انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** فتح خیبر کے بعد فتح خیبر سے واپسی کے وقت ایک منزل پر صبح کے وقت نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھ کھلی نہ صحابہ کرامؓ میں سے کسی کی آنکھ کھلی،تمام لشکر اسلام سوتا ہی رہا اورآفتاب نکل آیا،سب سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی آنکھ کھلی سب کو بیدار کیا وہاں سے جدا ہوکر اور تھوڑے فاصلے پر جاکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اور تمام صحابہؓ نے نماز فجر ادا کی اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر اس طرح آنکھ نہ کھلے تو جب بیدار ہوا کرو،اسی وقت نماز ادا کیا کرو، یہود لوگ بڑے مالدار تھے اورخیبر کی زمینیں جو یہودیوں کے قبضہ میں تھیں خوب زرخیز اور قیمتی تھیں،فتح خیبر کے اموالِ غنیمت اورزرعی زمینیں جو مسلمانوں میں تقسیم ہوئیں تو مہاجرین کی پریشان حالی اورافلاس سب دُور ہوگیا،اب مہاجرین صاحبِ جائداد بھی ہوگئے اورانصار کی مالی امداد سے بھی اُن کو بے نیازی حاصل ہوگئی،آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس وقت تک اپنے ذات اخراجات اوراپنے اہل بیت کے لئے کسی صحابی کو تکلیف نہ دی تھی،انصار یا مہاجرین کی طرف سے اگر کبھی کوئی ہدیہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خد مت میں آتا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے بھی اُن کو ہدایا بھیجے جاتے تھے خیبر کی زمینوں سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حصے میں فدک کی جائداد آئی تھی،اسی سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے مہمانوں کی ضیافت اوربنی قریظہ کی زمین سے اپنے رشتہ داروں اور یتیموں اور مفلس مسلمانوں کی پرورش کرتے تھے،مشرکین مکہ کو جب خیبر پر مسلمانوں کی چڑھائی کا حال معلوم ہوا تو وہ بڑی بے صبری سے اس لڑائی کے نتائج کا انتظار کرنے لگے،مکہ والوں میں سے ایک شخص حجاج بن علاط سلمیؓ جو بہت مال دار شخص تھے، کسی سفر کےبہانے سے نکل کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر مسلمان ہوگئے تھے اورجنگِ خیبر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھے،بعدِ فتح انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا کہ ابھی تک مکہ والوں کو میرے مسلمان ہونے کا حال معلوم نہیں ہوا، اگر آپ اجازت دیں تو مکہ میں جاکر اپنا روپیہ جو میری بیوی کے قبضہ میں ہے اور قرضہ جو لوگوں کے ذمہ ہے وصول کرکے لے آوں ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت دے دی، حجاج بن علاطؓ مکہ میں آئے تو مکہ والوں کو خیبر کی خبر کا بے حد منتظر پایا،انہوں نے مکہ والوں کے ساتھ عجیب تمسخر کیا،اُن سے خیبر کا اصل حال بیان نہ کیا،اپنے روپے فراہم کرانے میں سب سے مدد لی، تمام روپے لے کر اور صرف عباس بن عبدالمطلبؓ کو چلتے وقت فتح خیبر کا اصل حال سنا کر مکہ سے روانہ ہوگئے،اس کے بعد کفار کو حجاج کے مسلمان ہونے اورخیبر میں مسلمانوں کے کامیاب وفتح مند ہونے کا حال معلوم ہوا تو وہ کفِ افسوس ملتے تھے اورحجاج کے اس طرح معہ دولت صاف نکل جانے پر اور بھی زیادہ متاسف تھے، خیبر سے واپس مدینہ پہنچ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام اُن قبائل کی طرف جو مسلمانوں کی بیخ کنی کی کوششوں اور سازشوں میں لگے ہوئے تھے، ایک ایک دستہ فوج ادب آموزی اوررُعب قائم کرنے کے لئے روانہ کیا تاکہ کوئی بڑی بغاوت اورخطرناک سازش سرسبز نہ ہونے پائے؛چنانچہ نجد کے قبیلہ فزارہ کی جانب حضرت ابوبکرصدیقؓ سلمہ بن الاکوعؓ اوردوسرے صحابہؓ کے ہمراہ روانہ کئے گئے،قومِ ہوازن کی طرف حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو تیس سواروں کے ساتھ روانہ کیا گیا،حضرت عبداللہ بن رواحہؓ کو تیس شتر سواروں کے ہمراہ بشیر بن دارام یہودی کی گرفتاری کے لئے بھیجا گیا جو خیبر کے یہودیوں کو بغاوت پر آمادہ کررہا تھا،بشیر بن سعد انصاریؓ تیس سواروں کے ساتھ بنی مُرہ کی سرکوبی کے لئے روانہ کئے گئے،حضرت اُسامہ بن زیدؓ کو ایک جماعت کے ساتھ قوم جہینیہ کے ایک قبیلہ حرقات کی طرف بھیجا گیا، حضرت غالبؓ بن عبداللہ کلینی کو ایک جماعت کے ساتھ قوم بنی الملوح کی تادیب کے لئے بھیجا گیا،حضرت ابی درداء ؓ سلمی کو صرف تین آدمیوں کے ساتھ قبیلہ جشم بن معاویہ کے سردار رفاعہ بن قیس کی سرکوبی کے لئے روانہ کیا،حضرت ابو قتادہؓ اورمحلمؓ بن جشامہ کو مقام النعم کی طرف روانہ کیا گیا، یہ تمام فوجی دستے کامیاب وفتح مند واپس ہوئے اورہر جگہ مسلمانوں کو فتح وکامیابی نصیب ہوئی،حضرت اُسامہ بن زید رضی اللہ عنہ نے لڑائی میں جب ایک شخص کے قتل کو تلوار اُٹھائی تو اُس نے لا الہ الا اللہ کہا مگر حضرت اُسامہؓ نے اس کو قتل کردیا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں یہ واقعہ بیان ہوا، تو آپ بہت ناراض ہوئے حضرت اُسامہ سے جواب طلب کیا گیا، انہوں نے عرض کیا کہ اُس شخص نے دھوکہ دینے اوراپنی جان بچانے کے لئے لا الا اللہ کہا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا تونے اُس کا دل چیر کردیکھ لیا تھا کہ وہ منافقت سے کلمہ پڑھتا ہے،حضرت اُسامہؓ نے توبہ کی اورآئندہ ساری عمر اس قسم کی غلطی سے محترز رہنے کا وعدہ کیا، اسی طرح حضرت ابو قتادہؓ اورمحلمؓ بن جثامہ چلے جارہے تھے کہ قوم اشجع کا ایک شخص عامر بن اضبط جواپنے مال ومتاع کے ساتھ سفر کررہا تھا ملا، عامر بن اضبط نے اس اسلامی لشکر کو دیکھ کر اسلامی طریق پر السلام علیکم کہا،مسلمانوں نے دشمن قبیلے کے شخص کو اس طرح سلام کرتے ہوئے دیکھ کر یہ سمجھا کہ اس نے اپنی جان بچانے کے مارے السلام علیکم سے فائدہ اُٹھانا چاہا ہے؛چنانچہ اس کو جواب دینے اور وعلیکم السلام کہنے میں سب کو تامل ہوا اورمحلمؓ بن جثامہ نے عامر پر حملہ کرکے اُسے قتل کر ڈالا جب یہ مہم واپس آئی اورآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس واقعہ کا حال معلوم ہوا تو سخت ناخوش ہوئے اورمحلمؓ سے کہا کہ تم نے ایک شخص کو مومن باللہ ہونے کی حالت میں کیوں قتل کیا؟ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عامر کے ورثاء کو بچاس اونٹ خوں بہا میں دے کر رضا مندکرلیا اور محلمؓ کو قصاص سے آزادی ملی۔