انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** خلافت عثمانی پر ایک نظر خلافتِ عثمانیؓ کے واقعات پڑھ کر بے اختیار قلب پر یہ نمایاں اثر ہوتا ہے کہ ہم عہدِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور خلافت صدیقی و فاروقی کے زمانے کو طے کرکے کسی نئے زمانے میں داخل ہوتےہیں، اس زمانے کی آب و ہوا بھی نئی ہے اور لوگوں کی وضع قطع میں بھی غیر معمولی تغیر پیدا ہوگیا ہے،زمین وآسمان غرض ہر چیز کی کیفیت متغیر ہے،خلافتِ فاروقی تک مسلمانوں کی نگاہ میں مال ودولت کی کوئی وقعت و قیمت نہ تھی،خود خلیفہ کی حالت یہ ہوتی تھی کہ اپنے اہل وعیال کی ضروریات پورا کرنے کے لئے دوسرے لوگوں سے بھی بہت ہی کم روپیہ اس کے ہاتھ میں آتا تھا اور اس بے زری وافلاسی کو نہ خلیفہ وقت کوئی مصیبت تصور فرماتا تھا،نہ عام لوگ مال و دولت کی طرف خواہش مند نظر آتے تھے،مسلمانوں کی سب سے بڑی خواہش اعلاء کلمۃ اللہ اوران کی سب سے بڑی مسرت راہِ خدامیں قربان ہوجانا تھا،عہدِ عثمانی میں یہ بات محسوس طور پر کم ہوگئی تھی،حضرت عثمان غنیؓ تو پہلے ہی سے مال دار شخص تھے،خلیفہ ہونے کے بعد بھی ان کی سابقہ ہر دو خلفاء کی عدالتوں میں نمایاں فرق نظر آنا چاہئے تھا؛چنانچہ وہ فرق نظر آیا،فاروق اعظمؓ کے آخر زمانے تک فتوحات کا سلسلہ جاری رہا اوردولت مند وزر خیز علاقے ان کے زمانے میں مسلمانوں نے مسخر و مفتوح کئے،ان کی دولت تو مسلمانوں کے قبضہ میں آگئی اور آرہی تھی،لیکن وہ اس دولت کے استعمال اورعیش وراحت حاصل کرنے کے طریقوں سے نا آشنا تھے،حضرت عثمان غنیؓ کے زمانے میں مسلمانوں نے حاصل شدہ دولت سے عیش حاصل کرنا شروع کیا،مدینہ کے معمولی چھپر محلوں اور ایوانوں کی شکل میں تبدیل ہونے لگے،لوگوں کے دلوں میں جائداد حاصل کرنے اورروپیہ جمع رکھنے کا شوق پیدا ہوا، اس شوق کے ساتھ ہی سپہ گری و مردانگی کا خصوصی جذبہ جو مسلمانوں اورعربوں کا امتیازی نشان تھا،کافور ہونے لگا،سپاہیانہ اخلاق کی جگہ آج کل کی اصطلاح کے مطابق رئیسانہ اخلاق پیدا ہونے لگے جن کو حقیقتاً زمانۂ اخلاق کہنا چاہئے اور یہ سب سے بڑی مصیبت اور سب سے بڑی بد نصیبی تھی جو مسلمانوں پر وارد ہوئی۔ صدیق اکبرؓ اورفاروق اعظمؓ کے زمانے تک قریش اورحجازی عرب جس میں اکثریت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ دیکھے ہوئے تھی، ایک غالب عنصر کی حیثیت سے موجود تھے،وہ سب کے سب اسلام کو اپنی چیز سمجھتے اوراپنے آپ کو اسلام کا وارث جانتے تھے،اسلام کے مقابلے میں قبائلی امتیاز ان کے دلوں سے بالکل مٹ گئے تھے،اسلام کے رشتے سے بڑھ کر ان کے نزدیک کوئی رشتہ نہ تھا اور اسلام سے بڑھ کر ان کے لئے کوئی محبوب چیز نہ تھی، فتوحات کے وسیع ہونے اورممالکِ اسلامیہ کے کثیر ہونے سے مسلمانوں کی افواج اورمسلمانوں کی جمعیت میں ایسے لوگوں کی تعداد بہت زیادہ بڑھ گئی جو ابھی چند روز سے اسلام میں داخل ہوئے تھے اوران کے دلوں میں اسلامی محبت قبائلی امتیاز اور قومی وخاندانی خصوصیات پر غالب نہیں ہونے پائی تھی،عہدِ فاروقی کی فتوحات کثیرہ وعظیمہ جن افواج کے ذریعہ ہوئیں ان میں بنی بکر ،بنی وائل، بنی عبدالقیس،بنی ربیعہ، بنی ازد، بنی کندہ، بنی تمیم، بنی قضاعہ وغیرہم قبائل کے لوگ زیادہ تھے،انہیں لوگوں نے ایرانی صوبوں ، شامی علاقوں اور مصر و فلسطین وغیرہ کو فتح کیا تھا،انہیں کے ذریعہ ایرانی ورومی شہنشاہیوں کے پرخچے اُڑے تھے،لیکن ان مذکورہ قبائل میں سے کوئی بھی قبیلہ ایسا نہ تھا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شرفِ صحبت سے فیضیاب ہوا ہو، ان میں سے اگر کوئی شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا فیض صحبت پائے ہوئے تھا، تو ایسے لوگوں کی تعداد الشافہ کا لمعدوم کے حکم میں تھی،یہ تمام قبائل جو اسلام کی جرار فوج ثابت ہوئے معصیت سوز ایمان اور مجنونانہ شیفتگی ،اسلام میں قریشی اورحجازی صحابہ کرامؓ کے مرتبے کو نہیں پہنچ سکتے تھے،مگر فاروقِ اعظمؓ کی نگاہ اس قدر وسیع و عمیق تھی کہ ہر مسئلہ کی جزئیات تک کا ان کو احاطہ تھا ،انہوں نے ایسا نظام قائم کر رکھا تھا اورمہاجر و انصار کی سیادت کی ایسی حفاظت کی کہ ان کے عہدِ خلافت میں یہ ممکن ہی نہ ہوا کہ کوئی غیر مہاجر یا انصار کی ہمسری کا خیال تک بھی لاسکے، تمام مہاجرین وانصار کی حیثیت فاروق اعظمؓ کے زمانہ میں ایک شاہی خاندان اور فاتح قوم کی تھی فاروقِ اعظمؓ نے ایک طرف بڑی کوشش اور احتیاط کے ساتھ اپنی فتحمند فوج اور صف شکن وعربی سپا ہیوں کے خصوصی سپاہیانہ اورجوانمردانہ جذبات کے حفاظت و نگرانی کی حتیٰ کہ شام کے خوش سواد شہروں اور سامانِ عیش رکھنے والی بستیوں میں یا ان کے قریب بھی عہدِ فاروقیؓ میں اسلامی فوجوں کو قیام کرنے کا موقع نہیں دیا جاتا تھا، دوسری طرف سے انہوں نے نہایت ہی اعلیٰ تدبر اورانتہائی مآل اندیشی کے ساتھ جلیل القدر اور صاحبِ ِ اقتدار صحابیوں کو صحبتِ عوام ؛بلکہ صحبتِ عام سے خاص خوبی کے ساتھ بچا کر رکھا کہ کسی کو بھی محسوس نہ ہونے پایا اوران جلیل القدر اصحاب کرام کے رعب وعظمت کی ایک طرف حفاظت ہوئی دوسری طرف ہمہ وقت ان کے گرد مدینہ منورہ میں نہ صرف ملکِ عرب ؛بلکہ تمام دنیا کےمنتخب اوربا اقتدار وصاحبِ اثر جماعت موجود رہتی تھی۔ حضرت عثمان غنیؓ کے زمانے میں یہ باتیں رفتہ رفتہ یکے بعد دیگرے مٹتی گئیں،مذکورہ بالا عربی قبائل اپنے آپ کو مہاجرین وانصار قریشی وحجازی لوگوں کا ہمسر ؛بلکہ ان سے بڑھ کر سمجھنے لگے، صحابہ کرامؓ جو شاہی خاندان کا مرتبہ رکھتے تھے دُور دراز صوبوں میں منتشر ہوگئے،مدینہ منورہ کی جمعیت درہم برہم ہوگئی اور خود دارالخلافہ قوت کا مرکز نہ رہ سکا،اس کانتیجہ یہ ہوا کہ ساتھ ہی ساتھ قومی وقبائلی امتیازات تازہ ہونے لگے،ہر ایک قبیلے اور ہر ایک خاندان کی الگ الگ عصبیت قائم ہوگئی،آپس میں وہی عہدِ جاہلیت کی رقابتیں زیادہ ہونے لگیں اور اسلامی رشتہ اور دینی اخوت کا اثر قومی وخاندانی امتیازات پر فائق نہ رہ سکا،مہاجرین وانصار نو مسلموں کی کثرت کے اندر درخورہونے کی وجہ سے اپنے اقتدوعظمت کو باقی نہ رکھ سکے۔ حضرت عثمان غنیؓ نرم مزاج تھے،حکومت وانتظام کے باقی رکھنے کے لئے تنہا نرم مزاجی ہی کافی نہیں ہوسکتی ؛بلکہ اس کے لئے طاقت وسختی کے اظہار کی بھی ضرورت ہوا کرتی ہے حضرت عثمان غنیؓ کے زمانے میں ایک طرف تو مسلمانوں کے دلوں میں مال ودولت اورعیش وراحت جسمانی کی قدر پیدا ہونے لگی، اور دوسری طرف خلیفہ وقت کا رعب واقتدار دلوں سےکم ہونے لگا، اس حالت میں شہرت پسند اورجاہ طلب لوگوں کو اپنی اولوالعزمیوں کے اظہار اوراپنے ارادوں کے پورا کرنے کی کوششوں کا موقع ملنے لگا،قریشیوں اورحجازیوں میں جو اس قسم کے اولوالعزم اشخاص تھے،ان کو بڑی آسانی کے ساتھ نو مسلم قبائل کی حمایت اور فتح مند لشکریوں کی اعانت وحمایت حاصل ہونے لگی۔ اسلام سے پیشتر قبیلۂ قریش دوحصوں میں منقسم سمجھا جاتا تھا،ایک بنو امیہ،دوسرے بنو ہاشم اگرچہ بنو ہاشم اور بنو امیہ دونوں خاندان مل کر تمام قبیلہ قریش کو پورا نہیں کرتے تھے ؛بلکہ مثل اس کے اور بھی خاندان قریش میں تھے،لیکن بنو ہاشم اور بنو امیہ چونکہ ایک دوسرے کے رقیب اورمخالف تھے لہذا باقی خاندان بھی انہیں میں سے کسی نہ کسی کے طرف دار تھے ،بنو امیہ کی طاقت اوران کا اثر ورسوخ ظہورِ اسلام کے قریب زمانہ میں بنو ہاشم سے بڑھ گیا تھا،اگرچہ ظہورِ اسلام سے بہت پہلے وہ بنو ہاشم سے کمزور تھے،جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم قبیلۂ بنو ہاشم میں مبعوث ہوئے تو بنو اُمیہ نے ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اور اسلام کی سب سے زیادہ مخالفت کی،احد و احزاب کی خطرناک وعظیم الشان لڑائیوں میں مخالفین اسلام کی فوجوں کا سپہ سالار ابو سفیان تھا، جو بنو امیہ سے تھا، آخر نتیجہ یہ ہوا کہ خود ابو سفیان اور بنو امیہ سب اسلام میں داخل ہوگئے، امویوں اورہاشمیوں کا فرق اور امتیاز بالکل مٹ گیا، اسلام نے بنو امیہ اوربنو ہاشم دونوں کو بالکل ایک کردیا،نسلی اور قبائلی امتیازات کا نام ونشان باقی نہ رہا، حضرت ابوبکر صدیقؓ اورحضرت عمر فاروقؓ کے عہدِ خلافت میں بھی یہی کیفیت رہی اور سارے کے سارے قبائل ایک ہی رنگ میں رنگین نظر آتے تھے؛ لیکن حضرت عثمان غنیؓ کے عہدِ خلافت میں بنو امیہ کو عہدِ جاہلیت کی رقابتیں پھر یاد آگئیں ، پھر حضرت عثمان غنی چونکہ بنو امیہ تھے اورساتھ ہی ان کو اپنے کنبے کی پرورش اوراپنے رشتہ داروں پر احسان کرنے کا زیادہ خیال تھا،لہذا بنو امیہ کو زیادہ منافع حاصل ہوتے ،ادھر فوجی اور جنگی اولوالعزمیوں کے ساتھ مالی اولوالعزمیاں بھی لوگوں کے دلوں میں پیدا ہونے لگی تھیں، خلیفۂ وقت کے رعب واقتدار کی گرفت بھی کم ہوگئی تھی،مہاجرین وانصار اورقریشیوں کا اقتدار بھی نو مسلم بہادروں کی کثرت کے سبب ہلکا پڑنے لگا تھا،مدینہ منورہ میں بھی بااثر اورطاقتور لوگوں کی یک دل جمعیت کمزور ہوکر قریباً معدوم ہوچکی تھی،لہذا بنوامیہ نے ان تمام باتوں سے فائدہ اُٹھانے میں کمی نہیں کی،حضرت عثمان غنیؓ کی نرم مزاجی سے تو انہوں نے یہ فائدہ اُٹھا یا کہ مروان بن الحکم کو ان کا میر منشی ہونے کی حالت میں بنو امیہ کا ایسا حامی و طرفدار بنادیا کہ اس نے جا اور بے جا ہمہ وقت اوربہر طور بنو امیہ کو فائدہ پہنچوانے ،آگے بڑھانے،طاقتور بنانے میں مطلق کوتاہی نہیں کی۔ جب ملکوں اورصوبوں کی گور نریاں زیادہ تر بنوامیہ ہی کو مل گئیں اور تمام ممالکِ اسلامیہ میں ہر جگہ بنو امیہ ہی حاکم اورصاحبِ اقتدار نظر آنے لگے تو انہوں نے اپنے اقتدار رفتہ کے واپس لینے یعنی بنو ہاشم کے مقابلہ میں اپنا مرتبہ بلند قائم کرنے کی کوشش کی،اس کا لازمی نتیجہ یہ تھا کہ بنو ہاشم اور دوسرے قبائل کو بھی بنو امیہ کی ان کوششوں کا احساس ہوا،یہ کہنا کہ خود حضرت عثمان غنیؓ بنو امیہ کی ایسی کوششوں کے متحرک اورخواہش مند تھے سراسر بہتان وافترا ہے؛ کیونکہ ان کے اندر کسی سازش،کسی پالیسی، کسی منافقت کا نام ونشان تک بھی نہیں بتایا جاسکتا، ان کی نرم مزاجی درگذر اور رشتہ داروں کے ساتھ نیک سلوک سے پیش آنے کی دو صفتوں نے مل کر بنو امیہ کو موقع دے دیاکہ وہ اپنے قومی وخاندانی اقتدار کے قائم کرنے کی تدبیروں میں مصروف ہوں اور اس طرح عہد جاہلیت کی فراموش شدہ رقابتیں پھر تازہ ہوجائیں، ان رقابتوں کو نتیجہ خیز بنانے کے لئے مال و دولت کی فراوانی اور عیش وتن آسانی کی خواہش نے اور بھی سہارا دیا، اس قسم کی باتوں کا وہم و گمان بھی صدیقی وفاروقی عہدِ خلافت میں کسی کو نہیں ہوسکتا تھا اس موقع پر مجبوراً یہ کہنا پڑتا ہے کہ اگرچہ خاندان والوں اور رشتہ داروں کے ساتھ احسان کرنا ایک خوبی کی بات ہے ؛لیکن اس اچھی بات پر ایک خلیفہ کو عمل درآمد کرانے کے لئے بڑی ہی احتیاط کی ضرورت ہے اور حضرت عثمان غنیؓ سے شاید کماحقہ،احتیاط کے برتنے میں کمی ہوئی اور مروان بن الحکم اپنے چچا زاد بھائی کو آخر وقت تک اپنا کاتب یعنی میر منشی اوروزیر ومشیر رکھنا تو بلاشک احتیاط کے خلاف تھا، نہ اس لئے کہ وہ آپ کا رشتہ دار تھا ؛بلکہ اس لئے کہ وہ اتقا اور روحانیت میں ناقص اور مرتبہ جلیلہ کا اپنی قابلیت وخصائل کے اعتبار سے اہل اور حقدار نہ تھا۔ حضرت عثمان غنیؓ کے خلیفہ ہوتے ہی ایرانی صوبوں میں جگہ جگہ بغاوتیں ہوئیں، مگر اسلامی فوجوں نے باغیوں کی ہر جگہ گوشمالی کی اور تمام بغاو ت زدہ علاقوں میں پھر امن و امان اور اسلامی حکومت قائم کردی،ان بغاوتوں کے فرو کرنے میں ایک یہ بھی فائدہ ہوا کہ ہر باقی صوبہ کے سرحد علاقوں کی طرف بھی توجہ کی گئی اوراس طرح بہت سے نئے نئے علاقے بھی مسلمانوں کے قبضہ میں آگئے،مثلاً جنوبی ایران کی بغاوتوں کو فرو کرنے کے سلسلے میں سیستان و کرمان کے صوبوں پر بھی مسلمانوں کا قبضہ ہوا،شمالی ومشرقی ایرانی کی بغاوتوں،ترکوں اور چینیوں کی چڑھائیوں کے انسداد کی کوششوں کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہرات ،کابل، بلخ،اورجیحون پار کے علاقوں پر مسلمانوں کا قبضہ ہوگیا ،رومیوں نے مصر و اسکندریہ پر چڑھائیاں کیں جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ رومیوں کو مسلمانوں نے شکست دے کر بھگا دیا اورجزیرہ سائپرس اورروڈس پر مسلمانوں کا قبضہ ہوگیا،افریقہ کے رومی گور نر نے فوجیں جمع کرکے مصر کی اسلامی فوج کو دھمکانا چاہا، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ برقہ طرابلس تک کا علاقہ مسلمانوں کے قبضہ میں آگیا، اسی طرح ایشیائے کوچک کی رومی فوجوں نے بھی ہاتھ پاؤں ہلانے چاہے، مسلمانوں نے ان کو قرار واقعی سزا دے کر آرمینیہ اور طغلس تک کے علاقہ پر قبضہ کرلیا ۔ غرض حضرت عثمان غنی کے زمانے میں بھی بہت کافی اور اہم فتوحات مسلمانوں کو حاصل ہوئیں اور حدود اسلامیہ کے حدود پہلے سے بہت زیادہ وسیع ہوگئے،ایران وشام و مصر وغیرہ ملکوں میں حضرت عثمان غنیؓ کے حکم کے موافق گور نروں نے سڑکیں بنوانے،مدرسے قائم کرنے،تجارت وحرفت اورزراعت کو فروغ دینے کی کوششیں کیں، یعنی سلطنت اسلامیہ نے اپنی ظاہری ترقی کے ساتھ ہی مصنوعی ترقی بھی کی،لیکن یہ تمام ترقیات زیادہ تر خلافت عثمانی کے نصف اول یعنی ابتدائی چھ سال میں ہوئیں، نصف آخری یعنی چھ سال کے عرصہ میں اندرونی اور داخلی فسادات کی پیدائش اورنشو ونما ہوتی رہی، اس سے پیشتر کے مسلمانوں کا مطمح نظر اور قبلۂ توجہ اشاعتِ اسلام اور شرک شکنی کے سوا اور کچھ نہ تھا،لیکن اب وہ توجہ آپس کی مسابقت اوربرادر افگنی میں بھی مصروف ہونے لگی،بنو امیہ نےمدینہ منورہ میں اپنی تعداد اور اثر کو بڑھا لیا اوراطراف و جوانب کے صوبوں اورملکوں میں بھی ان کا اثر روز افزوں ترقی کرنے لگا۔ یہ ضروری نہ تھا کہ بنو امیہ کے اس طرزِ عمل کو دیکھ کر دوسرے مسلمان قبائل موافقت یا مخالفت میں بے سوچے سمجھے حصہ لینے لگتے اور قومی جانب داری کی آگ میں کود پڑتے ؛بلکہ بنو امیہ کی غلط کاریوں کو محسوس کرنے کے بعد صحابہؓ کرامؓ یعنی مہاجرین وانصار کی محترم جماعت اگر سہو لت و معقولیت کے ساتھ لوگوں کو سمجھاتی اوراس فتنہ کو نشو ونما پانے سے پہلے دبا دینے کی کوشش کرتی تو اصحابِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا اتنا اثر امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم میں ضرور موجود تھا کہ ان بزرگوں کی کوشش صدا بصحراثابت نہ ہوتی، بنو امیہ نے اپنا اقتدار بڑھانے کی کوششیں شروع کیں،ان کا احساس صحابۂ کرام کو کچھ عرصہ کے بعد ہوا اورجب احساس ہوا تو اس وقت سے علاج کی کوششیں بھی شروع ہوکر کامیاب ہوسکتی تھیں لیکن بد قسمتی اورسوء اتفاق سے امت مسلمہ کو ایک سخت و شدید ابتلاء میں مبتلا ہونا پڑا، یعنی عین اسی زمانےمیں نہایت چالاک وعقلمند اور صاحب عزم وارادہ یہودی عبداللہ بن سبا اسلام کی تخریب ومخالفت کے لئے آمادہ ومستعد ہوگیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں بھی منافقوں کے ہاتھوں سے مسلمانوں کو بارہا ابتلا میں مبتلا ہونا پڑا، اوراب عہدِ عثمانی میں بھی ایک منافق یہودی مسلمانوں کی ایذا رسانی کا باعث ہوا یہ فیصلہ کرنا دشوار ہے کہ عبداللہ بن اُبی زیادہ خطرناک منافق تھا یا عبداللہ بن سبا بڑا منافق تھا؛لیکن یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ عبداللہ بن اُبی کو اپنے شرارت آمیز منصوبوں میں کامیابی کم حاصل ہوئی اور نامرادی و ناکامی بیشتر اس کے حصے میں آئی، لیکن عبداللہ بن سبا اگرچہ خود کوئی ذاتی کامیابی حاصل نہ کرسکا تاہم مسلمانوں کی جمعیت کو وہ ضرور نقصان عظیم پہنچا سکا؛کیونکہ اس نقصانِ عظیم کے موجبات پہلے سے مرتب و مہیا ہور ہے تھے،عبداللہ بن سبا کی مسلم کش کوششوں کا سب سے زبردست پہلو یہ تھا کہ اس نے بنو امیہ کی مخالفت میں یک لخت ویکایک تمام عرب قبائل کو برانگیختہ اورمشتعل کردیا جس کے لئے اس نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی حمایت و محبت کو ذریعہ اوربہانہ بنایا جن قبائل میں اس نے مخالفت بنو امیہ اورعداوت عثمانی پیدا کرنی چاہی، یہ سب کے سب وہی لوگ تھے جو اپنی فتوحات پر مغرور اوراپنے کارنامے کے مقابلے میں قریش واہل حجاز کو خاطر میں نہ لاتے تھے،لیکن سابق الاسلام نہ تھے ؛بلکہ نو مسلمانوں میں ان کا شمار تھا،عبداللہ بن سبا نے بڑی آسانی سے بنو امیہ کے سواباقی اہل مدینہ کو حضرت عثمانؓ کی بد گوئی اور بنو امیہ کی عام شکایت پر آمادہ کردیا،پھر وہ بصرہ کوفہ دمشق وغیرہ فوجی مرکزوں میں گھوما، جہاں سوائے دمشق کے ہر جگہ اس کو مناسب آب و ہوا اورموافق سامان میسر ہوئے، دمشق میں بھی اس کو کم کامیابی نہیں ہوئی کیونکہ یہاں بھی اس نے حضرت ابو ذر غفاریؓ والے واقعہ سے خوب فائدہ اُٹھا یا،آخر میں وہ مصر پہنچا اور تمام مرکزی مقاموں کے اندر جہاں وہ خود سامان فراہم کراآیا تھا،مصر میں بیٹھے بیٹھے اپنی تحریک کو ترقی دی،مصر کواس نے اپنا مرکز اس لئے بنایا کہ یہاں کا گور نر عبداللہ بن سعد خود مختاری میں تو دوسرے گورنروں سے بڑھا ہوا اوروقت نظر میں دوسروں سے کم اور رومیوں وغیرہ کے حملوں کی روک تھام کے خیال اور افریقہ و طرابلس وغیرہ کی حفاظت کی فکر میں اندرونی تحریکوں اورداخلی کاموں کی طرف زیادہ متوجہ نہیں ہوسکتا تھا، یہیں اس کو دو تین صحابی ایسے مل گئے جو بڑی آسانی سے اس کے ارادوں کی اعانت میں شریک و مصروف ہوگئے۔ اس نے بصرہ میں حضرت طلحہؓ اورکوفہ میں حضرت زبیرؓ کی مقبولیت کو بڑھاہوا دیکھا ؛لیکن وہ جانتا تھا کہ تمام عالم اسلام میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی مقبو لیت ان دونوں حضرات سے بڑھ جائے گی، لہذا اس نے بصرہ ، کوفہ،دمشق کو بڑی آسانی سے چھوڑدیا اور مصر میں بیٹھ کر اپنے کام کو اس طرح شروع کیا کہ بصرہ، کوفہ والوں کی اس مخالفت کو ترقی دی جو ان کو بنو امیہ اور حضرت عثمانؓ کے ساتھ پیدا ہوچکی تھی،لیکن مصر میں اس مخالفت کے پیدا کرنے اوراس کو ترقی دینے کے علاوہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی محبت اوراُن کے مظلوم ہونے،حقدارِ خلافت ہونے، وصی ہونے وغیرہ کے خیالات کو شائع کیا، اس اشاعت میں بھی بڑی احتیاط سے کام لیا اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے طرفداروں کی ایک زبردست جماعت بنالینے میں کامیاب ہوا،عبداللہ بن سبا کی ان کاروائیوں نے بہت ہی جلد عالم اسلام میں ایک شورش پیدا کردی، اس شورش کے پیدا ہوجانے کے بعد صحابہ کرام سے وہ موقع جاتا رہا کہ وہ خود بنو امیہ کے راہ راست پر رکھنے کے کوشش میں کامیاب ہوتے ،عبداللہ بن سبا کی شرارتوں میں غالباً سب سے پلید شرارت یہ تھی کہ اس نے مدینہ منورہ سے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی طرف سے فرضی خطوط کو کوفہ و بصرہ و مصر والوں کے پاس بھیجوائے اوراس طرح اپنے آپ کو بھی حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا ایجنٹ تعین کرانے اور لوگوں کو دھوکا دینے میں خوب کامیاب ہوا،یہ اس کا ایسا فریب تھا کہ ایک طرف حضرت عثمان غنیؓ شہید ہوئے اور دوسری طرف آج تک لوگ اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ نعوذ باللہ حضرت علیؓ کے اشارے اور سازش سے حضرت عثمان غنیؓ شہید کئے گئے،حالانکہ اس سے زیادہ غلط اور نا درست کوئی دوسری بات نہیں ہوسکتی، وہ یعنی عبداللہ بن سبا نہ حضرت عثمانؓ کا دوست تھا، نہ حضرت علیؓ سے اس کو کوئی ہمدردی تھی وہ تو دونوں کا یکساں دشمن اوراسلام کی بربادی کا خواہاں تھا، اس لئے جہاں اس نے ایک طرف حضرت عثمان غنیؓ کو شہید کرایا،دوسری طرف حضرت علیؓ کو شریکِ سازش ثابت کرکے ان کی عزت وحرمت کو بھی سخت نقصان پہنچا نا چاہا۔ حضرت ابوبکرصدیقؓ اورحضرت عمر فاروقؓ کے بعد اگر حضرت علی کرم اللہ وجہہ منتخب ہوتے تو یہ انتخاب عین وقت پر اور تر تیب کے اعتبار سے بالکل موزوں اورمناسب تھا ،حضرت علی کرم اللہ وجہہ اگر حضرت عمر فاروقؓ کے بعد تختِ خلافت پر متمکن ہوجاتے تو فاروق اعظمؓ اورحضرت علیؓ کی خلافت میں بے حد مشابہت نظر آتی،وہی سادگی،وہی زہد و تقویٰ، وہی مال و دولت سے بے تعلق ہونا ہی خاندانی اور قومی حمایت سے بے تعلق ہونا وغیرہ باتیں حضرت علی کرم اللہ وجہہ میں موجود تھیں جو حضرت عمرؓ میں پائی جاتی تھیں اوراس طرح شاید عرصہ دراز تک قومی پاسداری اورخاندانی حمایت کا مسئلہ مسلمانوں میں پیدا نہ ہوتا، حضرت عثمان غنیؓ کے بعد حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا خلیفہ مقرر ہونا ہی حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے عہدِ خلافت کی عام ناکامیوں کا اصل سبب ہے جیسا کہ آئندہ حالات سے ثابت ہوجائے گا۔