میں کسی خاص شخصیت کومدنظر نہ رکھا گیا ہو (المستصفیٰ:۱/۲۸۶) یہی نظریہ حنابلہ کا بھی ہے۔ (اصول امام احمد بن حنبلؒ:۴۳۰) مالکیہؒ کا موقف بھی تقریباً یہی ہے کہ جس مصلحت کی رعایت کرنے میں صلاح وخیر ہو، حرج ومشقت نہ ہو، اس کے ذریعہ عیش وعشرت کی تحصیل کا قصد نہ ہوتووہ مصالح مرسلہ شرعاً معتبر ہے۔ (مالک لأبی زہرہ:۴۲۶) شیخ ابوزہرہؒ نے حنفیہ کی ترجمانی کرتے ہوئے یہ لکھا ہے کہ جومصلحت شریعت سے ثابت شدہ اصول کے قریب ہو اس کا اعتبار ہوگا؛ ورنہ اعتبار نہ ہوگا (اصول الفقہ لأبی زہرہ:۲۲۶)غور کیا جائے تویہ بات بھی ماقبل میں ذکر کردہ شرائط کے مغائر نہیں ہے۔ خلاصہ یہ کہ فقہاء کے یہاں مصالح مرسلہ کے معتبر ہونے کے لیے ضروری ہے کہ: ۱۔وہ مصلحت مقاصد شریعت کے مطابق ہو۔ ۲۔وہ امرتعبدی اور عقل انسانی سے بالاتر نہ ہو۔ شریعت کے حدود اسلامی قانون کے ماہراور اس کی گہرائی میں غوطہ زن رہنے والے فقہاء نے شریعت کے مقاصد کو واضح کرتے ہوئے ان کی پانچ قسمیں بیان کی ہیں: (۱)حفظِ جان (۲)حفظِ نفس (۳)حفظِ عقل (۴)حفظِ نسل (۵)حفظِ مال۔ وسعتِ نظر سے اگرجائزہ لیا جائے تواحکامِ شرعیہ ان ہی پانچ مقاصد کے اردگرد رواں دواں نظر آتے ہیں، نماز، روزہ، حج، صدق کی تاکید، کذب سے ممانعت، توحید ورسالت کے احکام، عقیدہ موت ومابعدالموت؛ اسی طرح سینکڑوں احکام ہیں، جن کا منشاء ومقصود "دین" کی حفاظت ہے؛ گویا عبادات کی مشروعیت حفظِ دین کی خاطر ہے؛ نہ اس کے بغیر دین کی تشکیل ہوسکتی ہے نہ دین کی عمارت قائم رہ سکتی ہے، قصاص ودیت کے قوانین، ظلم وجور کی ممانعت، نفقہ وحضانت کے احکام، انسان کی عزت وآبرو کی پاس داری، قذف وبہتان کی سزاوغیرہ "حفظِ نفس" کے لیے سنگِ راہ کی حیثیت رکھتے ہیں، نکاح کی اجازت ہی نہیں؛ بلکہ فضیلت، رہبانیت، وتجرد کی ممانعت، زنا ودواعیٔ زناکی حرمت اور اس کے کرنے پر عبرتناک سزائیں اور ثبوتِ نسب میں حددرجہ احتیاط کا پہلو، یہ سب "نسل کی حفاظت" کے لیے معین ومددگار ہیں، مالی معاملات کی اجازت، چوری ڈکیتی اور رہزنی پر حدود کا قائم ہونا، سود کی حرمت، غرور وخطر سے حفاظت وغیرہ کا تعلق "تحفظ مالی" کے قبیل سے ہیں، احکامات دینیہ میں غوروتدبر کی اجازت، اجتہاد کے دروازے کو کھلا رکھنا، نشہ کی حرکت اس پر حدود کا جاری ہونا "حفظِ عقل" کی خاطر ہیں۔ (نفائس الاصول:۹/۴۲۷۳) یہ وہ امور ہیں جن پر ہرزمانہ کی شریعتیں متفق رہی ہیں؛ بلکہ غیردینی قوانین میں بھی اپنے احترام اور اپنے حفظ وبقاء کے واجب ہونے کی بناء پر یہ امورِ خمسہ ملحوظ رہے ہیں۔ چنانچہ امام غزالیؒ تحریر فرماتے ہیں کہ کسی ملت میں بھی ان امور کی ضرورت سے صرفِ نظر نہیں کیا گیا ہے (المستصفی:۱/۲۷۸) تمام ملتیں ان کی حفاظت پر شانہ بشانہ ہیں؛ بلکہ تمام اہلِ عقل نے ان کوتسلیم کیا ہے؛ کیونکہ ان امور کی حفاظت سے انسانی سوسائٹی کا توازن قائم رہتا ہے (اصول الفقہ لأبی زہرہ:۲۲۵)مثلاً خنزیر نہ صرف حرام؛ بلکہ نجس العین ہے، خوردونوش ہی نہیں اس کی خریدوفروخت بھی حرام ہے، اس کے بالوں سے بھی استفادہ مناسب نہیں، جس پانی سے وہ پی لے وہ خود بھی ناپاک اور ناقابلِ انتفاع ہے؛ لیکن صورتِ حال یہ ہے کہ ایک بھوکا زندگی اور موت کے لمحات سے دوچار ہے، غذا کا ایک لقمہ اس کے تارِحیات کو بظاہر بچاسکتا ہے اور سوائے اس جانور کے گوشت کے کوئی اور چیز نہیں ہے توحفظِ دین اس کی متقاضی ہے کہ لحمِ حرام سے اس کی جان بچانی جائز نہ ہو؛ لیکن حفظ نفس اس گوشت کے ذریعہ جان بچانے کی التجاء کررہا ہے، شریعت نے یہاں "حفظِ جان" کو "حفظِ دین" پر ترجیح دیا ہے اور مضطر کے لیے خنزیر کا گوشت کھاکر جان بچانے کی گنجائش رکھی ہے (المستصفی:۱/۲۸۹) چنانچہ قرآن اعلان کرتا ہے: "إِنَّمَا حَرَّمَ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةَ وَالدَّمَ وَلَحْمَ الْخِنْزِيرِ وَمَاأُهِلَّ بِهِ لِغَيْرِ اللَّهِ فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَلَاعَادٍ فَلَاإِثْمَ عَلَيْهِ"۔ (البقرۃ:۱۷۳) ترجمہ:اللہ نے تم پر صرف حرام کیا ہے مردار کو اور خون اور خنزیرکے گوشت کو اور ایسے جانور کوجوغیراللہ کے نامزد کردیا ہو؛ پھربھی جوشخص بے تاب ہوجائے بشرطیکہ نہ طالب لذت ہو اور نہ تجاوز کرنے والا ہو تو اس پر کچھ گناہ نہیں۔ مصلحت کے اقسام فقہاء نے ان پانچوں طرح کے احکام کے تین درجات مقرر کئے ہیں، ضروریات، حاجیات اور تحسینات، ضروریات وہ ہیں جن پر دین، جان، نسل اور عقل ومال کا تحفظ موقوف ہے، جیسے حفاظتِ دین کے لیے ایمان اور نماز وغیرہ، حفاظتِ جان کے لیے خوردونوش کی اباحت اور قتل نفس پر قصاص ودیت کوواجب قرار دیا جانا، حفظِ نسل کے لیے نکاح کی اباحت اور زنا کی حرمت اور حفظِ مال کے لیے بہت سے مالی معاملات کی اباحت اور چوری وغیرہ کی ممانعت اورجن امور پر ان پانچوں مقاصد کا حصول موقوف تونہ ہو؛ لیکن اگران کی اجازت نہ دی جائے توان مقاصد کے حصول میں تنگی اور دشواری پیدا ہوجائے توایسے مواقع پر دفع حرج کے لیے تنگی کو دور کرنے کی غرض سے جواحکام دئے جاتے ہیں وہ حاجیات ہیں، جیسے حالت سفر میں روزہ کا افطار، شکار کی اباحت، قرض وغیرہ جیسے معاملات کی اجازت جن کو شریعت کے عام اصولوں کے تحت جائز نہ ہونا چاہیے۔ اور وہ امور کہ اگران کی اجازت نہ دی جاتی توکوئی قابلِ لحاظ تنگی بھی پیدا نہ ہوتی "تحسینیات" ہیں ،جن کو "تکمیلیات" اور کمالیات بھی کہا جاتا ہے، مکارمِ اخلاق، محاسن عادات، آدابِ معاشرت وغیرہ "تحسینی امور" کی فہرست میں داخل ہے۔ (المستصفی:۱/۳۰۲۔ الموافقات:۲/۲۲۸) ترجیح کا طریقہ جومصالح خمسہ سطورِ بالا میں بیان کئے گئے ہیں ان میں اگرترجیح کی ضرورت پڑجائے توپہلے "دین" پھر"جان" پھر "عقل" اس کے بعد نسل اور سب کے آخر میں مال کواہمیت حاصل ہے؛ اگران میں بھی ترجیح کی ضرورت پیش آجائے توپہلے ضروریات؛ پھرحاجیات؛ اس کے بعد تحسینات کا درجہ ہوگا۔ (فقہ اسلامی اصول وخدمات وتقاضے:۲۴۴) مصالح مرسلہ کے قابل حجت ہونے کے دلائل فقہ کی کتابوں میں مصالح مرسلہ کے معتبر ہونے کے جودلائل بیان کئے جاتے ہیں ،ان کا خلاصہ درجِ ذیل ہے: ۱۔احکاماتِ شرعیہ مبنی برمصلحت ہے اور ممنوعات کی بنیاد مفاسد پر ہیں؛ اسی لیے مصالح قابلِ قبول ہیں اور مفاسد قابلِ رد ہیں، بقول علامہ قرافی: "فَإِنَّ أَوَامِرَالشَّرْعِ تَتْبَعُ الْمَصَالِحَ الْخَالِصَةَ أَوْالرَّاجِحَةَ وَنَوَاهِيَهُ تَتْبَعُ الْمَفَاسِدَ الْخَالِصَةَ أَوْ الرَّاجِحَةَ"۔ (کتاب الفروق،الفرق الخامس والثمانون بین قاعدۃ المندوب:۲/۲۲۶) ترجمہ:کہ شریعت کے احکام خالص یاغالب مصلحتوں کے اور ممنوعات خالص یاغالب مفاسد کے تابع ہیں۔ ۲۔دورِ صحابہ میں بہت سے ایسے فیصلے نافذ کئے گئے جومحض مبنی برمصلحت تھے، نہ اس سلسلہ میں نص تھی نہ ممانعت؛ البتہ مصلحت احکامِ شرعیہ سے ہم آہنگ تھی، مثلاً: الف:قرآن کریم کومصحف کی شکل میں جمع کرنے کا کام صحابہ کرامؓ ہی نے کیا ہے؛ حالانکہ حضورﷺ کے پاکیزہ دور میں یہ کام نہ ہوا تھا، جنگ ردت کے بعد مصلحت کی رعایت کرتے ہوئے حضرتِ عمرؓ کے مشورے سے یہ کام وجود میں آیا۔ ب:شربِ خمر کی حد ۸۰/کوڑے متعین کئے گئے؛ کیونکہ اس کے نیتجے میں فحش کلامی، بے حیائی اور قذف جیسے جرائم وقوع پذیر ہوتے ہیں، ان کے سد باب کے لیے اس طرح کا اقدام کیا گیا۔ ج:خلفاءِ راشدین نے اس پر اتفاق کیا کہ کاریگر کے پاس سے اگرکوئی چیز ضائع ہوجائے تواس پر تاوان ہوگا؛ کیونکہ ایسا نہ کرنے سے بہت ممکن تھا کہ کاریگر تحفظ کے سلسلہ میں غفلت سے کام لیتا اور اس طرح لوگوں کے املاک ضائع ہوتے رہتے۔ د:حضرت عمرؓ نے ایک آدمی کے قتل میں قاتلوں کی ایک جماعت کو سزا دی یعنی قصاص میں سب کو قتل کردیا؛ کیونکہ قتل وسازش میں وہ سب برابر کے شریک تھے؛ اگرچہ اس سلسلہ میں کوئی نص نہ تھی ؛مگرمصلحت اس کی متقاضی تھی (حیات امام احمدبن حنبلؒ:۴۰۴) اس کے علاوہ بھی بہت سے احکامات صحابہ کرامؓ نے مصلحت کی بناء پر صادر فرمائے۔ ۳۔اس طرح کی نظیریں تابعین کے دور میں بھی ملتی ہیں، جن کے دور کورسول اللہﷺ نے خیرالقرون قرار دیا تھا، اس کی سب سے واضح مثال کتبِ حدیث کی تدوین وترتیب اور حدیث کی صحت وضعف کی تحقیق کے لیے "فنِ جرح وتعدیل" کی ایجاد ہیں، اسی طرح حضرت عمر بن عبدالعزیز نے اپنے عہدِ خلافت میں خراساں کے راستے میں بیت المال کے اخراجات سے مسافروں کی سہولت کی خاطر مسافر خانوں کی تعمیر فرمائی، منی میں پختہ مکانات کی تعمیر پر پابندی عائد کردی تاکہ حجاج کے لیے تنگی کا باعث نہ ہو۔ (طبقات ابنِ سعد،ابو جعفر محمد،۵/۳۴۵) اور اس طرح کے اقدام اور ان پر اہلِ علم واصحاب افتاء اور ارباب اجتہاد کا سکوت ہی نہیں؛ بلکہ اس کوقبول کرنا مصالح مرسلہ کے احکام شریعت میں ایک اہم اصل ہونے پر دال ہیں؛ اسی وجہ سے الفاظ وتعبیر کے اختلاف کے باوجود اس پر تمام فقہاء کا اتفاق ہے؛ چنانچہ علامہ ابوزہرہ رقمطراز ہیں: "یتفق جمہور الفقہاء علی ان المصلحۃ معتبرۃ فی الفقہ الاسلامی وان کان کل مصالح یحب الاخذ بہا مادامت لیست شھوۃ ولاھوی ولامعارضۃ فیھا للنصوص تکون لمقاصد الشارع"۔ (اصول فقہ الفقہ لأبی زہرہ:۲۲۴) ترجمہ:جمہور فقہاء نے فقہ اسلامی میں مصالح کا اعتبار کیا ہے، فقہ اسلامی میں ہرایسی مصلحت کوقبول کیا جائیگا جوشہوات اور بے راہ روی سے خالی ہو اور اس کا نصوصِ شرعیہ سے تعارض نہ ہو اور وہ شارع کے مقاصد کے مطابق بھی ہو۔ مصالح مرسلہ اور ائمہ کا اختلاف مذکورہ عبارت سے تو یہ بات ثابت ہوگئی کہ مصالح مرسلہ کو تمام فقہاء نے تسلیم کیا ہے؛ لیکن ان کے حدود کیا ہیں؟ اور کس حیثیت سے فقہاء نے اس کو حجت مانا ہے، اس میں تھوڑا اختلاف نظر آتا ہے، جس کی تفصیل ذیل میں بیان کی جاتی ہے: احناف کا مسلک احناف اگرچہ صراحتا"استصلاح یامصالح مرسلہ"کی اصطلاح کو استعمال نہیں کرتے ہیں؛ مگرفقہ حنفی کے استحسان اور اس کی تفصیلات پر غور کیا جائے تویہ بات اچھی طرح واضح ہوجاتی ہے کہ احناف اسی اصطلاح کے ذریعہ سے "مصالحِ مرسلہ" یااستصلاح کے مقصد کوپورا کرتے ہیں، یہ وہی استحسان ہےجس کوعدل واصلاح کے لیے شریعت کے مقاصد عامہ اور برائیوں اور مضرتوں کے علاج سے متعلق شریعت کے اسلوبوں سے استمداد کرتے ہوئے احناف نے اختیار کیا ہے۔ (چراغِ راہ:۲۸۲) چنانچہ امام سرخسی استحسان پرروشنی ڈالتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں: "استحسان قیاس کو ترک کرنے اور ایسی چیز کے قبول کرنے کوکہتے ہیں جولوگوں کی ضرویات کے اور ان کے حال کے مناسب ہوں، بعض لوگوں نے کہا کہ استحسان ان احکام میں سہولت کی جستجو کا نام ہے جن میں عام وخاص مبتلا ہوں حاصل یہ ہے کہ استحسان دشواری کوترک کرکے آسانی کواختیار کرنے کا نام ہے اور یہ دین میں ایک اصل ہے"۔ (مبسوط للسرخسی:۱۰/۱۴۵) کیونکہ ارشادِ باری ہے: "يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَايُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ"۔ (البقرۃ:۱۸۵) ترجمہ:اللہ تم سے آسانی کو چاہتے ہیں دشواری نہیں چاہتے۔ احناف کی فقہی آراء خصوصاً استحسان پر مبنی آراء کا تجزیہ کیا جائے توان کے یہاں بھی مصالح کی رعایت مختلف ابواب فقہ میں ملتی ہیں۔ (الف)مثلاً مالِ غنیمت میں بنوہاشم کا خصوصی سہام باقی نہ رہے توابوعصمہ کی روایت کے مطابق بنوہاشم کوبھی زکوٰۃ دی جاسکتی ہے۔ (البحرالرائق:۲/۲۶۶) (ب)کوئی شخص یہ کہے کہ میرا تمام مال صدقہ ہے توصرف اموالِ زکوٰۃ ہی صدقہ میں جائیں گے؛ تاکہ اس کوخوددست درازی کے مراحل سے دوچار نہ ہونا پڑے۔ (مبسوط للسرخسی:۱۲/۹۳) (ج)زندیق کی توبہ قبول نہ ہوگی۔ (شامی:۶/۳۸۴) (د)کاریگر جومختلف لوگوں کے سامان تیار کرتا ہے ضائع ہوجانے پر ضامن ہوگا۔ (بدائع الصنائع:۴/۲۱۱) غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان ہی متعدد مسائل کودوسرے فقہاء نے مصالحِ مرسلہ کی فہرست میں جگہ دی ہے، جبکہ احناف نے انہیں استحسان کے ذیل میں شمار کیا ہے۔ شافعیہ استحسان واستصلاح ومصالح مرسلہ کے سب سے بڑے ناقد امام شافعیؒ ہیں؛ لیکن کوئی بھی فقہ جوحالات وماحول کے متغیر اور تیز ہواؤں میں سینہ سپر رہنا چاہتی ہو، اس کواس سے مفر نہیں ہے۔ (البحرالمحیط:۶/۷۷) چنانچہ مشاہدہ ہے کہ امام شافعیؒ کے بعد خود ان کے متبعین نے بتدریج مصالح مرسلہ کو فقہ اسلامی کی ایک اصل قرار دیا ہے اور اس بات کوخود امام شافعیؒ کی طرف منسوب کیا ہے؛ چنانچہ علامہ زنجانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "ذهب الشافعي رض إلى أن التمسك بالمصالح المستندة إلى كلي الشرع وان لم تكن مستندة إلى الجزئيات الخاصة المعينة جائز"۔ (تخریج الفروع علی الاصول،کتاب الجراح،مسئلہ۶،۱/۳۲۰) ترجمہ:امام شافعیؒ کی رائے ہے کہ اگرمخصوص ومقرر جزئیات کے بجائے شریعت کی کلیات ، مقاصد واصول سے ہم آہنگ ہوں توان کو بھی قبول کرلینا جائز ہے۔ ابنِ برہان کا بھی یہی خیال ہے کہ یہ بات امام شافعیؒ کی طرف منسوب ہے۔ (البحرالمحیط:۶/۷۷) امام حرمین کہتے ہیں کہ شافعیہ نے بھی مصالح کو معتبر مانا ہے جب کہ وہ شرعی اصول سے ہم آہنگ ہوں۔ (اصول امام احمد بن حنبلؒ:۴۱۹) امام غزالی رحمہ اللہ بھی تمام شرائط صحت کے ساتھ اسے معتبر قرار دیتے ہیں۔ (اصول امام احمدبن حنبلؒ:۴۱۸) گویاشوافع وحنفیہ اس بات کے قائل ہیں کہ مصالح کی ان کی شرائط کے ساتھ اجازت ہیں۔ مالکیہ مصالحِ مرسلہ اور استصلاح کی اصطلاح قائم کرنے والے فقہاء مالکیہ ہی ہیں؛ انہوں نے ہی اس سے ایک زمانہ میں بہت کام لیا ہے (تاریخ التشریع الاسلامی:۱۴۷) چنانچہ مالکیہ نے مصالح مرسلہ کواحکاماتِ شرعیہ کا ایک مستقل ماخذ اور اصل قرار دیا ہے (مالک لأبی زہرہ:۲۲۵) مصالح مرسلہ کے سلسلہ میں مالکیہ کے فتاویٰ سامنے رکھے جائیں تواندازہ ہوتا ہے کہ انہوں نے اس میں نہایت احتیاط سے کام لیا ہے اور امت کی دقتوں اور پریشانیوں کوحل کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ ۱۔مثلاً افضل شخص کی موجودگی میں کمترشخص کے ہاتھ پر فتن کے سدباب کے لیے بیعت کرلینا اور اس کی امارت کو تسلیم کرنا۔ ۲۔بیت المال خالی ہوجائے اور فوجی ضروریات کے لیے کچھ مال باقی نہ رہے توحسب ضرورت اہل استطاعت لوگوں پر مناسب ٹیکس عائد کرنا جائز ہے؛ تاکہ بیت المال حسبِ عادت جاری رہے اور ملکی ضروریات پورے ہوں۔ ۳۔اگرکسی علاقہ میں سوائے مالِ حرام کے دوسرا کوئی معاشی اور کسبی نظام نہ رہے اور حلال طریقہ سے اشیاء دستیاب نہ ہوں اور وہاں سے نقل مکانی بھی ممکن نہ ہوتو اس کے لیے حفظِ جان کے بقدر ایسی شدید ضرورت کی صورت میں استفادہ اور اس کوذریعہ معاش بنانا جائز ہے؛ لیکن اس میں حد سے تجاوز نہ ہو۔ (اصول الفقہ لأبی زہرہ:۲۲۶) حنابلہ یہ مالکی اجتہاد کا ہم نوا ہے، یعنی مصالح مرسلہ کو بجائے خود ایک اصل اور مستقل بالذات مصدر قانون تسلیم کرتا ہے، اسی وجہ سے حنابلہ کے یہاں قدم قدم پر مصالح کا اعتبار ہوتا ہے؛ چنانچہ ابوزہرہ کا قول ہے: "لِأَنَّہُ یریٰ أَنَّہُ دَاخل فِیْ بَابِ الْقِیَاسِ الصحیح"۔ (اصول الفقہ لأبی زہرہ:۲۲۶) امام احمدبن حنبلؒ مصالح مرسلہ کوقیاس صحیح کے قبیل سے مانتے ہیں لیکن حنابلہؒ کہتے ہیں کہ مصالح کا اعتبار اس وقت ہوگا جب کہ اس کے خلاف کوئی نص نہ ہو اور اس کے بغیر کوئی چارہ کار نہ ہو۔ (اصول امام احمد بن حنبلؒ:۴۳۴) ۱۔مثلاً مخنث کوشہر بدر کردینا اگرپھربھی اندیشہ ہوتو اس کوقید کرلینا؛ تاکہ لوگ اس کے فتنے میں مبتلا نہ ہوں۔ ۲۔صحابہؓ کوبرا بھلا کہنے والوں کے لیے توبہ کا وجوب اور سلطان کو معاف کرنے کی گنجائش نہ ہونا۔ ۳۔رمضان کے ایام میں شرابی پر حد کے علاوہ مزید شدت برتنا۔ ۴۔کاشتکاروں اور کاریگروں کو ضروریات کے پیشِ نظر کام کرنے پر مجبور کرنا۔ ۵۔بعض خاص حالات میں گراں فروش تاجروں پر اشیاء کی قیمت کو متعین ولازم کردینا۔ (اصول امام احمد بن حنبل:۴۳۱) یہ تمام مصالح کی خاطر ہیں اور نص ان کے خلاف نہیں ہے اور اس کی ضرورت بھی شدید ہے، شریعت کی سرسبزی وشادابی مہیا کرنے والا معتدل اور حکیمانہ اسلوب ہے جن پر فقہائے حنابلہ ومالکیہ چلے ہیں اور جو اجتہاد حنفی کے بکثرت مواقع سے اتفاق رکھتا ہے اوربعد میں فقہائے شوافع بھی اس کے ہم آواز ہوگئے؛ لہٰذا تمام قریب قریب مصالح مرسلہ کی قبولیت میں شانہ بشانہ نظر آتے ہیں۔ مصالح اور نصوص کا تعارض اگرمخصوص حالات کی وجہ سے مصالح مرسلہ اور شرعی نصوص کے درمیان ٹکراؤ پیدا ہوجائے اور نص شرعی کا کوئی ایسا حکم ہو جومصالح مرسلہ کے عین خلاف ہوتو: ۱۔اس میں کوئی شک نہیں کہ نص شرعی کے مقابلہ میں مصالح کو ترک کردیا جائے گا؛ لیکن جب اضطرار کی ایسی حالت رونما ہوجائے کہ دوبرائیوں میں سے کسی ایک کاارتکاب کئے بغیر چارۂ کار نہ ہو تواس ضرر کو اختیار کیا جائیگا جونسبتاً اس سے کمترہو جیسے کفر واسلام کا معرکہ جاری ہو اور کافر چند قیدی مسلمان کوڈھال کے طور پر استعمال کررہے ہوں، اب ایسی صورت میں نص قرآنی کی روشنی میں یہ جائز نہیں ہے کہ وہ کسی مسلمان بھائی کے خون سے اپنے ہاتھ سرخ کرے؛ لیکن دوسری طرف اگرمسلمان کی فوج ہاتھ روک لیتی ہے توصاف نظر آتا ہے کہ دشمن غالب آجائیں گے توایسی صورت میں فقط جائز ہی نہیں؛ بلکہ واجب ہوتا ہے کہ ان مسلمانوں کو نظرانداز کرکے وہ حملہ کرتے رہیں اور نیت کافروں کے مارنے کی ہو؛ کیونکہ عظیم ترضرر کے دفعیہ کے خاطر ایسا کرنا جائز ہے۔ (المستصفی:۱/۳۰۳) ۲۔اگرنص قطعی نہ ہو؛ بلکہ ظنی ہو توفقہاء کے تین نقاط منظرِعام پر آتے ہیں: الف:شوافع کاخیال ہے کہ صرف اضطرار ہی کی صورت میں مصلحت کی بنا پر نص سے کسی خاص جزئیہ اور واقعہ کا استثناء کیا جاسکتا ہے۔ (المستصفی:۱/۲۹۴) ب:حنابلہ کا نظریہ یہ ہےکہ مصلحت اس صورت میں بھی ناقابلِ قبول ہے؛ اس لیے کہ ان کے نزدیک حدیثِ ضعیف اور آثارِ صحابہ کو بھی قیاس پر ترجیح حاصل ہے۔ (اعلام الموقعین:۱/۸۴) ج:احناف اور مالکیہ کہ یہاں ایسی صورت میں مصلحت کی بناء پر نہ صرف نص کے عمومی حکم میں استثنائی صورتیں پیدا کی جاسکتی ہیں؛ بلکہ اگرنص کا ذریعہ ثبوت ظنی ہو، مثلاً حدیث خبرِواحد ہوتواس کوبھی ترک کیا جاسکتا ہے اور حقیقت یہی ہے کہ مصالح مرسلہ کی وجہ سے منصوص احکام سے استثناء یاثبوت کے اعتبار سے مشکوک اور معنی کے اعتبار سے مجمل ومبہم احادیث کو ترک کردینا نص سے پہلو تہی نہیں ہے؛ بلکہ شریعت کے اساس، مقاصد اور اس کے مسلمہ قواعد کو ایسی نصوص پر ترجیح دینا ہے۔ (مالک لأبی زہرہ:۳۹۸) مصالحِ مرسلہ پر مبنی احکام میں تبدیلی کا امکان مصالح پر مبنی اجتہادات میں یہ بات بھی ہوتی ہے کہ وہ زمانہ کے تغیرات کے سبب تبدیل پذیر ہوا کرتے ہیں، جیسے استئجار علی تعلیم القرآن اوردین کی نشرواشاعت پر متقدمین فقہاء نے عدم جواز کا فتویٰ دیا تھا؛ مگربعد کے مجتہدین نے مصالح کے پیشِ نظر جواز کا فیصلہ کیا؛ چنانچہ حالات سے تغیرپذیر اجتہادی واقتصادی مسائل کے بارے میں علامہ ابن عابدین شامیؒ تحریر فرماتے ہیں:"بہت سے ایسے مسائل ہیں جن کے بارے میں ایک مجتہد نے اپنے زمانے کے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے اور اس کی مصلحت کو نظر انداز نہ کرتے ہوئے کوئی فتویٰ دیا؛ مگرحالات نے کچھ کروٹ لی اور ماحول اس کے بالکل منافی ہوگیا اب اگراس حکم کوباقی رکھا جاتا ہے تولوگ مشقت اور ضررِ شدید کے شکار ہوں گے؛ کیونکہ نہ وہ اہلِ زماں رہے اور نہ ہی وہ عرف ومصلحت رہی جن کی بناء پر حکم کا اجراء ہوا تھا، اب اگر ان ہی احکام کوباقی رکھا جائے توشریعت کے قواعد اور اس کی عام ہدایت کی خلاف ورزی ہوگی جن کی رو سے نظامِ زندگی بہتر بنانے کے لیے اس میں سہولت اور اس سے دفع ضرر کا حکم دیا گیا ہے۔ اس لیے کتبِ فقہیہ کا جائزہ لینے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ جس فقیہ نے جوفتویٰ اپنے زمانے کی مصلحت کے پیشِ نظر دیا تھا بعد میں پھراسی مسلک پر چلنے والے دوسرے فقہاء نے مصلحت وحکمت اور زمانہ وحالات کے تغیر کے سبب اس کے خلاف فتویٰ دیا؛ کیونکہ اگروہ مجتہد اس زمانے میں ہوتے یاان حالات سے ان کو واسطہ پڑتا تواپنے ہی مسلک وقواعد کے مطابق یہی احکامات مرتب کرتے، جیسے "استئجار علی الطاعات" کا مسئلہ ہے کہ زمانہ قدیم میں اہلِ علم کے وظائف بیت المال سے مقرر ہوا کرتے تھے اس وجہ سے اس وقت عدم جواز کا فتویٰ تھا؛ مگر جیسے ہی حالات نے رُخ موڑا اور بیت المال کی طرف سے وہ انتظام نہ رہا تودین کی بقا کی ضرورت پیش آئی تواسی مکتبِ فکر کے بعد والے فقہاء نے اس مصلحت کو تسلیم کیا اور "استئجار علی الطاعت" کو جائز قرار دیا؛ حتی کہ بعد میں احنافؒ بھی اس کے قائل ہوگئے؛ حالانکہ یہ فتویٰ امام ابوحنیفہؒ کے فتویٰ کے بالکل خلاف ہے۔ (رسالۃ نشرالعرف:۱۲۵) مصلحت وقیاس میں فرق قیاس کسی اصل کوبنیاد بناتے ہوئے کیا جاتا ہے اور قیاس میں اسی کے ہم مثل قواعد کی روشنی میں بہت سی فروعات نکالی جاسکتی ہیں؛ مگرجوحکم کسی مصلحت کی بنیاد پر دیا گیا ہوتواس حکم میں اتنی سکت وقوت باقی نہیں رہتی کہ وہ اپنے بل بوتے پر دوسرے مسائل وفروعات کو انجام دیں۔ (الموسوعۃ الفقہیۃ:۳/۳۲۵) مصالح مرسلہ پر دال قواعد سابقہ تفصیلات سے واضح ہوتا ہے کہ "مصالح مرسلہ" کی بنیاد مصلحت پر ہوتی ہے اور فقہاء نےاس سے فقہ کے مختلف ابواب میں کام لیا ہے ،مصالح مرسلہ پر دال قواعد کوبھی فقہاء نے اپنی اپنی کتابوں میں جگہ دی ہے، جن میں علامہ ابنِ نجیم مصریؒ اور علامہ سیوطی رحمہ اللہ کی الاشباہ والنظائر سرِفہرست ہیں اور وہ قواعد درجِ ذیل ہیں: الف:"الضرر یزال"۔ (الاشباہ والنظائر لابنِ نجیم:۱/۲۷۳) ترجمہ:ضرر کو دور کیا جاتا ہے۔ ب:"دَفع المضرۃ اولی من جلب المنفعۃ"۔ (قواعد الفقہ:۸۱) ترجمہ:منفعت کی تحصیل کے مقابلہ میں دفع مضرت اولیٰ ہے۔ ج:"الضرورات تبیح المحذورات"۔ (الاشباہ والنظائر لابن نجیم:۱/۲۷۴) ترجمہ:مواقع ضرورت پر ممنوع چیزیں بھی مباح ہوجاتی ہے۔