انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** جنت کی نعمتیں دنیا کے مشابہ ہوں گی؟ کوئی نعمت دنیا کی جنت کی نعمت کے مشابہ نہ ہوگی: حدیث:حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جنت میں کوئی چیز دنیا کی چیزوں کے مشابہ نہیں ہوگی صرف ناموں میں مشابہ ہوگی۔ (صفۃ الجنۃ ابونعیم:۱۲۴) جنت کی کوئی چیز ایک دوسری کے مشابہ نہ ہوگی: آیت وَأُتُوا بِهِ مُتَشَابِهًا (البقرۃ:۲۵) کی تفسیر میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ جنت میں کوئی چیز کسی دوسری چیز کے مشابہ نہیں ہوگی۔ (صفۃ الجنۃ ابونعیم:۱۲۵) حضرت مجاہد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جنت کی چیزیں دیکھنے میں ایک دوسرے سے ملتی جلتی ہوں گی؛ مگرذائقہ میں مختلف ہوں گی۔ (صفۃ الجنۃ ابونعیم:۱۲۶۔ تفسیر طبری:۱/۱۷۳) دیکھنے میں پہلے جیسی، لذت میں نئی: حضرت ضحاک بن مزاحم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اللہ عزوجل کا دوست اپنے محل میں (نعمتوں میں) مصروف ہوگا کہ اس کے پاس اللہ تعالیٰ کی طرف سے قاصد حاضر ہوگا اور اجازت مانگ کردینے والے خادم سے کہے گا کہ اللہ عزوجل کے قاصد کے لیے اللہ تعالیٰ کے دوست سے اجازت لیکر آؤ تو وہ (آکر) عرض کریگا کہ اے دوست خدا! یہ اللہ تعالیٰ کے قاصد آئے ہیں (چنانچہ وہ اجازت کے ساتھ) جنتی کے سامنے ایک تحفہ پیش کریگا اور عرض کریگا اے ولی اللہ! آپ کا پروردگار آپ کوسلام کہتا ہے اور حکم فرماتا ہے کہ آپ اسے تناول فرمائیں یہ ہدیہ اس طعام کے مشابہ ہوگا جس کوجنتی نے ابھی ابھی تناول کیا ہوگا اس لیے وہ کہے گا میں نے اسے ابھی تناول کیا ہے تووہ کہے گا آپ کا رب آپ کوحکم دیتا ہے کہ آپ اس سے تناول کیجئے تووہ جب اس کوتناول کریگا تواس میں جنت کے ہرپھل کی لذت سے لطف اندوز ہوگا اسی کے متعلق اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے وَأُتُوا بِهِ مُتَشَابِهًا یعنی ان کوملتی جلتی نعمت دی جائے گی۔ (صفۃ الجنۃ ابن ابی الدنیا:۲۰۰) فرشتے سلام کریں گے: حدیث: حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: يَقُولُ اللَّهُ، عَزَّوَجَلَّ لِمَنْ يَشَاءُ مِنْ مَلاَئِكَتِهِ: ائْتُوهُمْ فَحَيُّوهُمْ، فَتَقُولُ الْمَلاَئِكَةُ: نَحْنُ سُكَّانُ سَمَائِكَ وَجِيرَتُكَ مِنْ خَلْقِكَ، أَفَتَأْمُرُنَا أَنْ نَأْتِىَ هَؤُلاءِ، فَسَلِّمَ عَلَيْهِمْ؟ قَالَ: إِنَّهُمْ كَانُوا عِبَادًا يَعْبُدُونِى وَلاَيُشْرِكُونَ بِى شَيْئًا، قَالَ: فَتَأْتِيهِمْ عِنْدَ ذَلِكَ، فَيَدْخُلُونَ عَلَيْهِمْ مِنْ كُلِّ بَابٍ: ﴿ سَلاَمٌ عَلَيْكُمْ بِمَا صَبَرْتُمْ فَنِعْمَ عُقْبَى الدَّارِ﴾ (الرعد:۲۴)۔ (صفۃ الجنۃ، ابونعیم:۹۲۔ حاکم:۲/۷۰) ترجمہ: اللہ عزوجل اپنے فرشتوں میں سے جس کے لیے پسند کریں گے ان سے فرمائیں گے کہ آپ جنتیوں کے پاس جائیں اور ان کوسلام کریں، تووہ فرشتے عرض کریں گے ہم آپ کے آسمان پررہنے والے اور آپ کی مخلوق میں سے آپ کے پڑوسی ہیں آپ پھربھی ہمیں حکم دیتے ہیں کہ ہم ان کے پاس جاکر ان کوسلام پیش کریں؟ تواللہ تعالیٰ فرمائیں گے کہ یہ میرے وہ بندے ہیں جنہوں نے میری بندگی کی اور میرے ساتھ کسی کوشریک نہیں کیا تھا، حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ پھراس وقت یہ فرشتے ان کے پاس آئیں گے اور ان کے سامنے ہردروازے سے داخل ہوکر کہیں گے سَلاَمٌ عَلَيْكُمْ بِمَا صَبَرْتُمْ فَنِعْمَ عُقْبَى الدَّارِ (تم پرسلام ہو اس کے بدولت کہ آپ نے اللہ کی اطاعت میں صبر کیا) اپنی خواہشِ نفس کی آسانیاں اور دنیاوی خواہشات کوکنٹرول میں رکھا؛ پس اس جہاں میں تمہارا انجام بہت نیک ہے۔ فرشتے اجازت لیکر آسکیں گے: حضرت مجاہد رحمۃ اللہ علیہ آیت قرآنی وَإِذَارَأَيْتَ ثَمَّ رَأَيْتَ نَعِيمًا وَمُلْكًا كَبِيرًا (الدھر(الإنسان):۲۰) کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ سلطنت عظیم ہوگی حتی کہ ان کے پاس فرشتے بھی داخل نہیں ہوسکیں گے؛ مگراجازت لیکر۔ (صفۃ الجنۃ ابن ابی الدنیا:۱۹۸) فائدہ:آیت مذکورہ کی یہی تفسیر حضرت کعب احبار رحمہ اللہ سے بھی منقول ہے۔ (تفسیر ابن جریر:۲۹/۱۱۹) خوش الحانی کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا ذکر اور اس کا سماع: اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: فَأَمَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ فَهُمْ فِي رَوْضَةٍ يُحْبَرُونَ۔ (الروم:۱۵) ترجمہ:پس جولوگ ایمان لائے انہوں نے اچھے اعمال کئے تووہ جنت میں مسرور ہوں گے۔ حضرت یحییٰ بن ابی کثیر فِي رَوْضَةٍ يُحْبَرُونَ کی تفسیر جنت میں سماع سے کرتے ہیں۔ (البعث والنشور:۴۱۹) حسین ودلکش آواز میں حضرت داؤد علیہ السلام کی حمد سرائی سنیں گے، آیتِ قرآنی: لَهُ عِنْدَنَا لَزُلْفَى وَحُسْنَ مَآبٍ۔ (ص:۲۵) (حضرت داؤد علیہ السلام کے لیے ہمارے پاس قرب کا مرتبہ ہے اور لوٹ جانے کی بہترین جگہ ہے) اس آیت کی تفسیر میں حضرت مالک بن دینار رحمہ اللہ فرماتے ہیں قیامت کے دن حضرت داؤد علیہ السلام کوعرش کے پائے کے پاس کھڑا کیا جائے گا اور ان کوحکم دیا جائے گا کہ اے داؤد! اس حسین اور نرم ونازک آواز میں میری بزرگی بیان کرو جس طرح سے دنیا میں بیان کیا کرتے تھے، وہ عرض کریں گے اے رب! کیسے حمدکروں آپ نے تومیری خوش الحانی واپس لے لی ہے؟ تواللہ تعالیٰ فرمائیں گے میں اس کوآج پھرواپس کرتا ہوں؛ چنانچہ حضرت داؤد علیہ السلام ایسی ایسی آواز کے ساتھ حمد ادا کریں گے کہ جنت کی نعمتوں کوبھی بھلادیں گے۔ (زہد امام احمد وحکیم ترمذی وابن المنذر وابن ابی حاتم، الدرالمنثور:۵/۳۰۵۔ البدورالسافرہ:۲۰۹۴) نوٹ: حضرت داؤد علیہ السلام جنت میں بھی خوبصورت آواز میں اللہ تعالیٰ کی تسبیح وتہلیل بجالائیں گے تفصیل کے لیے اللہ کی زیارت کا باب ملاحظہ کریں۔ لڑکیوں کی آواز میں ترانہ حمد: حضرت سعید بن جبیر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تم ہم سے سوال کرو؛ کیونکہ تم ہم سے کسی ایسی چیز کا سوال نہیں کروگے مگرہم نے اس کے بارے میں پوچھ رکھا ہے توایک شخص نے عرض کیا: کیاجنت میں نغمہ سرائی ہوگی؟ آپ نے فرمایا: کستوری کے کوزے ہوں گے جن کے پاس لڑکیاں ہوں گی جواللہ تعالیٰ کی ایسی آواز میں بزرگی بیان کریں گی کہ ان کی مثل کانوں نےکبھی نہیں سنی ہوگی۔ (البعث النشور:۴۲۲۔ البدورالسافرہ:۲۰۹۱) درخت کی ترنم کے ساتھ تسبیح وتقدیس: حدیث: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے عرض کیا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا جنت میں گیت ہوگا؟ کیونکہ میں گیت کوپسند کرتا ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: والذي نفسي بيده إن الله عزوجل ليوحي إلى شجرة الجنة أن أسمعي عبادي الذي شغلوا أنفسهم عن المعازف والمزامير، فتسمعهم بأصوات ماسمع الخلائق مثلها بالتسبيح والتقديس۔ (ترغیب وترہیب، اصبہانی۔ البدورالسافرہ:۲۰۹۷) ترجمہ: مجھے قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے اللہ تعالیٰ جنت کے درخت کی طرف پیغام بھیجیں گے کہ میرے ان بندوں کوجنھوں نے اپنے آپ کوباجوں اور گانوں کی بجائے (دنیا میں) میرے ذکر کے ساتھ مصروف رکھا توان کوایسی آوازوں میں ان کوایسی ترنم میں تسبیح وتقدیس سنا کہ ایسی مخلوقات نے کبھی نہ سنی ہوں۔ درخت سے خوبصورت آواز کیسے پیدا ہوگی: حدیث: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: إن في الجنة شجرة جذوعها من ذهب وفروعها من زبرجد ولؤلؤ فتهب لها ريح فتصفق فما سمع السامعون بصوت قط ألذمنه۔ (صفۃ الجنۃ، ابونعیم:۴۳۳) ترجمہ:جنت میں ایک درخت جس کے تنے سونے کے ہوں گے اور شاخیں زبرجد اور لؤلؤ کی ہوں گی اس پرہوا چلے گی تو وہ (شاخیں) حرکت میں آئیں گی (اس کو) سننے والے اس سے زیادہ لذیذ کوئی آواز نہیں سنیں گے۔ روزِ قیامت فرشتوں سے ترانے سننے والے جنتی: حضرت محمدبن منکدر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں جب قیامت کا دن ہوگا توایک منادی ندا کریگا وہ حضرات کہاں ہیں جواپنے آپ کوکھیل اور شیطان کے باجوں سے بچاتے تھے ان کوکستوری کے باغات میں بٹھلاؤ؛ پھراللہ تعالیٰ فرشتوں کوحکم فرمائیں گے کہ تم ان حضرات کومیری حمدوثناء سناؤ اور ان کوبتادو کہ ان پرکسی قسم کا خوف نہیں اور کسی قسم کا رنج نہیں۔ (صفۃ الجنۃ ابن ابی الدنیا:۲۶۳) دنیا میں گانے باجے سننے والے جنت میں فرشتوں سے قرآن نہیں سن سکیں گے: حدیث: حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مَنْ اسْتَمَعَ إلَى صَوْتِ غِنَاءٍ لَمْ يُؤْذَنْ لَهُ أَنْ يَسْتَمَعَ الرُّوحَانِيِّينَ فِی الْجَنَّۃِ قَالُوْا: وَمَنْ الرُّوحَانِيُّونَ؟ يَارَسُولَ اللَّهِ قَالَ: قُرَّاءُ أَهْلِ الْجَنَّةِ (البدورالسافرہ:۲۱۰۱) ترجمہ:جوشخص گانے کی آواز سنے گا اس کوروحانیون کی خوش الحانی سننے کی اجازت نہیں دی جائے گی، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نے عرض کیا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! روحانیون کون ہیں؟ آپ نے ارشاد فرمایا (یہ) جنت والوں (کے سامنے) قرآن پڑھنے والے (فرشتے) ہیں۔ گانا گانے والے، فرشتوں کے ترانے سے محروم: تابعی مفسر محدث حضرت مجاہد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ قیامت کے دن ایک منادی ندا کریگا کہ وہ لوگ کہاں ہیں جواپنی آوازوں کواور اپنے کانوں کوفضولیات اور شیطان کے باجوں سے محفوظ رکھتے تھے؟ فرمایا کہ پھراللہ تعالیٰ ان حضرات کوکستوری کے باغ میں رخصت کردیں گے اور فرشتوں سے فرمائیں گے کہ تم میرے (ان) بندوں کے سامنے میری حمدوثناء اور بزرگی بیان کرو اور ان کویہ خوشخبری سنادو کہ ان پرکوئی خوف کی بات نہیں اور نہ ہی کوئی غم کی بات ہے۔ (المجالسۃ للدنیوی، البدورالسافرہ:۲۱۰۰) تمام قسم کے نغمات کی حسین آوازیں: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جنت میں ایک درخت ہے جوتیز رفتار سوار کے اس کے سایہ میں سوسال چلنے کے برابر طویل ہے، جنت والے اور بالاخانوں وغیرہ والے باہر نکل کراس سایہ میں باتیں کیا کریں گے، ان میں سے کوئی جنتی دنیا کے گانے باجے کویاد کریگا تواللہ تعالیٰ جنت سے ایک ہوا روانہ کریں گے جواس درخت سے دنیا کی ہرطرح کی سریلی آوازوں اور نغمہ طرازیوں کوپیدا کریگی۔ (صفۃ الجنۃ ابن ابی الدنیا:۲۶۰۔ البدورالسافرہ:۲۱۰۳) حضرت اسرافیل علیہ السلام کی حسین ترین آواز: امام اوزاعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ مخلوق خداوندی میں حضرت اسرافیل علیہ السلام سے زیادہ حسین اور دلکش آواز کا مالک کوئی (فرشتہ) نہیں، اللہ تبارک وتعالیٰ ان کوحکم فرماتے ہیں اور یہ ایسی خوش الحانی شروع کرتے ہیں کہ آسمانوں میں موجود نماز پڑھنے والے فرشتوں کی نماز کوبھی کاٹ دیتے ہیں جب تک اللہ تعالیٰ چاہتے ہیں وہ اس حالت میں خوش الحانی میں مصروف رہتے ہیں؛ پھراللہ فرماتے ہیں میرے غلبہ کی قسم! اگر (غیروں کی) عبادت کرنےو الے میری عظمت کی قدرومنزلت کا علم رکھتے ہوتے تووہ میرے غیر کی عبادت کبھی نہ کرتے۔ (حادی الارواح:۳۲۶۔ صفۃ الجنۃ ابن ابی الدنیا:۲۵۸) فرشتوں کی حمدوثناء میں نغمہ سرائیاں: حضرت شہربن حوشب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ جل شانہ (قیامت کے دن اور جنت میں) اپنے فرشتوں سے فرمائیں گے میرے نیک بندے دنیا میں خوبصورت آواز کوپسند کرتے تھے؛ لیکن میری خاطر انہوں نے اس کا سننا چھوڑ دیا تھا تم حسین ترین آواز میں میرے بندوں کو (حمدوثناء وغیرہ) سناؤ چنانچہ وہ کلمہ طیبہ، تسبیح اور اللہ کی عظمت کوایسی حسین آوازوں میں پیش کریں گے جن کوانہوں نے کبھی نہیں سنا ہوگا۔ (حادی الارواح:۳۲۶۔ صفۃ الجنۃ ابن ابی الدنیا:۳۳۶) ایک درخت کی دلکش ترنم: امام اوزاعی رحمہ اللہ حضرت عبدہ بن ابی لبابہ رحمہ اللہ سے نقل کرتے ہیں کہ جنت میں ایک درخت ہے جس کے پھل زبرجد، یاقوت اور لؤلؤ کے ہیں اللہ تعالیٰ ہوا کوچلائیں گے تووہ درخت حرکت میں آئے گا اور اس کی ایسی ایسی حسین آوازیں سننے کوملیں گی کہ اس سے زیادہ لذیذ کوئی آواز نہیں سنی ہوگی۔ (حادی الارواح:۳۲۷۔ صفۃ الجنۃ ابن ابی الدنیا:۲۵۹) فائدہ: مذکورہ روایات میں حضرت داؤد علیہ السلام کی آواز کواور حضرت اسرافیل علیہ السلام کی آواز کواور درختوں کی آواز کو اور فرشتوں کی آواز کوسب سے حسین قرار دیا گیا ہے، ان میں سے ہرایک کی آواز کواپنے اپنے درجہ میں انتہائی حسن حاصل ہوگا؛ نیزحوریں اور دنیا کی عورتیں بھی حسین وجمیل انداز سے نغمہ سرائیاں کریں گی ان کا ذکر حوروں کے باب میں آرہا ہے۔ جنت میں صرف ذکر کی عبادت ہوگی: حدیث: حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: يَأْكُلُ أَهْلُ الْجَنَّةِ فِيهَا وَيَشْرَبُونَ وَلَايَتَغَوَّطُونَ وَلَايَمْتَخِطُونَ وَلَايَبُولُونَ وَلَكِنْ طَعَامُهُمْ ذَاكَ جُشَاءٌ كَرَشْحِ الْمِسْكِ يُلْهَمُونَ التَّسْبِيحَ وَالْحَمْدَ كَمَاتُلْهَمُونَ النَّفَسَ۔ (مسلم،كِتَاب الْجَنَّةِ وَصِفَةِ نَعِيمِهَا وَأَهْلِهَا،بَاب فِي صِفَاتِ الْجَنَّةِ وَأَهْلِهَا وَتَسْبِيحِهِمْ فِيهَا بُكْرَةً وَعَشِيًّا،حدیث نمبر:۵۰۶۷، شاملہ، موقع الإسلام) ترجمہ:جنت والے جنت میں کھائیں اور پئیں گے؛ مگرنہ توناک سنکیں گے، نہ پاخانہ کریں گے، نہ پیشاب کریں گے؛ بلکہ ان کا کھانا ڈکار (کی شکل میں) اور (پینا) کستوری کے پسینہ میں بدل جائے گا (اور) ان کوتسبیح اور تحمید اس طرح سے القاء کی جائیگی جیسے (جانداروں کو) سانس کا القاء کیا جاتا ہے۔ فائدہ:یعنی ان حضرات کی تسبیح اور تحمید سانسوں سے ادا ہوگی جس طرح سے تم خود بخود بلاارادہ اور بغیر تکلف کے سانس لیتے ہو۔ (مسلم:۲۸۳۵۔ صفۃ الجنۃ ابونعیم:۲/۱۲۲) جنت کے حسن میں اضافہ ہوتا رہے گا: حضرت کعب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ جب بھی جنت کی طرف نظر فرماتے ہیں توحکم دیتے ہیں کہ تواپنے مکینوں کے لیے اور پاکیزہ اور عمدہ ہوجا تووہ حسن وپاکیزگی میں اور عمدہ ہوجاتی ہے؛ حتی کہ جنتی اس میں داخل ہوجائیں۔ (صفۃ الجنۃ ابونعیم:۲۱) اور جب جنتی جنت میں داخل ہوجائیں گے تب بھی اس کے حسن میں اضافہ ہوتا رہے گا جیسا کہ آپ اس کتاب کے مختلف مقامات میں پڑھیں گے۔ جنتی سورۂ طٰہٰ اور یٰسین کی تلاوت کریں گے: حدیث: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: يرفع القرآن على أهل الجنة كله ماخلا طه، ويٰس۔ (صفۃ الجنۃ ابونعیم:۲۷۱) ترجمہ:سوائے سورۂ طٰہٰ اور سورۂ یٰس کے باقی تمام قرآن پاک جنت والوں سے اٹھالیا جائے گا (وہ صرف سورۂ طٰہٰ اور سورۂ یٰس کی تلاوت کرسکیں گے)۔ فائدہ: یہ حدیث سند کے لحاظ سے انتہائی کمزور ہے من گھڑت ہوتوکچھ بعید نہیں؛ کیونکہ اس میں ایک بشربن عبدالدراسی نامی راوی ہے اس پرمحدثین نے بہت جرح فرمائی ہے اس لیے سوائے سورۂ طٰہٰ اور سورۂ یٰس کے باقی قرآن پاک کا اٹھالیا جانا صحیح معلوم نہیں ہوتا؛ کیونکہ قرآن پاک اللہ تعالیٰ کا کلام ہے جوعلماء وقراء اور حفاظ اور دیگر مسلمانوں کواللہ تعالیٰ نے دنیا میں بطورِ نعمت کاملہ کے عطا فرمایا ہے جنت میں نعمتوں کی تکمیل توہوسکتی ہے؛ مگرنعمتوں کوسلب نہیں کیا جاسکتا؛ لہٰذا مؤمنین کے پاس قرآن کریم کی نعمت مکمل طور پرموجود ہوگی، واللہ اعلم۔ اہلِ جنت کوصرف ایک حسرت ہوگی: حدیث: حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: لَيْسَ يَتَحَسَّرُ أَهْلُ الجَنَّةِ إِلاَّعَلَى سَاعَةٍ مَرَّتْ بِهِمْ لَمْ يَذْكُرُوا الله فِيهَا۔ (البدورالسافرہ:۲۱۹۲، بحوالہ طبرانی وبیہقی بسند جید) اہل جنت کوکسی قسم کی حسرت نہیں ہوگی مگراس گھڑی پروہ حسرت کرتے رہیں گے جوان کو (دنیا میں) حاصل ہوئی مگر اس میں انہو ں نے اللہ کویاد نہیں کیا تھا۔ حدیث: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مَاقَعَدَ قَوْمٌ مَقْعَدًا لَمْ يَذْكُرُوا اَللَّهَ، وَلَمْ يُصَلُّوا عَلَى اَلنَّبِيِّ صَلَّى الله عَلَيه وسَلَّم إِلَّاكَانَ عَلَيْهِمْ حَسْرَةً يَوْمَ اَلْقِيَامَةِ وَإِنْ دَخَلُوا الْجَنَّةَ لِلثَّوَاب (البدورالسافرہ:۲۱۹۳۔ مسنداحمد:۲/۴۶۳) ترجمہ:جوقوم کسی مجلس میں بیٹھتی ہے؛ لیکن اس میں اللہ تعالیٰ کا ذکر نہیں کرتی اور جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پردرود شریف نہیں بھیجتی تویہ (مجلس) قیامت کے دن ان پرحسرت کا باعث ہوگی (کہ ہائے اگراس مجلس میں ذکر یادرود شریف پڑھتے توآج اس کا بھی انعام ملتا) اور اگروہ جنت میں داخل ہوجائیں گے تو (اس کے ثواب پانے کی حسرت کریں گے)۔