انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** مؤمن کے بارے میں گمان رکھنے کا مفہوم "ظنوا بالمؤمنین خیرا" (مؤمن کے بارے میں نیک گمان ہونا چاہئے) مشہور مقولہ حکمت ہے، اس کا موضوع اس کی اپنی ذات ہے، اس کی نقل وروایت نہیں،دین کا معاملہ اس سے کہیں اونچا ہے ؛کہ اسے محض نیک گمان کے سہارے قائم کرلیا جائے،اس باب میں اگر کسی گمان کو اہمیت دی جاسکتی ہے تو وہ صرف اہل فن کا گمان اور اعتماد ہے؛ انہوں نے کسی شخص کی روایت قبول کرلی ہو،(اسے صرف روایت نہ کیا ہو قبول بھی کرلیا ہو) توآپ ان پر نیک گمان کرتے ہوئے اسے قبول کرسکتے ہیں؛ لیکن اگر کسی طرح اس کی غلطی ظاہر ہوگئی، تو پھر اس نیک گمان سے دستبردار ہوجانا چاہئے،ہاں مومن کی کوئی اپنی بات جس کا تعلق اس کی ذات سے ہو دین سے یا دوسروں سے نہ ہو، تو دوسرے مسلمانوں کی پوری کوشش ہونی چاہئے کہ اس پر نیک گمان کریں اوراس کے وہی معنی مرادلیں جو اچھائی پر محمول ہوں،اس کی بات کی ایسی مراد نہ لیں جو ایک مسلمان سے توقع نہ کی جاسکتی ہو۔ "فَبَشِّرْ عِبَادِ الَّذِينَ يَسْتَمِعُونَ الْقَوْلَ فَيَتَّبِعُونَ أَحْسَنَهُ"۔ (الزمر:۱۸) ترجمہ: آپ خوشخبری دیں ان لوگوں کو جو سنتے ہیں بات پھر چلتے ہیں اس (پہلو) پر جو جو سب سے اچھا دکھائی دے احسن ہو۔ حضوراکرمﷺ نے بھی فرمایا: "فَظُنُّوا بِهِ الَّذِى هُوَ أَهْيَأُ وَالَّذِى هُوَ أَهْدَى وَالَّذِى هُوَ أَتْقَى"۔ (سنن الدارمی،باب تاویل حدیث النبی،حدیث نمبر:۶۰۲) ترجمہ :سو! اس کی نسبت گمان کرو جو زیادہ مناسب ہو،ہدایت کے زیادہ قریب ہو اورزیادہ خوف خدا پر مبنی ہو۔