انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** جنگ جمل یہ وہ وقت تھا کہ حضرت طلحہؓ اورزبیرؓ وغیرہ حضرت عثمانؓ کے قصاص کے لئے نکل چکے تھے، اس لئے حضرت علیؓ نے بھی مقابلہ کی تیاریاں شروع کردیں،جب آپ بالکل آمادہ ہوگئے،توحضرت حسنؓ کو بھی چاروناچار آپ کی حمایت میں نکلنا پڑا؛چنانچہ والد بزرگوار کے حکم کے مطابق حضرت عمار بن یاسرؓ کے ہمراہ اہل کوفہ کو ان کی امداد پر آمادہ کرنے کے لئے کوفہ تشریف لے گئے ان ہی ایام میں حضرت ابو موسٰی اشعریؓ مسلمانوں کو خانہ جنگی اورفتنہ و فساد سے روکنے کے لئے کوفہ آئے ہوئے تھے اور جامع مسجد کوفہ میں تقریر کررہے تھے کہ برادران کوفہ تم لوگ عرب کی بنیاد بن جاؤ،تاکہ مظلوم اورخوفزدہ تمہارے دامن میں پناہ لیں لوگو فتنہ اٹھتے وقت پہچان نہیں پڑتا ؛بلکہ مشتبہ رہتا ہے فرو ہونے کے بعد اس کی حقیقت ظاہر ہوتی ہے ،معلوم نہیں یہ فتنہ کہاں سے اٹھا ہے اور کس نے اٹھایا ہے، اس لئے تم لوگ اپنی تلواریں نیام میں کرلو، نیزہ کے پھل نکال ڈالو،کمانوں کے چلے کاٹ دو اورگھروں کے اندرونی حصہ میں بیٹھ جاؤ، لوگو!فتنہ کے زمانے میں سونے والا کھڑے ہونے والے سے اورکھڑا ہونے والا چلنے والے سے بہتر ہے۔ حضرت حسنؓ نے مسجد پہنچ کر یہ تقریر سنی تو حضرت ابوموسیٰ کو روک دیا اور فرمایا تم یہاں سے نکل جاؤ اورجہاں جی میں آئے چلے جاؤ اورخود منبر پر چڑھ کر اہل کوفہ کو حضرت علیؓ کی امداد پر ابھارا؛ چنانچہ آپ کی دعوت اورحجر بن عدی کندی کی تقریر پر ۹۶۵۰ کوفی حضرت علیؓ کا ساتھ دینے پر آمادہ ہوگئے،حضرت حسنؓ ان سب کو لے کر مقام ذی قار میں حضرت علیؓ سے مل گئے اور جنگ کے فیصلہ تک برابر ساتھ رہے۔(خمار الطوال :۱۵۴) جمل کے بعد صفین کا قیامت خیز معرکہ ہوا اس میں بھی آپ اپنے والد بزرگوار کے ساتھ تھے اور التوائے جنگ پر جو عہد نامہ مرتب ہوا تھا اس میں شاہد تھے۔ (مسعودی:۴/۲۶۳)