انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** مرابطین کی حکومت کے خاتمہ کا اثر اندلس پر دربار مرابطین کی درہمی وبرہمی کا حال سُن کر ملک اندلس کے والیوں نے جا بجا اپنی اپنی خود مختاری کا اعلان کیا جس طرح خلافت بنو امیہ کی بربادی کے بعد ملک اندلس میں طوائف الملوکی ہوگئی تھی،اسی طرح اب بھی جو شخص جس شہر یا قلعہ کا حاکم تھا وہ خود مختار فرماں روا بن بیٹھا ؛بلکہ پہلی طوائف الملوکی میں خود مختار رئیسوں کی تعداد کم اوراُن کے مقبوضہ علاقے وسیع تھے،اس مرتبہ اسلامی اندلس بہت ہی چھوٹے چھوٹے کثیر التعداد ٹکڑوں میں تقسیم ہوگیا،شہر شہر اور قصبے قصبے میں الگ الگ سلطنتیں قائم ہوگئیں اورسب نے شاہانہ خطاب و لقب اپنے لئے تجویز کرلئے ،یہاں تک بھی کچھ زیادہ افسوس کی بات نہ تھی،بشرطیکہ یہ سب ایک دوسرے کے دشمن نہ بنتے لیکن سب سے بڑی مصیبت یہ تھی کہ آپس میں ایک دوسرے کو پھاڑ کھانے پر آمادہ ہوگئے اور تمام اسلامی اندلس لڑائیوں اورہنگامہ آرائیوں کے شور وغل سے گونج اٹھا ،ایسی حالت میں عیسائیوں کے لئے تمام جزیرہ نما پر قابض ہوجانے کا زریں موقع مل چکا تھا،خود یحییٰ بن علی وائسرائے اندلس بھی قرطبہ پر قبضہ کرکے انہیں طوائف ملوک کی فہرست میں شامل ہوچکا تھا اوردوسروں سے زیادہ طاقتور نہ تھا اسی حالت میں عبدالمومن سردار موحدین نے سلطنت مرابطین کو مراقش سے مٹاکر بلا توقف اپنا ایک سپہ سالار اندلس کی طرف روانہ کیا اور ۵۴۲ ھ میں اندلس پر قابض ہوگیا اورچند روز طوائف الملوکی کے بعد اندلس اس طرح موحدین کی حدودِ سلطنت میں شامل ہوگیا۔ مرابطین کے عہد حکومت میں فقہا کا خوب زور شور تھا،یوسف اورعلی دونوں بادشاہ مالکی مذہب کے پیرو اورفقہا کے بے حد قدر دان تھے،بڑے عابد زاہد اورعلم دوست فرماں روا تھے،مگر وہ اس معاملے میں اس قدر بڑھ گئے تھے کہ فلسفہ اورعلم کلام کے جانی دشمن مشہور تھے،قاضی عیاض نے شکایت کرکے حضرت امام غزالیؒ کی تصانیف کے خلاف دربار شاہی سے احکام جاری کرادیئے تھے جن کی رو سے ہر ایک وہ شخص جس کے پاس سے امام غزالیؒ کی کوئی مصنفہ کتاب برآمد ہوکشتنی وگردن زدنی قراردیا جاتا تھا۔