انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** مسانید امام اعظم اور ان کے جامعین متقدمین میں تصنیف کے لیے آج کل کامروجہ طریقہ معمول نہیں تھا؛ بلکہ ان کی تصانیف املاء کی صورت میں ہوتی تھیں، جن کوان کے لائق اور قابل تلامذہ تعلیم وتدریس کے وقت تحریر میں لے آتے تھے اور پھر وہ تصانیف ان ہی شیوخ کی طرف منسوب کی جاتی تھیں؛ اسی طرح امام اعظمؒ کے درس حدیث کے وقت بیان کردہ احادیث کوآپ کے تلامذہ نے قلمبند کیا اور سب کویکجا کرکے کتابی شکل دے کر امام اعظمؒ کی طرف منسوب کردیا۱؎۔ چنانچہ امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی طرف جومسانید منسوب ہیں، یہ آپ کی باضابطہ تالیف نہیں؛ بلکہ آپ کے لائق تلامذہ کی جمع کردہ ہیں؛ البتہ روایات سب آپ کی ہیں۲؎۔ اگرچہ "کتاب الآثار" کی مرفوع روایات کے وہ مجموعے بھی "مسندامام اعظمؒ" کے عنوان سے ذکر کئے جاتے ہیں، جن کوامام ابویوسفؒ، امام محمدؒ وامام زفرؒ وغیرہ نے "کتاب الآثار" سے الگ کرکے مرتب کیا تھا اور وہ سب کے سب "جامع المسانید" میں شامل ہیں؛ مگراصلاً یہ عنوان امام صاحبؒ کی ان مرویات کے مجموعوں کے لیے تجویز کیا گیا، جن کوواسطہ درواسطہ سننے والوں نے خود مرتب کیا ہے، یہ مجموعے تعداد میں کتنے ہیں؟ اس سلسلہ میں سترہ کا عدد معروف ہے، جن میں سے پندرہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ "جامع المسانید" میں شامل ہیں۳؎۔ محدث محمد بن جعفر کتانی مالکی نے اپنی مشہور تصنیف "الرسالۃ المستطوفہ لبیان مشہور کتب السنۃ المشرفہ" میں کتب ستہ، مسندابوحنیفہؒ، مؤطامالکؒ، مسندشافعی اور مسنداحمد کا تفصیلی ذکر کرنے کے بعد لکھا ہے: "فھذہ کتب الائمۃ الاربعۃ وباضافتہا الی الستۃ الاولی تکمل الکتب العشرۃ التی ھی اصول الاسلام وعلیھا مدارالدین"۴؎۔ یہ ائمہ اربعہ کی کتابیں ہیں پہلی چھ کتابوں کے ساتھ دس ہوجاتی ہیں، جواسلام کی بنیادی کتابیں ہی، جن پر دین کا مدار ہے۔ اور حافظ ابوعبداللہ محمدبن علی بن حمزہ حسینی دمشقی شافعیؒ نے "التذکرۃ برجال العشرۃ" کے مقدمہ میں لکھا ہے: "مسند الشافعی موضوع لادلتہ علی ماصح عندہ من مرویاتہ وکذالک مسند ابی حنیفۃؒ"۵؎۔ مسندشافعی ان ادلہ پر مشتمل ہے، جوامام ممدوح کی مرویات میں ان کے نزدیک صحیح ہے اور یہی حال مسندابی حنیفہؒ کا ہے۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ نے بھی "قرۃ العین فی تفضیل الشیخین" میں مسندابی حنیفہؒ کوحنفیوں کی امہات کتب میں شمار کیا ہے اور تصریح کی ہے: "مسندابی حنیفہ وآثار امام محمدبنائے فقہ حنفیہ است"۶؎۔ فقہ حنفی کی بناء مسندابی حنیفہ اور آثار امام محمد پر ہے۔ مشہور شافعی المذہب امام عبدالوہاب شعرانی اپنی مشہور کتاب "المیزان الکبریٰ" میں لکھتے ہیں: "اللہ تعالیٰ نے مجھ پر احسان کیا ہے، میں نے امام اعظم کی مسانید ثلاثہ کے صحیح نسخوں کامطالعہ کیا، ان نسخوں پر حفاظِ حدیث کی تحریریں تھیں، میں نے دیکھا کہ امام اعظم ثقہ اور صادق تابعین کے سوا کسی سے روایت نہیں کرتے، جن کے حق میں حضورﷺ نے خیرالقرون میں ہونے کی شہادت دی ہے، جیسے: اسود، علقمہ، عطاء، عکرمہ، مجاہد، مکحول اور حسن بصری وغیرھم پس امام اعظم اور حضورﷺ کے درمیان تمام راوی عدول ثقہ اور مشہور اخیار میں سے ہیں، جن کی طرف کذب کی نسبت نہیں کی جاسکتی اور نہ وہ کذاب ہیں"۷؎۔ (۱)تذکرۃ المحدثین:۸۵۔ (۲)علوم الحدیث:۳۸۸۔ (۳)بدائع الصنائع:۱/۳۷۔ (۴)مقدمہ مسندامام اعظم مترجم:۱۳۔ (۵)امام اعظم امام المحدثین:۷۷۔ (۶)قرۃ العینین فی تفضیل الشیخین:۱۸۵۔ (۷)تذکرۃ المحدثین:۸۷۔ مسانید جمع کرنے والی شحصیات (۱)مسندامامحافظ ابومحمدعبداللہ رحمۃ اللہ علیہ مسندامام حافظ ابومحمدعبداللہ بن محمدبن یعقوب حارثی بخاری معروف بعبداللہ الاستاذ حنفی، مشاھیر ائمہ احناف میں سے ہیں، آپ کی ولادت سنہ۲۵۸ھ میں اور وفات ماہ شوال سنہ۳۴۰ھ میں ہوئی، شاہ ولی اللہؒ نے اپنے رسالہ "الانتباہ" میں ان کواصحاب الوجوہ میں شمار کیا ہے، اصحاب الوجوہ کا درجہ مجتہد فی المذہب اور مجتہد مطلق منتسب کے درمیان ہے، آپ نے ابوحفص صغیر سے علم فقہ حاصل کیا، طلب حدیث میں خراسان، عراق اور حجاز کا سفر کیا اور بہت سے شیوخ وقت سے علم حدیث حاصل کیا، علم حدیث میں آپ کی وسعت نظر اور معرفت فن کابڑے بڑے محدثین نے اعتراف کیا ہے، حافظ سمعانی رحمہ اللہ نے آپ کو شیخ اور مکثرالحدیث کہا ہے۸؎۔ فن رجال کے مشہور امام علامہ ذہبیؒ "تذکرۃ الحفاظ" میں لکھتے ہیں: "ماوراء النہر کے عالم اور محدث علامہ ابومحمدعبداللہ بن محمد بن یعقوب بن حارث حارثی بخاری سنہ۳۴۰ء میں وفات پا،ی، اس وقت آپ کی عمربیاسی سال تھی، آپ "الاستاذ" سے ملقب تھے، آپ نے بھی امام ابوحنیفہ کے مسند کوجمع کیا ہے"۔ حافظ ابن حجرعسقلانیؒ نے "تعجیل المنفعۃ" میں آپ کوحافظ حدیث تسلیم کیا ہے، بڑے بڑے حفاظ حدیث جیسے: حافظ ابن مندہ، حافظ ابن عقدہ اور حافظ ابوبکر جعابی فن حدیث میں آپ کے شاگرد تھے، حافظ حارثی کی جمع کردہ مسند کے سلسلہ میں محدث خوارزمی جامع مسانید میں لکھتے ہیں: "ومن طالع مسندہ الذی جمعہ للامام ابی حنیفۃ علم تبحرہ فی علم الحدیث واحاطتہ بمعرفۃ الطرق والمتون"۹؎۔ جوشخص ان کی مسند کا مطالعہ کرے گا جس میں انھوں نے امام ابوحنیفہؒ کی مرویا ت جمع کی ہیں، وہ علم حدیث میں ان کے تبحراور طرق اسانید ومتون پر ان کی نظر کی ہمہ گیری کا قائل ہوجائے گا۔ (۸)مقدمہ اعلاء السنن:۳/۱۶۸۔ (۹)سیراعلام النبلاء:۱۵/۴۲۴۔ (۲)حافظ عصرابن عقدہ رحمۃ اللہ علیہ ابوالعباس احمد بن سعید الکوفی، عقدہ ان کے والد کا لقب تھا، جونہایت صالح آدمی تھے، حافظ ذہبیؒ نے "تذکرۃ الحفاظ" میں ان کا تذکرہ ان الفاظ سے شروع کیا ہے: "ابن عقدہ حافظ العصر والمحدث البحر"۔ پھران کے حالات بیان کرتے ہوئے لکھا ہے: "الیہ المنتھیٰ فی قوۃ الحفظ وکثرۃ الحدیث وصنف وجمع والف فی الابواب والتراجم"۔ قوتِ حافظ اور کثرتِ حدیث کی ان پر انتہاء ہوگئی؛ انھوں نے ابواب وتراجم دونوں عنوانوں کے تحت تصنیف وتالیف کی اور حدیثیں جمع کیں۔ حافظ ابن الجوزیؒ "المنتظم" میں لکھتے ہیں: "یہ خود اکابر حفاظ میں سے تھے، اُن سے اکابر حفاظ ابوبکر بن الجعابی، عبداللہ بن عدی، طبرانی، ابن المظفر، دارِقطنی اور ابن شاہین نے احادیث روایت کی ہیں، ان کی ولادت سنہ۲۴۹ھ میں ہوئی اوروفات ذیقعدہ ۳۲۳ھ میں ہوئی، حافظ بدرالدین محمود عنسی شارح بخاری نے اپنی تاریخ کبریٰ میں لکھا ہے کہ صرف "ابن عقدہ کی مسندابی حنیفہ" ایک ہزار سے زائد احادیث پر مشتمل ہیں"۱۰؎۔ (۱۰)تذکرۃ الحفاظ:۳/۸۲۸۔ (۳)حافظ ابوالقاسم رحمۃ اللہ علیہ عبداللہ بن محمد بن العوام السعدی المتوفی سنہ۳۳۵ھ یہ فن حدیث میں امام نسائی اور امام طحاوی کے شاگرد ہیں، مصر میں عہدۂ قضاء پر فائز رہے، امام ابوحنیفہ کے مناقب میں ایک مبسوط کتاب لکھی ہے اور یہ مسند ابی حنیفہ بھی اس کتاب کا ایک جز ہے، اس کا قلمی نسخہ دمشق کے کتب خانہ "ظاھریہ" میں موجود ہے۔ (نصب الرایہ:۱/۴۴) (۴)حافظ محمدبن مخلد بن حفص دوری رحمۃ اللہ علیہ ان کی کنیت ابوعبداللہ اور عطاء کی نسبت سے شہرت ہے "دور" بغداد کے آخری سرے پر مشرقی جانب میں شہر کے بالائی مقام پر ایک محلہ تھا، اسی کی طرف منسوب ہیں۔ ولادت سنہ۲۳۳ھ میں ہوئی اور وفات جمادی الاخریٰ سنہ۳۳۱ھ میں پائی، فن حدیث کی تحصیل دورقی، زہیر بن بکار، حسن بن عرفہ اور امام مسلم بن حجاج وغیرہ سے کی اور ان سے دارِقطنی، ابن عقدہ اور ابن المظفر جیسے اکابرحفاظ نے اس فن کوحاصل کیا، حافظ ذہبیؒ نے "تذکرۃ الحافظ" میں ان کا تذکرہ ان لفظوں سے شروع کیا ہے: "الامام المفید الثقۃ والصلاح والاجتھاد بالطلب"۔ (تذکرۃ الحفاظ:۳/۸۲۸) یہ ثقاہت میں نیکی میں اور طلب حدیث کے لیے جدوجہد کرنے میں مشہور ہیں۔ ایک بار محدث دارِقطنی سے ان کے بارے میں سوال ہوا تو فرمانے لگے: "ثقۃ مامون"۔ (۵)حافظ اشنانی رحمۃ اللہ علیہ قاضی ابوالحسین عمر بن الحسن بن علی بن مالک شیبانی، بغدادی، اشنانی، آپ کی ولادت سنہ۲۵۹ھ میں اور وفات سنہ۳۳۹ھ میں ہوئی، آپ نے اپنے والد حسن بن علی، محمد بن عیسیٰ المدائنی، موسیٰ بن سہل الوشاء، ابوبکر الدنیا محمد بن شداد مسمعی سے علوم حاصل کیئے۔ ابن عقدہ، ابن المظفر، معافی الھروانی، دارِقطنی، ابوالحسن بن بشر، ابوالحسن بن مخلد نے آپ سے علمی تشنگی بجھائی، ملک شام میں متعدد مقامات پر منصب قضاء پر فائز رہے اور جوانی ہی سے حدیث بیان کرنا شروع کیا۔ (شذرات الذھب:۴/۲۰۸) (۶)حافظ ابن عدی رحمۃ اللہ علیہ ابواحمد عبداللہ بن عدی، جرجانی المعروف بابن القطان صاحب "کتاب الکامل فی الجرح والتعدیل" آپ کی ولادت سنہ۲۷۷ھ میں ہوئی اور وفات سنہ۳۶۵ھ میں ہوئی فن جرح وتعدیل میں ان کا بڑا شہرہ ہے، جدیث میں امام نسائی اور ابویعلی موصلی کے شاگرد ہیں، ملک معظم عیسیٰ بن ابی بکر ایوبی نے "السھم المصیب فی کبدالخطیب" میں لکھا ہے کہ حافظ ابن عدی اپنی کتاب مسندابی حنیفہ کے دیباچہ میں امام ممدوح کے مناقب بھی لکھے ہیں۔ (جامع المسانید:۲/۵۲۵) (۸)حافظ محمدبن المظفر رحمۃ اللہ علیہ ابوالحسن بغدادی سنہ۲۸۶ھ میں پیدا ہوئے اور سنہ۲۰۰ھ میں حدیث کا سماع شروع کیا، جب کہ ان کی عمرچودہ سال کی تھی، طلب حدیث میں مصر، شام اور جزیرہ عرب وعراق کاسفر کیا، امام محمد بن جریر طبری بھی ان کے اساتذہ میں شامل ہیں، دارِقطنی، ابن شاہین، ابونعیم اصفہانی وغیرہ بڑے اکابر محدثین نے ان کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کیا، حافظ ذہبیؒ نے "تذکرۃ الحفاظ" میں ان کا تذکرہ ان لفظوں میں شروع کیا: "الحافظ الامام الثقۃ محدث العراق..... جمع والف وعن ھذا الفن لم یتخلف"۔ حافظ، امام، ثقہ اور محدث عراق انھوں نے حدیثیں جمع کیں، کتابیں تالیف کیں اور اس فن کے اصول سے تجاوز نہیں کیا۔ حافظ ابن حجر عسقلانیؒ نے "تعجیل المنفعہ بزوائد الرجال الائمۃ" کے مقدمہ میں لکھا ہے کہ انھوں نے جومسندابی حنیفہ لکھی ہے، وہ حافظ ابوبکر بن المقری کی مسندابی حنیفہ کے برابر ہے، جس میں صرف امام ابوحنیفہؒ کی مرفوع احادیث درج ہیں اور وہ امام حارثی کی تصنیف سے چھوٹی ہے، آپ کی وفات سنہ ۳۷۹ھ میں ہوئی۔ (تذکرۃ الحفاظ:۳/۹۸۰) (۸)حافظ طلحہ رحمۃ اللہ علیہ حافظ طلحہ بن محمد بن جعفر الشاھد ابوالقاسم سنہ۲۹۰ھ میں پیدا ہوئے اور سنہ۳۸۰ھ میں وفات ہوئی، مشہور محدث ہیں، علامہ خوارزمی لکھتے ہیں: "کان مقدم العدول والثقات الاثبات"۔ حافظ تقی الدین سبکیؒ نے "شفاء السقام فی زیادۃ خیرالانام" میں ان کی مسند سے ایک حدیث کونقل کرتے ہوئے ان کوشاہد اور عدل جیسے الفاظ سے یاد کیا ہے، محدث خوارزمی نے اُن کی مسند کے متعلق لکھا ہے کہ وہ حروف معجم پر مرتب ہے۔ (لسان المیزان:۳/۲۱۲) (۹)حافظ ابن المقری رحمۃ اللہ علیہ ابوبکر محمد بن ابراہیم بن علی الخازن المشہور بابن المقری الاصفہانی، مشہور مصنف اور اکابر حفاظ میں سے ہیں، فن حدیث میں امام طحاویؒ کے شاگرد ہیں، حافظ ذھبیؒ نے "تذکرۃ الحفاظ" میں ان کا تذکرہ ان لفظوں سے شروع کیا ہے: "ابن المقری محدث اصبہان الامام الرجال الحافظ الثقۃ"۔ ابوالنعیم اصفہانی نے اُن کے بارے میں یہ الفاظ تحریر کئے ہیں: "محدث کبیر.... صاحب مسانید یسمع مالایحصی کثرۃ"۔ بڑے محدث ہیں اور مسند حدیثوں کے عالم ہیں اور اتنی کثرت سے حدیث کا سماع کیا ہے، جن کا شمار نہیں کیا جاسکتا۔ خود ابن المقریؒ کا بیان ہے کہ میں نے چار مرتبہ طلب حدیث میں مشرق ومغرب کا سفر کیا ہے، حافظ ذہبیؒ نے "تذکرۃ الحفاظ" میں ان کے متعلق لکھا ہے: "وقت صنف مسندابی حنیفۃ"۔ انھوں نے امام ابوحنیفہؒ کی مسند احادیث تصنیف کی ہے۔ اور حافظ ابن حجرعسقلانیؒ نے "تعجیل المنفعہ" کے مقدمہ میں بیان کیا ہے کہ ان کی تصنیف سے حارثی کی تصنیف چھوٹی ہے اور صرف مرفوع روایات پر مشتمل ہے۔ (سیراعلام النبلاء:۱۶/۳۹۸) (۱۰)حافظ دارِقطنی رحمۃ اللہ علیہ محدث ابوالحسن علی بن عمر بن احمد بن مہری بغدادی شافعی، بغداد میں دارِقطن محلہ کے رہنے والے تھے، ولادت سنہ۳۰۶ھ میں ہوئی اور وفات سنہ۳۸۵ھ میں، آپ نے خلق کثیر سے سماع کیا، علم حدیث کی تحصیل کے لیے شام اور مصر کا سفر کیا، امام شمس الدین بن احمد بن عثمان ذہبیؒ ان کے بارے میں فرماتے ہیں: "وکان بحور العلم ومن ائمۃ الدنیا انتھیٰ الیہ الحفظ ومعرفۃ علل الحدیث ورجالہ"۔ (مقدمہ سنن دارقطنی:۱/۷) آپ علم کے سمندر اور بڑے مشہور امام تھے، حدیث شریف کے حفظ، علل حدیث سے واقفیت اور رجال حدیث کی معرفت میں آپ کا کوئی ثانی نہیں تھا، دارِقطنی نے امام ابوحنیفہؒ کی جومسند لکھی ہے اس کا نسخہ خطیب بغدادی کے پاس موجود تھا۔ (۱۱)حافظ ابن شاہین رحمۃ اللہ علیہ ابوحفص عمربن احمد عثمان بغدادی مشہور واعظ ہیں، ان کوابن شاہین سے لوگ جانتے تھے، ولادت سنہ۲۹۷ھ میں اور وفات سنہ۳۸۵ھ میں ہوئی، صاحب تصانیف تھے، خود ان کا بیان ہے کہ میں نے تین سو تیس کتابیں لکھی ہیں، حافظ ذہبیؒ نے ان کا تذکرہ ان لفظوں میں شروع کیا ہے: "ابن شاہین الحافظ المفید المکثر محدث العراق صاحب التصانیف"۔ انہوں نے امام ابوحنیفہؒ کی جومسند لکھی ہے، اس کا ذکر محدث کوثریؒ نے "تانیب الخطیب" میں کیا ہے اور محدث خطیب بغدادی کے پاس اس کا نسخہ موجود تھا۔ (تذکرۃ الحفاظ:۳/۹۸۷) (۱۲)احمد بن عبداللہ بن احمد بن اسحاق مہرانی رحمۃ اللہ علیہ صوفی، شافعی، ولادت سنہ۳۳۶ھ میں اور وفات ماہ محرم سنہ۴۳۰ھ میں ہوئی، مشہور مصنف اور محدث ہیں، صغرسنی ہی میں مشائخ حدیث سے روایت حدیث کی اجازت مل چکی تھی، حافظ ذہبیؒ نے لکھا ہے: "تہیا لہ من لقی الکبار مالم یقع لحافظ"۔ بڑے بڑے لوگوں سے جس قدر ان کوملاقات میسر ہوئی، کسی حافظ حدیث کونہ ہوسکی۔ ذہبیؒ نے ان کا تذکرہ ان لفظوں میں شروع کیا ہے: "ابونعیم الحافظ الکبیر"۔ محدث العصر، مولانا ابوالوفا افغانی اپنے مکتوب گرامی میں لکھتے ہیں کہ ابونعیم نے چھوٹی سی مسندابی حنیفہؒ لکھی؛ مگربہت عمدہ لکھی، بڑی تحقیق کی، متابعات ذکر کیئے، تفرد کوبتایا، رواۃ کے اوہام کوبھی بتایا۔ (جامع المسانید:۲/۳۹۱) (۲۱)حافظ ابن القیسرانی رحمۃ اللہ علیہ ابوالفضل محمد بن طاھر بن علی المقدسی المعروف بابن القیسرانی، ولادت ۴۴۸ھ میں ہوئی اور وفات ماہ ربیع الاوّل سنہ۵۰۷ھ میں ہوئی، بہت بڑے حافظ حدیث گزرے ہیں، طلب حدیث میں اتنے پھرے کہ دومرتبہ پیشاب سے خون آنے لگا، یہ برہنہ پابغیر سواری کے سفر کرنے کا نتیجہ تھا، حافظ ذہبیؒ نے آپ کے حالات کوتفصیل سے قلمبند کیا ہے، جوان لفظوں سے شروع ہوتے ہیں: "کان ثقۃ حافظاً عالماً بالصحیح والسقیم حسن المعرفۃ بالرجال والمتون کثیرالتصانیف"۔ ثقہ تھے، حافظ حدیث، صحیح وغیرصحیح کے عالم تھے، رجال ومتون حدیث کی بڑی معرفت تھی، کثیرالتصانیف تھے۔ انھوں نے "اطراف حدیث ابی حنیفۃ" کے نام سے ایک کتاب لکھی ہے، اس کتاب کا ذکر ان کی مشہور تصنیف "الجمع بین رجال الصحیحین" کے آخر میں (جوان کا مفصل تذکرہ چھپا ہےاس میں) موجود ہے، اطراف پرجوکتابیں لکھی جاتی ہیں، ان میں متن حدیث کے ابتدائی ٹکڑے کومع سند بیان کرتے ہیں؛ اس لیے بظاھر یہ معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے اس کتاب میں امام ابوحنیفہؒ کی مختلف مسانید سے ان کی حدیثوں کے اطراف کولے کر جمع کیا ہے۔ (سیراعلام النبلاء:۱۹/۳۶۱) (۱۴)حافظ ابن خسرو رحمۃ اللہ علیہ ابوعبداللہ حسین بن محمدبن خسروبلخی نزیل بغداد متوفی ۵۲۲ھ بڑے پایہ کے محدث گزرے ہیں، فن حدیث میں حافظ ابن عساکر کوآپ سے شرف تلمذ حاصل ہے، حافظ ذہبیؒ نے میزان الاعتدال میں "محدث مکثر" لکھا ہے اور حافظ ابن النجار نے "تاریخ بغداد" کے تکملہ میں اُن کا تذکرہ ان لفظوں سے شروع کیا ہے: "ابوعبداللہ السمسارالحنفی مفید اھل بغداد فی وقتہ سمع الکثیر وبالغ فی الطلب حتی یسمع من طبقہ دون ھؤلاء.... وکتب الکثیر من الکتب لنفسہ ولغیرہ وکان مفیداً للغرباء وجمع مسند ابی حنیفۃ"۔ انھوں نے طلبِ حدیث میں بڑی کوشش کی؛ حتی کہ ان شیوخ سے جونیچے کے طبقے کے تھے ان سے بھی حدیثیں سنیں اور بہت سی کتابیں اپنے لیے اور دوسروں کے لیے لکھیں، باہر سے آنے والوں کوافادۂ علمی فرماتے اور انھوں نے امام ابوحنیفہ کی مسند بھی تالیف کی ہے۔ (جامع المسانید:۲/۴۳۴) (۱۵)مسندالدنیارحمۃ اللہ علیہ قاضی ابوبکر محمدبن عبدالباقی بن محمدانصاری حلبی البزار المعروف بقاضی المرستان، ولادت سنہ۲۴۴ھ میں اور وفات ماہ رجب سنہ۵۳۵ھ میں ہوئی، حافظ ذہبیؒ نے تذکرۃ الحافظ میں شیخ الاسلام ابوالقاسم اسماعیل اصفہانی کے تذکرہ سنہ۵۳۵ھ کی وفیات کے ذیل میں اُن کا ذکر کیا ہے "طبقات الحنابلہ" میں ان کا مفصل تذکرہ موجود ہے، یہ مشہور محدث تھے، ترانوے سال کی عمرتک ان کے حواس میں ذراتغیر نہیں ہوا تھا، سات سال کی عمر میں قرآن پاک حفظ کرلیا تھا، بہت سے علوم کے جامع تھے، حافظ ابن حجرعسقلانیؒ لسان المیزان میں حافظ ابن خسرو کے تذکرہ میں اس امر کے ماننے سے انکار کیا ہے کہ قاضی صاحب نے امام ابوحنیفہؒ کی کوئی مسندتالیف کی؛ حالانکہ خود ان کے نامور شاگرد حافظ شمس الدین سخاوی قاضی صاحب موصوف سے ان کی مسند کودرج ذیل سند سے روایت کرتے ہیں: "عن التدمری عن المیدومی عن النجیب عن ابن الجوزی عن جامع المسند قاضی المرستان"۔ (سیراعلام النبلاء:۲۰/۲۳) محدث خوارزمی نے بھی جامع المسانید میں اس کتاب کی متعدد سندیں اپنے سے لے کر قاضی مرستان تک ذکر کی ہے۔ (۱۶)حافظ ابنِ عساکررحمۃ اللہ علیہ ثقۃ فی الدین ابوالقاسم علی ابن الحسن بن ہبۃ اللہ دمشقی شافعی، نہایت مشہور مصنف اور نامور محدث ہیں، آپ کی ولادت سنہ۴۹۹ھ میں اور وفات سنہ۵۷۱ھ میں ہوئی ، حافظ ذہبیؒ نے تذکرۃ الحفاظ میں اُن کا تذکرہ ان لفظوں سے شروع کیا ہے: "ابن عساکر الامام الحافظ الکبیر محدث الشام فخرالائمۃ صاحب التصانیف والکتب"۔ تیرہ سوشیوخ سے علم حدیث حاصل کیا، جن میں اسی سے زیادہ محدثہ خواتین بھی داخل ہیں، حافظ ذہبیؒ نے ان کا تذکرہ نہایت بسط کے ساتھ کیا ہے، حافظ ابن عساکر نے امام ابوحنیفہؒ کی جومسند تالیف کی ہے، اس کا ذکر محدث کوثری اور ڈاکٹر کرد علی نے بھی کیا ہے۔ (الاعلام:۴/۲۷۳) (۱۷)علامہ سخاوی رحمۃ اللہ علیہ حافظ ابوالخیر شمش الدین محمدبن عبدالرحمان بن محمدالسخاوی نے بھی مسند جمع کیا ہے، آپ علم تفسیر، حدیث اور ادب کے ماہر تھے، قاھرہ میں سنہ۸۱۲ھ میں ولادت ہوئی اور مدینہ منورہ میں سنہ۹۰۲ھ میں وفات ہوئی۔ (علوم الحدیث:۳۹۰) (۱۸)محدث عیسیٰ جعفری مغربی رحمۃ اللہ علیہ آپ کی ولادت سنہ۱۰۲۰ھ میں اور وفات ۱۰۸۰ھ میں ہوئی، آپ کا نسب اس طرح ہے، عیسیٰ بن محمد بن احمد، اور جعفر بن ابی طالب کی طرف نسبت کی وجہ سے جعفری کہلاتے ہیں، اپنے زمانہ کے اکابر فقہاء مالکیہ میں سے تھے، تحصیلِ علم کے لیے بہت زیادہ اسفار کئے، محدثین متأخرین میں سے ہیں، شاہ ولی اللہ صاحبؒ نے "انسان العین فی مشائخ الحرمین" میں ان کا ؒذکرہ ان لفظوں میں کیا ہے: "یکے ازعلماء متقنین بود، ووے استاد جمہور اہلِ حرمین است ویکے از اوعیہ حدیث"۔ آپ علماء متقنین میں شمار ہوتے تھے اور سارے اہلِ حرمین کے استاذ تھے، حدیث کی حفاظت میں ان کا بلند مقام تھا۔ محدث عیسیٰ نے جس شان کی امام ابوحنیفہ کی مسندتالیف کی ہے اور جن شروط کا اس میں اہتمام کیا وہ خود شاہ موصوفؒ ہی کی زبانی سننے کے لائق ہیں: "مسندبرائے امام ابوحنیفہ تالیف کردہ درآنجا عنعنہ متصلہ ذکر کردہ درحدیث ازآنجان بطلان زعم کسانیکہ گویند سلسلہ حدیث امروز متصل نماندہ وضاح ترمی گردد"۔ (انسان العین، بحوالہ: مقدمہ مسندامام اعظمؒ:۵) انھوں نے امام ابوحنیفہؒ کی ایک ایسی مسند تالیف کی ہے کہ جس میں اپنے سے لے کر امام موصوف تک حدیث کے اتصال سند کوبیان کیا ہے اور یہاں سے ان لوگوں کے دعویٰ کا باطل ہونا خوب ظاھر ہوتا ہے، جویہ کہتے ہیں کہ حدیث کا سلسلہ آج متصل نہیں رہا۔ (۱۹)ابی اسماعیل انصاری رحمۃ اللہ علیہ حافظ ابواسماعیل عبداللہ بن محمدانصاری حنفی نے بھی مسند جمع کیا ہے، ان کی وفات سنہ۲۳۱ھ میں ہوئی۔ (علوم الحدیث:۳۹۰) (۲۰)مسندابی علی البکری رحمۃ اللہ علیہ (علوم الحدیث:۳۹۰) جامعین کے سلسلہ میں اختصار کے ساتھ جوذکر کیا گیا ہے، اس سے واضح ہے کہ امام ابوحنیفہؒ کے مسانید کوجمع کرنے والے سب کے سب حفاظ حدیث ہیں اور ان کا زمانہ امام صاحب کے تلامذہ کے عہد سے لے کر گیارہویں صدی تک پھیلا ہوا ہے، یہ سارے کے سارے احناف ہی نہیں؛ بلکہ بعض شوافع اور بعض حنابلہ ومالکیہ میں سے ہیں اور ان میں سے متعدد محدثین صف اوّل کی شخصیات میں سے ہیں، مثلاً ابن عدی، ابونعیم، دارِقطنی، ابنِ عساکر، سخاوی، ابن شاھین۔ (علوم الحدیث:۳۹۲) معروف مسانید امام صاحبؒ کے مذکورہ مسانید میں بقول شاہ عبدالعزیز دہلویؒ دومسانید زیادہ معروف ہیں، ایک "مسندحارثی" دوسرے "مسندابن خسرو" چنانچہ حسینی اور ابن حجر نے اُن کے ہی رجال کے تراجم کو ذکر کیا ہے۔ (حیات امام ابوحنیفہؒ:۲۷۱) جامع المسانید یہ ان مشاہیر ائمہ محدثین کا ذکر تھا، جن میں سے ہرایک نے امام ابوحنیفہ کی احادیث کومستقل تصانیف میں اپنی اسانید کے ساتھ جمع کیا ہے، بعد میں قاضی القضاءۃ محدث ابوالمؤید محمد بن محمود خوارزمی متوفی سنہ۶۵۵ھ نے "جامع المسانید الامام اعظم" میں امام اعظم ابوحنیفہؒ کی پندرہ مسانید کوجمع کرنے کی کوشش کی ہے؛ چنانچہ وہ جامع المسانید کے دیباچہ میں لکھتے ہیں: "میں شام کے بعض جاہلوں کویہ کہتے ہوئے سنا کہ امام ابوحنیفہؒ کی کوئی مسند نہیں اور وہ میں نے چاہا کہ امام ممدوح کی ان پندرہ مسانید کوجنھیں نامور علماء محدثین نے مرتب کیا ہے، یکجا جمع کردوں"۔ چنانچہ ابوالمؤید محمد بن محمود خوارزمیؒ حنفی نے تمام مسانید کویکجا کرکے جامع المسانید سے موسوم کیا ہے، جودوجلدوں میں اور چالیس ابواب پر مشتمل ہے، پہلے باب میں امام صاحبؒ کے مناقب، دوسرے باب میں اپنی مسانید کوذکر کرنے کے بعد تیرے باب میں مرویات کا سلسلہ شروع کیا ہے، ابواب کی ترتیب فقہ کے مطابق ہے؛ البتہ پہلا باب ایمان سے متعلق ہے اور آخری باب میں کتاب کے رجال کے احوال ذکر کئے گئے ہیں۔ (ذیل کشف الظنون:۲/۱۶۸۰) مختصرات (۱)متعدد محدثین نے "مسانید امام اعظم" کا اختصار کیا ہے، جس کا نام ہے "اختیار اعتماد المسانید فی اختصار اسماء الرجال الاسانید"۔ (۲)حافظ ابوبکر جعفر عمربن احمد بن شجاع حلبیؒ شافعی متوفی سنہ۹۳۶ھ نے بھی اختصار کیا ہے، جس کا نام ہے: "لفظ المرجان فی مسند النعمان"۔ (۳)جمال الدین محمد بن احمدقونوی دمشقی حنفی نے بھی اختصار کیا ہے جس کا نام: "المعتمد فی مختصر المسند" ہے۔ (۴)ابوالبقاء احمدبن ابی ضیاء محمدقریشی مکیؒ نے بھی اختصار کیا ہے، جس کا نام "المستند فی مختصر المسانید" ہے۔ (۵)محمد بن عباد خلاطی م۶۵۹ھ نے بھی اختصار کیا ہے، جس کا نام "مقصد المسند" ہے۔ (۶)ابوعبداللہ محمد بن اسماعیل بن ابراہیم حنفیؒ نے بھی اختصا رکیا ہے، جس کا نام ہے "مختصرالمسند"۔ (۷)محمد بن محمدبن عبدالرزاق بلگرامی متوفی سنہ۱۲۰۵ھ نے بھی خاص انداز میں جامع المسانید کا اختصار کیا ہے، جس کا نام "عقود الجواھر المنیفہ فی ادلۃ الامام ابی حنیفہ" ہے۔ (ذیل کشف الظنون:۲/۱۶۸۱) ترتیب وتبویب مسندکے متعلق معروف ہے کہ مسند کی ترتیب حضراتِ صحابہؓ کے اسماء کے اعتبار سے ہوتی ہے ابواب فقہیہ کے مطابق نہیں، اس کی وجہ سے کسی موضوع ومسئلہ سے متعلق کسی روایت کی تلاش میں زحمت ہوتی ہے، اس لیے متعدد حضرات نے مسانید کوابواب فقہیہ کے مطابق جمع کیا گیا ہے؛ جیسا کہ علامہ زبیدی اپنے مختصر کواسی انداز پر مرتب کیا ہے، شیخ محمدبن عابد سندھی حنفی متوفی سنہ۵۷۲۱ھ نے حصکفی کے مختصر کوابواب فقہیہ پر مرتب کیا ہے اور حافظ قاسم بن قطلوبغانے مسند حارثی اور مسند ابن مقری کومبوب ومرتب کیا ہے، اخیر میں مولانا ادریس صاحب بلگرامی ندوی نے "تحصیل المرام بتبویب مسندالامام" کے نام سے مسند کومرتب کیا ہے۔ (مقدمۂ مسندامام اعظمؒ مترجمہ:۹) شروح شیخ قاسم بن قطلوبغا متوفی سنہ۸۷۹ھ نے جامع المسانید کی دوجلدوں میں شرح کی ہے؛ نیزامام سیوطیؒ نے بھی شرح لکھی ہے، جس کا نام "التعلیقۃ المنیفۃ فی شرح مسندابی حنیفۃ" رکھا، علامہ زبیدی نے بھی اپنے مختصر کی شرح کی ہے، ملا علی قاریؒ متوفی سنہ۱۰۱۴ھ نے مسند حصکفی کی شرح کی ہے، جس کا نام "مسندالانام فی شرح مسندالامام" ہے، جمال الدین محمود بن احمد قونوی نے بھی خود اپنے مختصر کی شرح کی ہے، شیخ عابد سندھیؒ نے مسند حصکفی کی ترتیب کے بعد اس کی نہایت ضخیم مفید شرح لکھی ہے، اس مسند کی شرح مولانا محمدحسن صاحب سنبھلیؒ متوفی سنہ۱۳۰۵ھ نے بھی کی ہے، جس کا نام "تنسیق النظام فی شرح مسندالامام" ہے، یہ شرح بھی مفید ہے، ان میں سے سے زیادہ ضخیم شرح عابد سندھیؒ کی ہے، جس کے متعلق مولانا عبدالرشیدنعمانیؒ فرماتے ہیں کہ فتح الباری کے علاوہ اس شان کی کوئی شرح شروحِ حدیث میں نہیں ہے۔ (ذیل کشف الظنون:۲/۱۶۸۰۔۱۶۸۱)