انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** دہلی کے مدارسِ حدیث حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلویؒ (۱۹۲۵ھ) سے دہلی میں علمِ حدیث کا چرچا ہوا، ہندوستان کے طلبہ مختلف اطراف سے یہاں آتے اور حدیث کا درس لیتے تھے، شیخ سلیمان ابواحمد الکردی یہیں سے پڑھ کرگجرات گئے تھے، ان کے بعد دہلی میں دورۂ حدیث کی باقاعدہ شکل مدرسہ رحیمیہ سے شروع ہوئی، اس کے مدیر حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ کے والد حضرت شاہ عبدالرحیم صاحب رحمہ اللہ تھے، حضرت شاہ ولی اللہ اپنے والد سے تکمیلِ علوم کے بعد سنہ۱۱۴۳ھ میں حجاز پہنچے اور شیخ ابوطاہر محمدبن ابراہیم سے حدیث کی سند لی، مدرسہ رحیمیہ کی علمی سلطنت بلخ اور بخارا اور مصروشام تک پہنچی، حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ (۱۱۷۶ھ)، حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلویؒ (۱۲۳۹ھ)، حضرت شاہ محمداسحاق محدث دہلویؒ (۱۸۴۶ھ) یکے بعد دیگرے اس کے مسند نشین رہے، ان مسند نشینوں کے پہلو بہ پہلو جنھوں نے حدیث وتفسیر کی خدمات سرانجام دیں ان میں حضرت شاہ عبدالقادر محدث دہلویؒ (۱۲۳۰ھ)، حضرت شاہ رفیع الدین محدث دہلویؒ (۱۲۳۳ھ)، حضرت قاضی ثناء اللہ صاحب پانی پتیؒ (۱۲۲۵ھ)، شاہ اسماعیل شہیدؒ (۱۲۴۶ھ)، شاہ عبدالغنی مجددی اور مولانا مملوک علیؒ سرفہرست ہیں۔ دہلی میں انگریزی تسلط کے باعث اس مدرسہ پربھی تاخت وتاراج ہوئی؛ یہاں مولانا نذیرحسین دہلوی صاحب رحمہ اللہ کومسند نشین بنادیا گیا، مولانا نذیرحسین صاحبؒ کا مسلک حضرت شاہ محمداسحاق صاحبؒ کے مسلک سے کچھ مختلف تھا؛ لیکن دوردراز کے طلبہ اس سے واقف نہ تھے، وہ پچھلی شہرت کی بناء پربرابر اس مدرسہ کی طرف کھنچے آتے رہے، مولانا نذیرحسین کے کثرتِ تلامذہ کی وجہ ان کی شخصیت نہیں، مدرسہ رحیمیہ کی مرکزی شہرت تھی؛ یہی وجہ ہے کہ آپ کے تلامذہ میں ہرمسلک کے لوگ نظر آتے ہیں، مولانا نذیر حسین صاحب نے خود بھی حضرت شاہ محمداسحاق صاحب سے حدیث پوری نہ پڑھی تھی، اطراف سناکر سند لے لی تھی، حکومت اب اس مدرسہ سے کسی درجہ میں خائف نہ تھی؛ بلکہ اس مدرسہ میں جوفکری نزاع اور فقہی اختلاف راہ پارہے تھے، انگریز حکومت کے لیے حوصلہ افزا تھے، وہ سمجھتے تھے کہ مسلمان جس قدر فرقوں میں تقسیم ہوں گے اتنا ہی ان کا اقتدار طویل ہوگا۔ مولانا امیرعلی بن معظم علی (۱۳۳۷ھ)، صاحب مواہب الرحمن وعین الہدایہ ومترجم فتاویٰ عالمگیری، مولانا فاروق احمد چڑیاکوٹی، مولانا نذیر حسین صاحب کے خاص تلامذہ میں سے ہیں، آپ نے ان کتابوں کے ترجمے عربی دان ہونے کی وجہ سے کیئے ہیں، حنفی ہوکر نہیں، حضرت مولانا وحید الزماں (۱۳۳۸ھ) کا ترجمہ شرح وقایہ کتنا مقبول ہے؛ مگر مسلکا آپ غیرمقلد تھے اور میلان شیعیت کی طرف تھا، معلوم نہیں جماعت اہلِ حدیث انہیں اپنے بزرگوں میں سے کیوں سمجھتی ہے۔ دہلی کی اس مرکزی درسگاہ میں یہ انقلاب آیا توحضرت شاہ عبدالغنی مجددی اور مولانا مملوک علی کے تلامذہ دوسرے شہروں کی طرف رُخ کرنے لگے، اکابر اب نئے مدارس قائم کرنے کی تلاش میں نکلے؛ یہاں تک کہ دارالعلوم دیوبند، مظاہرالعلوم سہارنپور، مدرسہ شاہی مرادآباد، مفتاح العلوم مظفرنگر جیسی درسگاہیں قائم ہوئیں؛ لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ دہلی ان کی توجہ کا برابر مرکز رہا، دہلی کی مرکزی درسگاہ مدرسہ رحیمیہ گوحکومت کے تسلط میں چلی گئی تھی؛ لیکن ان حضرات نے دہلی کے دوسرے علاقوں میں حدیث کی نئی درسگاہیں قائم کرلیں اور کچھ پچھلی درسگاہوں کواور آباد کیا اور اس طرح اسی علاقہ کی ذمہ داری پوری طرح سنبھال لی، دہلی کے ان مدارسِ حدیث میں زیادہ مشہور یہ درسگاہیں ہوئیں: (۱)مدرسہ امینیہ، اس مدرسہ کی علمی عظمت کے لیے یہ جاننا کافی ہے کہ مفتی اقلیم ہند حضرت مولانا مفتی کفایت اللہ دہلوی سالہاسال اس مدرسہ کے شیخ الحدیث رہے اور دارالعلوم دیوبند کے بعد یہ درسگاہ ہے جوسالہاسال مرجع طلبہ وعلماء بنی رہی، مولانا انورشاہ صاحب بھی یہاں پڑھاتے رہے ہیں۔ (۲)مدرسہ جامع مسجد فتح پوری، دیوبند کے مشہور محدث مولانا شبیراحمدعثمانی اس مدرسہ کے شیخ الحدیث رہے، بعد میں آپ دیوبند اور ڈابھیل تشریف لے گئے، مدرسہ مسلکِ دیوبند کے مطابق تھا؛ مگرجامع مسجد فتح پوری کا نظم ان کے ہاتھ میں نہ تھا۔ (۳)مدرسہ عبدالرب دہلی، ہندوستان کے نامور عالم مولانا عبدالعلی یہیں پڑھاتے تھے۔