انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** امام ابوحنیفہ ؒ اور احترامِ حدیث حضرت امام ابوحنیفہؒ کا جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث سے محبت کرنا اور اس کا احترام کرنا ایک کھلی حقیقت ہے، جس سے کوئی حقیقت بیں انکار نہیں کرسکتا، چندمثالیں بطورِ نمونہ پیش کی جاتی ہیں، جن سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ حضرت امام صاحب حدیث شریف کا کس قدر احترام کرتے تھے، علامہ ذھبیؒ نے حضرت امام صاحبؒ کا قول نقل کیا ہے: "ماجاء عن الرسول صلی اللہ علیہ وسلم فعلی الرأس والعین وماجاء من الصحابۃ اخترناہ وماکان من غیرذالک فہم رجال ونحن رجال" ۱؎۔ جوبات رسول اللہﷺ سے منقول ہووہ ہمارے سراور آنکھوں پر ہے اورجوبات صحابہ کرامؓ سے منقول ہو اس کوہم اختیار کرتے ہیں اور جوبات ان حضرات کے علاوہ سے منقول ہو تواس معاملہ میں ہم دونوں برابر ہیں۔ حضرت امام طحاویؒ سے منقول ہے کہ امام ابوحنیفہؒ کسی مسئلہ میں ایک شخص سے بحث کررہے تھے، اثناءِ گفتگو میں خاموش ہوگئے توآپ کے بعض ساتھیوں نے کہا: حضرت آپ اس کوجواب کیوں نہیں دیتے؟ اس پر آپ نے فرمایا: وہ تومجھ سے جناب رسول اللہؐ کی حدیث بیان کررہے ہیں، میں اس کوکیا جواب دوں۲؎۔ اس واقعہ کومولانا ابراہیم صاحب سیا لکوٹیؒ نے بھی نقل کیا ہے، وہ آگے ارشاد فرماتے ہیں کہ امام طحاویؒ کے اس حوالہ سے صاف معلوم ہوگیا کہ حضرت امام ابوحنیفہؒ حدیث رسولﷺ کی کتنی تعظیم کرتے تھے، حدیث کے سامنے کس قدر گردن جھکادیتے تھے۳؎۔ امام حسن بن حی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: "کَانَ النعمان بن ثابت فھما عالما متشبتا فی علمہ اذاصح عندہ الخبر عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لم یعدہ الیٰ غیرہ"۴؎۔ ابوحنیفہ نعمان بن ثابت رحمۃ اللہ علیہ بڑے زیرک اور علوم شرعیہ کے ماہر تھے، آپ کوعلوم میں بڑی پختگی حاصل تھی، جب آپ کے نزدیک آنحضرتﷺ کی حدیث صحیح ثابت ہوتی تواس کے علاوہ کی طرف تجاوز نہ کرتے تھے۔ حضرت عبداللہ بن مبارکؒ فرماتے ہیں خدا کی قسم امام ابوحنیفہؒ سوائے حدیث کے رائے کواختیار کرنا جائز نہیں سمجھتے تھے۵؎، علامہ ابن حزمؒ فرماتے ہیں کہ اصحاب ابوحنیفہؒ اس بات پر متفق ہیں کہ رسول اللہﷺ کی حدیث مرسل اور حدیث ضعیف قیاس سے بہتر ہے، حدود وکفارات اور جس کی مقدار شریعت میں مقرر ہے، اس میں قیاس سے حکم لگانا جائز نہیں ہے۶؎۔ خطیب بغدادیؒ اور ابوعبداللہ بن خسروؒ نے فضیل بن عیاضؒ سے روایت کیا ہے کہ امام ابوحنیفہؒ کے پاس جب کوئی مسئلہ آتا تھا اور اس کے بارے میں کوئی حدیث صحیح ہوتی تواس کی اتباع کرتے؛ ورنہ صحابہؓ کے اقوال کی اتباع کرتے؛ اگروہ بھی نہ ملتے توتابعین کے اقوال لیتے، اخیر میں قیاس کرتے اور بہت اچھا قیاس کرتے۷؎۔ علامہ ابن قیم جوزیؒ فرماتے ہیں: اصحاب ابوحنیفہؒ اس بات پر متفق ہیں کہ ان کے نزدیک ضعیف حدیث کے ہوتے ہوئے بھی قیاس جائز نہیں، اس قاعدہ پر ان کے مذہب کی بنیاد ہے اور اسی قاعدہ سے رکوع اور سجدے والی نماز میں قہقہہ سے وضوء ٹوٹتا ہے، جنازہ کی نماز میں نہیں ٹوٹتا، نبیذِتمر سے سفر میں وضو ہوجاتا ہے، دس درہم سے کم کی چوری پر چور کا ہاتھ نہیں کٹتا، حیض کی اکثر مدت دس دن ہوتی ہے، جمعہ کی نماز میں مصر (شہر)کی قیدلگانا، کنویں کے مسئلہ میں قیاس نہ کرنا؛ حالانکہ سب میں احادیث ضعیف ہیں۸؎۔ یحییٰ بن ضریسؒ کہتے ہیں: "میں ایک مرتبہ سفیانؒ کے پاس حاضر تھا، ایک شخص آیا اور اس نے کہا کہ آپ کوامام ابوحنیفہؒ پر کیا اعتراض ہے؟ انھوں نے فرمایا: اعتراض کیا ہوتا، میں نے خود انھیں یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ میں سب سے پہلے قرآن کولیتا ہوں؛ اگرکوئی مسئلہ اس میں نہیں ملتا توپھر سنت رسول اللہﷺ میں تلاش کرتا ہوں؛ اگرکتاب اللہ اور حدیث رسول اللہﷺ دونوں میں نہیں ملتا توپھر میں آپ کے صحابہؓ کے اقوال تلاش کرتا ہوں اور ان میں جوزیادہ پسند آتا ہے، اس کواختیار کرلیتا ہوں؛ مگران کے اقوال سے باہر نہیں جاتا ہوں، جب تابعین کا نمبر آتا ہے توپھر ان کی اتباع کرنا لازم نہیں سمجھتا؛ جیسا کہ انھوں نے اجتہاد کیا، میں بھی اجتہاد کرلیتا ہوں"۹؎۔ امام نضر بن محمد مروزی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: "لم ار رجلا الزم للاثر من ابی حنیفۃ"۱۰؎۔ میں نے امام ابوحنیفہؒ سے زیادہ کسی شخص کوحدیث پر جم جانے والا نہیں دیکھا۔ شریکؒ سے منقول ہے کہ ایک مرتبہ ہم اور ابویوسفؒ امام اعمشؒ کی مجلس میں حاضر تھے؛ انھوں نے امام ابویوسفؒ سے پوچھا تمہارے رفیق ابوحنیفہؒ نے عبداللہ بن مسعودؓ کا قول "عتق الامۃ طلاقھا" کیوں ترک کیا؟ اس پر امام یوسفؒ نے جواب دیا کہ اس حدیث کی بناء پر جوآپ نے ہم سے بواسطہ ابراہیمؒ واسودؒ روایت کی ہے کہ حضرت بریرہؓ جب آزاد کی گئیں توان کواختیار دیا گیا، امام اعمشؒ یہ جواب سن کر تعجب میں پڑگئے اور فرمایا: "ابوحنیفہؒ مواضع علم کے بہترین واقف کار اور زیرک شخصیت ہیں"۱؎۔ حضرت امام ابوحنیفہؒ جب تحصیل علم کی غرض سے مدینہ منورہ پہنچے اور آپ کی ملاقات امام باقرؒ سے ہوئی توانھوں نے آپ سے فرمایا کہ تم وہی ابوحنیفہؒ ہو؟ جوہمارے دادا کی حدیثوں سے اپنے قیاس کی بناء پرمخالفت کرتے ہو؟ آپ نے جواب دیا، حضرت میرے متعلق یہ بات غلط مشہور ہوگئی ہے؛ اگراجازت ہوتوکچھ عرض کروں، ان کی اجازت ملنے پر آپ نے عرض کیا کہ عورت مرد کے مقابلہ میں کمزور ہے؛ اگرمیں قیاس سے کام لیتا توکہتا کہ وراثت میں عورت کوزیادہ ملنا چاہئے؛ اسی طرح نماز، روزہ سے افضل ہے؛ اگرمیں قیاس لگاتا توکہتا کہ حائضہ عورت پر نماز کی قضاء واجب ہے؛ حالانکہ میں روزہ کی قضاء کا فتویٰ دیتا ہوں، امام باقر رحمۃ اللہ علیہ اس تقریر سے بہت خوش ہوئے اور اٹھ کر امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی پیشانی کوچوم لیا۱۲؎۔ امام ابوحنیفہؒ حدیث صحیح کے مقابلہ میں قیاس کا مطلق اعتبار نہیں کرتے تھے؛ چنانچہ رمضان میں بھول کرکھانے پینے کے مسئلہ میں فرماتے ہیں: "لولا ماجاء فی ھذا من الآثار لامرت بالقضاء"۱۳؎۔ یعنی اگراس بارے میں آثار موجود نہ ہوتے تومیں روزہ کی قضاء کا حکم دیتا۔ ہاں یہ بات ضرور ہے کہ احادیث کے ثبوت کے متعلق امام ابوحنیفہؒ کی شرطیں نہایت سخت ہیں، جب تک وہ شرطیں پائی نہ جائیں وہ حدیث کوقابل استدلال نہیں سمجھتے تھے؛ لیکن ان شرطوں کے ساتھ جب حدیث ثابت ہوجاتی تووہ قیاس کواہمیت نہیں دیتے۱۴؎۔ مذکورہ بالا اقتباسات کی روشنی میں حضرت امام صاحبؒ کا حدیث رسولﷺ سے والہانہ عشق ومحبت اور اس کا احترام بالکل عیاں ہے، قارئین ان اقتباسات کوپڑھ کر بخوبی اندازہ لگاسکتے ہیں کہ حضرت امام صاحبؒ حدیث کا کس قدر احترام کرتے تھے اور آپ کے دل میں حدیث رسولﷺ کی کتنی عظمت تھی۔ (۱)سیراعلام النبلاء:۶/۴۰۱۔ (۲)شرح عقیدۃ الطحاویہ:۲۸۱۔ (۳)تاریخ اہلِ حدیث:۷۔ (۴)الانتقاء:۱۹۹۔ (۵)امام اعظم ابوحنیفہؒ:۱۶۲۔ (۶)الاحکام فی اصول الاحکام:۷/۵۴۔ (۷)مستدلات الامام ابی حنیفہ:۳۳۔ (۸)اعلام الموقعین:۱/۳۹۔ (۹)ترجمان السنۃ:۱/۲۲۶۔ (۱۰)الجواھرالمضیہ:۲/۲۰۱۔ (۱۱)اخبار ابی حنیفہ واصحابہ:۱۲۔ (۱۲)مناقب ابی حنیفہ:۲۲۱۔ (۱۳)سیرت ائمہ اربعہ:۱۳۵۔ (۱۴)سیرت ائمہ اربعہ:۱۳۵۔ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے دل میں محدثین کا احترام دنیا نے ایسے اشخاص کوبہت کم دیکھا ہوگا کہ ایک فن کے دوماہر ہوں اور ایک نے دوسرے کی مدح سرائی، تعظیم وتوقیر میں کوئی کسرنہ اٹھا رکھی ہو، تاریخ شاہد ہے کہ امام ابوحنیفہؒ جوخود اخلاق کے پیکر، لاجواب کردار کے مالک، قائم اللیل، صائم النہار تھے اور کثیرالفکر وفقیہ النفس تھے، فقاہت وفطانت میں ان کا کوئی ثانی نہ تھا، حافظ الحدیث بھی تھے اور فن حدیث میں امتیازی شان کے مالک تھے؛ مگراس کے باوجود دوسرے محدثین کی تعریف وتحسین میں کوئی کمی نہیں کرتےتھے، حضرت امام مالکؒ اگرچہ عمر میں ان سے تیرہ برس کم تھے؛لیکن ان کے حلقۂ درس میں بھی آپ اکثر حاضر ہوتے اور حدیثیں سماعت فرماتے تھے، علامہ ذہبیؒ نے تذکرۃ الحفاظ میں لکھا ہے کہ امام مالکؒ کے سامنے امام ابوحنیفہؒ اس طرح مؤدب بیٹھتے تھے جس طرح شاگرد استاذ کے سامنے بیٹھتا ہے۱؎۔ محدثین کی تعظیم وتکریم کی خاطر ان کی خدمت میں وقتاً فوقتاً تحفے تحائف بھی بھیجا کرتے تھے، علامہ صمیریؒ نے فضیل بن عیاض سے روایت کی ہے کہ امام ابوحنیفہؒ دادودہش، کم گوئی اور اہلِ علم کے اکرام میں مشہور تھے۲؎، قیس بن ربیعؒ فرماتے ہیں: ابوحنیفہؒ مالِ تجارت بغداد بھیجتے اور جومنافع ہوتا اسے شیوخ محدثین کے لیے ضرورت کی چیزیں خریدتے، خوراک اور لباس، غرض جملہ ضروریات کا انتظام کرتے؛ پھرجوکچھ بچ جاتا وہ نقد جملہ سامان کے ساتھ یہ کہہ کر ان کے پاس بھیجتے کہ اس کو اپنی ذات پر خرچ کیجیے اور سوائے اللہ تعالیٰ کے کسی کی تعریف نہ کیجئے؛ اس لیے کہ میں نے اپنے اموال میں سے آپ کو نہیں دیا ہے، یہ اللہ تعالیٰ کا تمہارے معاملہ میں مجھ پر فضل ہے کہ تمہاری قسمت کا نفع ہوا، یہ وہ فیض ہے، جو اللہ تعالیٰ میرے ہاتھ سے تم کوپہنچاتا ہے، یہ ظاہر ہے کہ جواللہ بخشے اس میں دوسرے کی قوت کا کیا دخل ہوسکتا ہے۳؎۔ عمر بن ابراہیمؒ کے حوالہ سے ابوعبیداللہ صمیری رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: امام ابوحنیفہؒ جب کبھی کوئی شئی اپنے اہل وعیال کے لیے لیتے تواتنی ہی رقم اکابرمحدثین پر خرچ کرتے تھے اور جب کبھی کپڑا پہنتے تومحدثین کو بھی پہناتے اور جب میوہ، کھجور وغیرہ اپنے اہل وعیال کوکھلانا چاہتے توپہلے اپنے شیوخ پر خرچ کرتے اور پھراپنے اہل وعیال کے لیے خریدتے تھے۴؎۔ آپ کومحدثین سے والہانہ عشق ومحبت اور فریفتگی تھی صدرالائمہ مکی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے: "وَمَاکَانَ یَدْعَ اَحَدًا مِنَ الْمُحَدِّثِیْنَ الابرہ براً وَاسِعًا"۵؎۔ امام ابوحنیفہؒمحدثین میں سے ہرایک کے ساتھ وسیع پیمانے پر عطیہ اور حسن سلوک سے پیش آتے تھے۔ اور آگے لکھتے ہیں: امام ابوحنیفہؒ بغداد سامانِ تجارت بھیجا کرتے تھے اور اس سے ساز وسامان خرید کرکوفہ لاتے تھے اور اس سے جوکچھ بھی سالانہ نفع ہوتا تھا اس سے اشیاخ محدثین کی ضرورت کی چیزیں اور خوراک ولباس خرید کر ان کودیا کرتے تھے۶؎۔ سفیان بن عیینہؒ سے روایت ہے کہ امام ابوحنیفہؒ کثیرالصیام والصدقات تھے، جومال بھی ان کونفع ہوتا تھا، اس کوخرچ کردیتے تھے، میرے پاس ایک مرتبہ بہت زیادہ ہدیہ بھیجا اتنا زیادہ کہ مجھ کواس کی زیادتی سے وحشت ہوئی، میں نے ان کے بعض ساتھیوں سے شکایت کی؛ انھوں نے کہا: یہ کیا ہے! اگرآپ ان تحائف کودیکھتے جنھیں وہ سعید بن عروبہ کے پاس بھیجا کرتے تھے توہرگز تعجب نہ کرتے؛ پھرفرمایا کہ کوئی محدث ایسا نہیں تھا جس کے ساتھ وہ بے پناہ احسان نہ کرتے ہوں۷؎۔ ابراہیم بن عیینہؒ بڑے محدث اور کوفہ کے رہنے والے محدث کبیر سفیان بن عیینہ کے بھائی ہیں۸؎، یحییٰ بن خالد سے روایت ہے کہ ابراہیم بن عیینہ کوایک مرتبہ اس وجہ سے قید کرنے کا حکم دے دیا گیا تھا کہ ان پرلوگوں کا قرض ہوگیا تھا، وہ اسی حالت میں امام ابوحنیفہؒ کے پاس آئے، آپ نے معلوم کیا کہ کتنا قرض ہے؟ بتلایا کہ چارہزار درہم سے زیادہ، امام صاحبؒ نے فرمایا کہ سارا قرض میں ادا کردونگا تم اطمینان رکھو؛ چنانچہ آپ نے ان کا قرض ادا کردیا۹؎۔ ابومحمدحارثی نے امام ابویوسفؒ سے روایت کی ہے کہ انھوں نے فرمایا: میں نے امام ابوحنیفہؒ سے زیادہ سخی کسی کونہیں دیکھا، میں ان سے کہتا تھا کہ میں نے آپ سے بڑھ کر سخی نہیں دیکھا، اس پر وہ فرماتے: "اگرتم میرے استاذ حماد رحمۃ اللہ علیہ کودیکھتے توایسا نہ کہتے، ابویوسفؒ نے فرمایا کہ امام ابوحنیفہؒ نے دس سال تک میرا اور میرے اہلِ وعیال کا نفقہ برداشت کیا میں نے ان سے بڑھ کراخلاق حسنہ کا جامع کسی کونہیں دیکھا"۱۰؎۔ آپ کی شان بڑی خصوصیات کی حامل تھی، محدثین کا احترام آپؒ کی خمیر میں رچابسا تھا؛ یہی وجہ ہے کہ امام جعفر صادقؒ جوآپؒ کے حدیث کے استاذ بھی ہیں، آپ ان کا اتنا احترام کرتے تھے جس کی کوئی انتہا نہیں، مولانا عینی حیدرآبادی، علامہ ذہبی کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ امام ابوحنیفہؒ، حضرت امام جعفرؒ کے بارے میں فرمایا کرتے تھے: "میری آنکھوں نے امام جعفر سے بڑھ کر کسی کو نہ دیکھا اور میرے کانوں نے آپ سے بہتر کسی سے نہ سنا اور بڑے فخرسے کہتے تھے"۔ "لولاالسنتان لھلک النعمان"۱۱؎۔ امام جعفرؒ کی خدمت میں اگرمیرے دوسال نہ گزرے ہوتے تومیں ہلاک ہوجاتا۔ ایک مرتبہ مسجد میں آپ درس دے رہے تھے، طلبا کا اژدہام تھا، حضرت امام جعفر صادقؒ کے صاحب زادے جوبہت کمسن تھے کھیلتے کھیلتے آپؒ کی طرف آگئے، آپ تعظیم کے لیے اُٹھ کھڑے ہوگئے، جب وہ وہاں سے چلے گئے توآپ بیٹھے؛ پھردوبارہ ایسا ہی ہوا توشاگردوں نے آپ سے اٹھنے کی وجہ دریافت کی، آپ نے فرمایا: دیکھتے نہیں؟ یہ امام جعفر صادقؒ کے فرزند ارجمند ہیں، ادب کا تقاضہ یہ ہے کہ ان کی تعظیم کی جائے۱۲؎۔ (۱)اخبار ابی حنیفہ واصحابہ:۴۷۔ (۲)تذکرۃ النعمان دمشقی:۲۰۴۔ (۳)اخبار ابی حنیفہ واصحابہ:۴۷۔ (۴)تذکرۃ النعمان دمشقی:۲۰۲۔ (۵)تذکرۃ النعمان دمشقی:۲۰۲۔ (۶)اخبار ابی حنیفہ واصحابہ:۴۹۔ (۷)تذکرۃ النعمان دمشقی:۲۰۲۔ (۸)تقریب التہذیب:۹۲۔ (۹)تذکرۃ النعمان دمشقی:۲۰۵۔ (۱۰)تذکرۃ النعمان دمشقی:۲۰۳۔(۱۱)امام ابوحنیفہؒ:۲۵۔ (۱۲)ہمارے حضرت امام اعظمؒ:۱۰۔