انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** حضرت حضرت حسان بن ثابتؓ نام ونسب حسان نام، ابو الولید کنیت، شاعر رسول اللہ لقب، سلسلۂ نسب یہ ہے،حسان ابن ثابت بن منذر بن حرام بن عمروبن زید مناۃ بن عدی بن عمرو بن مالک بن نجا ربن ثعلبہ بن عمرو بن خزرج ،والدہ کا نام فریعہ بنت خالد بن خنیس بن لوذان بن عبدودبن زید بن ثعلبہ بن خزرج بن کعب بن ساعدہ تھا، قبیلہ خزرج سے تھیں اور سعد بن عبادہ سردار خزرج کی بنت عم ہوتی تھیں ،(بخاری:۲/۵۹۵) حسان نے ایک شعر میں ان کا نام ظاہر کیا ہے۔ امسی الجلا بیب قد غروا وقد کثروا وابن الفریعۃ امسی بیضۃ البلد (اصابہ:۸/۱۶۶) سلسلۂ اجداد کی چار پشتیں نہایت معمر گذریں،عرب میں کسی خاندان کی چار پشتیں مسلسل اتنی طویل العمر نہیں مل سکتیں، حرام کی عمر جو حضرت حسانؓ کے پردادا تھے ۱۲۰ سال کی تھی ان کے بیٹے منذر اورثابت بن منذر اورحسان بن ثابت سب نے یہی عمر پائی۔ (اسد الغابہ:۱) اسلام حضرت حسانؓ حالتِ ضعیفی میں ایمان لائے،ہجرت کے وقت ۶۰ برس کا سن تھا۔ غزوات دل کے فطرۃ کمزور تھے،اس لئے کسی غزوہ میں شریک نہ ہوسکے ،حضرت ابن عباسؓ کی ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ غزوات میں شرکت کی تھی،حافظ ا بن حجر عسقلانی لکھتے ہیں: قيل لابن عباس قدم حسان اللعين قال فقال ابن عباس ما هو بلعين قد جاهد مع رسول الله صلى الله عليه وسلم بنفسه ولسانه (تہذیب التہذیب،باب من اسمہ حابس:۲/۲۱۷) ابن عباسؓ سے کہا گیا کہ حسان ملعون آیا ہے،فرمایا ملعون کیونکر ہوسکتے ہیں انہوں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ رہ کر اپنے نفس اورزبان سے جہاد کیا ہے۔ لیکن عام تذکرے اس کے خلاف ہیں، غزوۂ خندق میں عورتوں کے ساتھ قلعہ میں تھے آنحضرتﷺ کی پھوپھی حضرت صفیہؓ بنتِ عبد المطلب بھی اسی قلعہ میں تھیں، ایک یہودی نے قلعہ کے گرد چکر لگایا، حضرت صفیہؓ کو اندیشہ پیدا ہواکہ اگر یہودیوں کواطلاع ہوگئی تو بڑی مشکل پیش آئے گی، کیونکہ آنحضرتﷺ جہاد میں مشغول تھے انہوں نے حسان سے کہا اس کو مارو ورنہ یہود سے جاکر خبر کردیگا،انہوں نے جواب دیا تمہیں معلوم ہے کہ میرے پاس اس کا کوئی علاج نہیں،حضرت صفیہؓ نے یہ جواب سن کر خود خیمہ کی چوب اٹھائی اور مردانہ وار نکل کر مقابلہ کیا اور یہودی کو قتل کرکے حسان سے کہا اب جاکر اس کا سامان اتار لاؤ، بولے کہ مجھے اس کی ضرورت نہیں۔(اسد الغابہ:۲/۲) حضرت حسانؓ جان کے بجائے زبان سے جہاد کرتے تھے،چنانچہ غزوہ بنو نضیر میں جب آنحضرتﷺ نے بنو نضیر کے درخت جلائے تو انہوں نے یہ شعر کہا: فھان علی سراۃ بنی لوئی حریق بالبویرۃ مستطیر بنو نضیر اورقریش میں باہم نصرت و مدد کا معاہدہ تھا، اس بنا پر قریش کو غیرت دلاتے ہیں کہ تم بنو نضیر کی جس وقت کہ مسلمان ان کے باغ جلا رہے تھے کچھ مدد نہ کرسکے یہ شعر مکہ پہنچا تو ابو سفیان بن حارث نے جواب دیا: أَدَامَ اللَّهُ ذَلِكَ مِنْ صَنِيعٍ وَحَرَّقَ فِي نَوَاحِيهَا السَّعِيرُ سَتَعْلَمُ أَيُّنَا مِنْهَا بِنُزْهٍ وَتَعْلَمُ أَيُّ أَرْضَيْنَا تَضِيرُ (بخاری،باب حدیث بنی النضیر،حدیث نمبر:۳۷۲۸) یعنی خدا تم کو ہمیشہ اسی کی توفیق دے یہاں تک کہ آس پاس کے شعلوں سے خود مدینہ خاکستر ہوجائے اورہم دور سے بیٹھے بیٹھے تماشادیکھیں۔ ۵ ھ میں غزوہ مریسیع سے واپسی کے وقت منافقین نے حضرت عائشہؓ پر اتہام لگایا، عبداللہ بن ابی ان سب میں پیش پیش تھا، مسلمانوں میں بھی چند آدمی اس کے فریب میں آگئے، جن میں حسان، مسطح بن اثاثہ ،اورحمنہ بنت جحش بھی شامل تھیں، جب حضرت عائشہؓ کی برأت میں آیتیں اتریں تو آنحضرتﷺ نے اتہام لگانے والوں پر عفیفہ عورتوں پر تہمت لگانے کی قرآن کی مقرر کردہ حد جاری رکھی۔(خلاصۃ الوفاء:۲۹) گو حضرت حسانؓ حضرت عائشہؓ پر تہمت لگانے والوں میں سے تھے،لیکن اس کے باوجود جب ان کے سامنے حسانؓ کو کوئی برا کہتا تو منع کرتیں اور فرماتیں کہ وہ آنحضرتﷺ کی طرف سے کفار کو جواب دیا کرتے تھے اور آپ کی مدافعت کرتے تھے۔ ایک مرتبہ حضرت حسانؓ حضرت عائشہؓ کو شعر سنا رہے تھے کہ مسروق بھی آگئے اورکہا آپ ان کو کیوں آنے دیتی ہیں، حالانکہ خدا نے فرمایا ہے کہ افک میں جس نے زیادہ حصہ لیا اس کے لئے بڑا عذاب ہے،فرمایا یہ اندھے ہوگئے اس سے زیادہ اورکیا عذاب ہوگا ،پھر فرمایا بات یہ ہے کہ یہ رسول اللہ ﷺ کے لئے مشرکین کی ہجو کرتے تھے۔(اسد الغابہ:۲/۷) ۹ھ میں بنو تمیم کا وفد آیا، جس میں زبرقان بن بدر نے اپنی قوم کی فضیلت میں چند اشعار پڑھے، آنحضرتﷺ نے حسان کو حکم دیا کہ تم اٹھ کے اس کا جواب دو،انہوں نے اسی ردیف وقافیہ میں برجستہ جواب دیا: إن الذوائب من فهر وإخواتهم قد بنوا سنة للناس تتبع يرضي بها كل من كانت سريرته تقوى الإله وبالأمر الذي شرعوا قوم إذا حاربوا ضروا عدوهم أو حاولوا النفع في أشياعهم نفعوا سجية تلك منهم غير محدثة إن الخلائق فاعلم شرها البدع لو كان في الناس سباقون بعدهم فكل سبق لأدنى سبقهم تبع لا يرقع الناس ما أوهت أكفهم عند الدفاع ولا يوهون ما رقعوا ولا يضنون عن جار بفضلهم ولا يمسهم في مطمع طبع أعفة ذكرت للناس عفتهم لا يبخلون ولا يرديهم طمع خذ منهم ما أتوا عفواً إذا عطفوا ولا يكن همك الأمر الذي منعوا فإن في حربهم فاترك عداوتهم شراً يخاض إليه الصاب والسلع (الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب،باب حسیل بن نویرۃ الاشجعی:۱/۱۰۳) ۱۱ھ میں آنحضرتﷺ نے انتقال فرمایا، مسلمانوں کے لئے اس سے بڑھ کے کوئی غم نہیں ہوسکتا تھا،چنانچہ حضرت حسانؓ نے کئی پر درد مرثیے لکھے جو ابن سعد نے طبقات میں نقل کئے ہیں، ہم ان کے صرف مطلعوں پر اکتفا کرتے ہیں، پہلے مرثیہ کا مطلع ہے۔ الیت حلفہ برغیر ذی دخل منی الیۃ غیر افتاد باللہ ماحملت انثیٰ ولاوضعت مثل النبی بنی الرحمۃ الماد آگے چل کر لکھتے ہیں: امسی نساء عطلن البیوت فما یضر بن خلف فقا ستریا د تاد مثل الرواھب یلبس المسوح وقد الیقن بالیؤس بعد انعمۃ البادی دوسرے مرثیے میں جس کا مطلع ہے ما بال عینک لا تنام کانما کحلت مافیھا ما بکحل الارمد اپنی مصیبت اوررنج وغم کو ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں۔ جنبی یقیت النربلھفی لیتنی کنت المغیب فی الضریح الملحد پھر کہتے ہیں۔ اقیم بعدک بالمدینۃ بینھم بالھف نفسی لیتنی لم اولد چوتھے مرثیے کا پہلا شعر ہے۔ نب المساکین ان الخیر ناوقھم مع الرسول تولی عنھم سحرا (طبقات ابن سعد،جلد۲،قسم۲:۹۰،۹۱،۹۲) آنحضرتﷺ کے بعد عرصہ تک زندہ رہے۔ وفات امیر معاویہؓ کے زمانہ میں وفات پائی ۱۲۰ برس کا سن تھا، بعض لوگوں نے لکھا ہے کہ ۴۰ سے پیشتر انتقال کیا، لیکن یہ صحیح نہیں۔ اہل وعیال بیوی کا نام سیرین تھا جو ماریہ قبطیہ حرم رسول اللہ کی ہمشیرہ تھیں ان سے عبد الرحمن نامی ایک لڑکا پیدا ہوا،اس بناء پر عبدالرحمن اورحضرت ابراہیم بن رسول اللہ ﷺ حقیقی خالہ زاد بھائی تھے۔(اسدالغابہ:۲/۶) مکان جیسا کہ ہم اوپر لکھ چکے ہیں ان کا آبائی مسکن،فارع کا قلعہ تھا؛ لیکن جب ابو طلحہؓ نے بیر حا کو صدقہ کرکے اپنے اعزہ پر تقسیم کردیا اوران کے حصہ میں بھی ایک باغ آیا تو یہاں سکونت اختیار کرلی یہ مقام بقیع سے قریب تھا، امیر معاویہؓ نے اس سے خرید کرکے یہاں ایک قصر بنوایا تھا جو قصر بنی حدیلہ کے نام سے مشہور تھا ۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ ان کو یہ زمین آنحضرتﷺ نے اس صلہ میں دی تھی کہ انہوں نے صفوان بن معطل کا وار برداشت کیا تھا،لیکن یہ صحیح نہیں کیونکہ اول تو وہ کبھی میدان جنگ میں شریک نہیں ہوئے،دوسرے خود اس روایت کی سند مشتبہ ہے،ہم نے جو کچھ لکھا ہے اس کی تائید صحیح بخاری سے ہوتی ہے۔ فضل وکمال آنحضرت ﷺ سے چند حدیثیں روایت کی ہیں ،راویوں میں حضرت براء بن عازبؓ، سعید بن مسیبؓ،ابوسلمہ بن عبدالرحمن ،عروہ بن زبیر، ابو الحسن مولی بنو نوفل ،خارجہ بن زید بن ثابت یحییٰ بن عبدالرحمن بن حاطب اوردیگر حضرات ہیں۔ شاعری حضرت حسانؓ کی سیرت میں شاعری ایک مستقل عنوان ہے،شعر وسخن عرب کا مذاق تھا اورچند قبائل خصوصیت کے ساتھ شاعروں کے معدن تھے،مثلاً قیس، ربیعہ، تمیم، مضر، یمن ،موخر الذکر قبیلہ میں اوس وخزرج کا شمار تھا جن سے حضرت حسانؓ کا آبائی سلسلہ ملتا ہے۔ ان قبائل میں بھی چند مخصوص خاندان تھے،جن کے ہاں شاعری اٰباوا جدادسےوراثت کے طورپر چلی آتی تھی،حضرت حسانؓ بھی ان ہی میں سے تھے،ان کے باپ ،دادا، اوروہ خود اوران کے بیٹے عبدالرحمن اورپوتے سعید بن عبدالرحمن سب شاعر گذرے ہیں۔ ان شاعروں میں کچھ لوگ"اصحاب مذہبات" کے نام سے مشہور ہیں، مذہبات ذہب سے مشتق ہے جس کے معنی سونا ہیں چون کہ بعض شاعروں کے منتخب اشعار سونے کے پانی سے لکھے گئے تھے، اس لئے مذہبہ کہلاتے ہیں بعد میں ہر شاعر کے سب سے بہتر شعر کو مذہبہ کہا جانے لگا، حضرت حسانؓ کے مذہبہ کا مطلع یہ ہے۔ لعمرابیک الخیر حقا لما نبا علی لسانی فی الخطوب ولایدی حضرت حسانؓ شاعری کے لحاظ سے جاہلیت کے بہترین شاعر تھے،اصمعی کہتا ہے شعر حسان فی الجاہلیت من اجودالشعر ایک مرتبہ کعب بن زہیر نے فخر یہ کہا۔ فمن للقرانی شانھا من یجولھا اذا مامضیٰ کعب دفوز جردل تو مرزو(برادر شماخ شاعر مشہور) نے فوارً ٹوکا کہ۔ (طبقات الشعروشعراء ابن قبتیہ:۱۷۰) فلست کحسان الحسام بن ثابت آبادی کے لحاظ سے عرب کے باشندے دوحصوں پر منقسم ہیں ،اہل وبر(دیہات والے )اور اہل مدر(شہر والے) اہل مدر میں مکہ ،مدینہ،طائف کے باشندے شامل تھے باقی تمام ملک قصبات اوردیہات سے بھراپڑا تھا، شعراء عموماً انہی دیہاتوں کے باشندے تھے لیکن چند شاعر شہروں میں بھی پیدا ہوئے ان سب میں حضرت حسانؓ کو بالاجماع فوقیت حاصل ہے۔ (کتاب الاحد:۵۶، اسد الغابہ:۲/۶) خصوصیات شاعری شعر کے اگرچہ مختلف اصناف اورقسمیں ہیں؛لیکن ان میں اصولی حیثیت صرف چار کو حاصل ہے رغبت،رہبت، طرب ،غضب، چنانچہ رغبت میں مدح، شکر، رہبت میں معذرت، طلب رافت، طرب میں شوق تغزل اور غضب میں ہجو، عتاب وحشم داخل ہیں، (کتاب العمدہ:۱/۷۷،۷۸) حضرت حسان کا کلام ان میں سے ہر رنگ میں موجود ہے،اگرچہ ہجو کا رنگ ان سب سے زیادہ تندوتیز ہے خصوصیات شاعری حسب ذیل ہیں: (۱)جدت استعارات:اگرچہ عربوں کی شاعری تمدن کی پروردہ نہیں تھی؛ تاہم اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ تمدن سے متاثر ضرور تھی ،تمدن عرب کی حقیقی صبح صادق قرآن مجید اور آنحضرتﷺ کی ذات بابرکات سے طلوع ہوئی ،قرآن مجید فصاحت و بلاغت کا سب سے بڑا معجزہ ہے اس نے بڑے بڑے زبان آوردوں کو اپنے سامنے خاموش کردیا تھا، اس بنا پر جو شاعر مذہب اسلام میں داخل ہوئے ان میں فصاحت وبلاغت کی ایک نئی روح پیدا ہوئی، حضرت حسان ؓان میں سے سب سے زیادہ تھے۔ قرآن مجید میں صحابہؓ کی تعریف میں لکھا ہے کہ "سِيمَاهُمْ فِي وُجُوهِهِمْ مِنْ أَثَرِ السُّجُودِ" حسانؓ اس کو استعارہ بنا کر حضرت عثمانؓ کے قاتلین کا ذکر کرتے ہیں: نحوا باشمط عنوان السجود بہ یقطع اللیل تسبیحاوقرآن (کتاب العمدہ:۱/۱۸۶) لوگوں نے اس کچے پکے بالوں والے کی قربانی کردی جس کی پیشانی میں سجدہ کا نشان تھا اور تمام رات تسبیح وقرآن خوانی میں گذاراتھا۔ دیکھو اس شعر میں چہرہ کو"عنوان السجود بہ" کے لفظ سے تعبیر کیا ہے جو بالکل جدید استعارہ ہے۔ (۲)اشارہ کی لطافت: اشارہ کی ایک قسم نبتیع یا تجاوز ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ شاعر کسی چیز کا ذکر کرنا چاہتا ہے،لیکن پھر اس سے عمداً گریز کرتا ہے اور ایک ایسی صفت بیان کرتا ہے جس میں وہ چیز بھی صاف طورپر جھلکتی نظر آتی ہے۔ عرب میں سینکڑوں قبیلے صحراؤں اوربیابانوں میں اقامت گزین تھے جو ہمیشہ خانہ بدوش پھراکرتے تھے،جہاں کہیں پانی مل جاتا وہاں قیام کرتے تھے اورجب ختم ہوجاتا تو کسی اور طرف رخ کردیتے ،شاعروں نے اس مضمون کو مختلف طور سے باندھا ہے، لیکن حسانؓ نے جس طرز سے ادا کیا ہے،وہ بالکل اچھوتا اورنہایت ہی لطیف ہے: اولا رجفنۃ حول قبرا بینھم قبر ا بن ماریتہ الکریم المفصل جفنہ کی اولاد اپنے باپ ابن ماریہ کی قبر کے گرد رہتی ہے جو نہایت سخی اور فیاض تھا ،ممدوح چونکہ عرب کی نسل سےتھا ،اس بناء پر اس کی تعریف کے ساتھ ایک ملیح اشارہ کردیا کہ یہ لوگ خانہ بدوش نہیں ؛بلکہ بادشاہ ہیں اوربے خوف وخطر اپنے باپ کی قبر کے ارد گرد رہتے ہیں، ان کا مقام سکونت نہایت سر سبز وشاداب ہے اس بناء پر ان کو مارے مارے پھرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ (۳)کنایہ کی بداعت:عرب شاعر بعض صفات کو کنایہ اورتعریض کی شکل میں پیش کرتا ہے؛ مثلاً اگر کہنا ہوکہ ممدوح نہایت ذی رتبہ اور فیاض ہے تو وہ کہے گا "المجد بین ثوبیہ والکرام فی برویہ" یعنی یہ اوصاف اس کے کپڑوں کے اندر ہیں، حضرت حسانؓ اس کو بالکل نئے انداز سے ادا کرتے ہیں: بنی المجد بیتا فاستقرت عمارہ علینا فاعی الناس ان تیحولا مقصود یہ ہے کہ ہم نہایت بلند رتبہ ہیں، اس کو اس طرح بیان کرتے ہیں کہ مجدد بزرگی نے ہمارے ہاں ایک گھر بنایا ہے اوراس کے ستون اس قدر مضبوط گاڑے ہیں کہ لوگ ہٹانا چاہیں تو نہیں ہٹا سکتے اس میں مجدد کا ایک گھر بنانا، پھر اس کے ستون اپنے یہاں قائم کرنا اور لوگوں کا ان کو ہٹانہ سکنا، یہ بالکل جدید انداز بیان ہے۔ (۴)وزن کی خوبی: اس کا مدعایہ ہے کہ وزن کے لحاظ سے ہلکا ہو، ذیل کے اشعار کس درجہ سبک اورڈھلے ہوئے نکلے ہیں: ما هَاجَ حسَّانَ رُسُومُ المُقَامْ وَمَظْعَنُ الحيِّ وَمَبْنى الخِيامْ والنُّؤْيُ قد هدَّمَ أعْضَادَهُ تقَادُمُ العَهْدِ بِوَادِ تِهامْ قَدْ أدْرَكَ الوَاشُونَ ما أمَّلُوا وَالحبْلُ مِنْ شَعْثاءِ رَثُّ الرِّمَامْ كأَنَّ فَاهاً ثَغَبٌ بَارِدٌ في رصَفٍ تَحْتَ ظِلالِ الْغَمَامْ (نقد الشعر،باب الترصیع:۱/۵،شاملۃ،۳۸) (۵)قافیہ کی خوبی:اس میں الفاظ کی نشست ،جملوں کی ترکیب اورکلام کی سلاست وروانی کے ساتھ ساتھ یہ صفت ہوتی ہے کہ بیت اول کے پہلے مصرع کا مقطع قصیدہ کا قافیہ بن سکتا ہے۔ اس میدان کا مرد صرف امرء القیس ہے، تاہم اور شاعروں نے بھی کوشش کی ہے حضرت حسانؓ نے ایک قصدیدہ لکھا ہے جس کا مطلع یہ ہے: ألم تَسْأَل الرَّبْعَ الْجَدِيدَ التَكَلُّمَا بِمَدْفَعِ أشداَخ ٍفبُرْقَةِ أظلَمَا (نقد الشعر،باب الغلووالاقتصار:۱/۸،شاملۃ۳۸) اس کے بعد کا یہ شعر ہے۔ أبَى رسمُ دارِ الحيِّ أنْ يتكلمَا وهلْ ينطقُ المعروفَ من كانَ أبكَمَا (نقد الشعر،باب الغلووالاقتصار:۱/۸،شاملۃ۳۸) (۶)الفاظ کا حاوی اور جامع ہونا: اس کے یہ معنی ہیں کہ شاعر ایک مفہوم ادا کرتا ہے جس میں وہ تمام چیزیں بیان کردیتا ہے جس میں اس مفہوم کے پورے طورپر ادا ہونے کو دخل ہے ؛مثلا یہ شعر: لم تفتهَا شمسُ النهار بشيءٍ غيرَ أن الشبابَ ليسَ يدومُ (نقد الشعر،باب الغلووالاقتصار:۱/۲۵،شاملۃ۳۸) (۷)قلت مبالغہ: حضرت حسانؓ کی عہد اسلام کی شاعری مبالغہ سے بالکل خالی ہے ظاہر ہے کہ جو شعر مبالغہ سے خالی ہوا وہ بالکل پھیکا اوربے مزہ ہوگا وہ خود کہتے ہیں کہ اسلام جھوٹ سے منع کرتا ہے، اس بنا پر میں نے افراط کو کہ جھوٹ کی ایک قسم ہے بالکل چھوڑدیا ہے۔ (اسد الغابہ:۲/۵) جاہلیت کی شاعری میں بھی مبالغہ کا کم عنصر شامل تھا، نابغہ نے ان کے حسب ذیل شعرمیں اسی نقطۂ خیال سے نکتہ چینی کی ہے: لنا الجَفْنَاتُ الغُرُّ يلمعنَ بالضُّحَى وأَسْيَافُنَا يَقْطُرْنَ مِن نَجْدَةٍ دَمَا (نقد الشعر،باب الغلووالاقتصار:۱/۹،شاملۃ۳۸) اس کے نزدیک "غر" کے بجائے بیض،"ضحی" کے جگہ وحی اور "یقطرن" کے مقام پر "بجرین" کہنا چاہیے تھا۔ لیکن دراصل یہ خیال صحیح نہیں کیونکہ حضرت حسانؓ کو شعر میں پیالوں کی سفیدی بیان کرنا مقصود نہیں ؛بلکہ صرف شہرت اورنباہت کا اظہار مد نظر ہے اور غر سے مشہور چیز کا نام لینا تمام عرب میں عام تھا؛ مثلا یوم اغر، اوریدغرا وغیرہ۔ اسی طرح "ضحی" کے بجائے "دجی"صحیح نہیں ،کیونکہ دن میں وہی چیزیں زیادہ چمکتی ہیں جن کی روشنی نہایت تیز اور شدید ہو اور رات کو ہر چھوٹی اور دھندلی چیز نمایاں ہوجاتی ہے،مثلا ستارے کہ دن کو بھی موجود رہتے ہیں، لیکن ان کی روشنی آفتاب کی وجہ سے ماند رہتی ہے یا چراغ تاریکی میں درندوں کی آنکھیں تک چمک اٹھتی ہیں اور ایک قسم کی مکھی جس کو عربی میں براع اور فارسی میں کمنچہ کہتےہیں بالکل آگ کا شعلہ معلوم ہوتی ہے۔ اسی طرح یقطرن کے جگہ بحیرین،محاورہ عرب کے خلاف ہے عرب میں جب کسی بہادر اورجانباز کی تعریف کی جاتی ہے تو کہتے ہیں سیفہ یقطر دما، یہ کوئی نہیں کہتا کہ سیفہ دما بجری۔ دفاعی نظمیں حضرت حسانؓ کی اسلامی شاعری کا موضوع مدافعت عن الدین یا ہجو کفار ہے،انہوں نے بہت سے کفار کی ہجو لکھی ہے؛ لیکن اس کے باوجود ان کا کلام فحاشی سے بالکل پاک ہے۔ عربوں کے نزدیک ہجو کی غرض محض اپنے قبیلہ کی مدافعت ہوتی تھی، اس بناء پر وہ اپنے اشعار صحیح واقعات میں نہایت موزوں اورمناسب پیرایہ میں نظم کرتے ہیں؛چنانچہ رہیر نے تجاہل کے طور پر یہ اشعار لکھے: وما ادری وسوف اخال ادری اقوم آل حصن ام نساء مجھے معلوم نہیں اور عنقریب معلوم ہوجائے گا کہ آل حصن مرد ہیں یا عورت فان تکن النساء نحئبات فحق لکل محصنۃ ھداء اگر عورتیں ہیں تو ان کو ہدیہ کرنا چاہیے لوگوں کو نہایت گراں گذرا کہ عرب میں سب سے سخت ہجو لکھی گئی تھی۔ حضرت حسانؓ کی ہجو سب دشتم پر مشتمل نہ تھی؛بلکہ مدافعت تھی اوروہ بھی بطریق احسن وبہ پیرائیہ مناسب ،صاحب اسد الغابہ لکھتے ہیں: فكان حسان وكعب يعارضانهم، مثل قولهم في الوقائع والأيام والمآثر، ويذكرون مثالبهم (اسد الغابہ،باب حسان بن ثابت:۱/۲۵۵) یعنی حسان وکعب مشرکین کی رزمیہ اورفخریہ نظموں کا جواب دیتے تھے اوران کے شالب کا تذکرہ کرتے تھے۔ حضرت حسانؓ نے ہجو گوئی اس طرح شروع کی کہ مشرکین میں ابو سفیان بن حارث بن عبدالمطلب ،عبداللہ بن زبعری، عمروبن عاص،ضراء بن خطاب،آنحضرتﷺکی ہجو کرتے تھے، لوگوں نے حضرت علیؓ ؓ سے درخواست کی کہ آپ ان کے جواب میں ہجو لکھیں،فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہوتو میں آمادہ ہوں،آپﷺ کو خبر ہوئی تو فرمایا‘علی اس کام کے لئے موزوں نہیں،اس کام کو انصار کریں گےجنہوں نے تلوار سے میری مدد کی ہے،حضرت حسانؓ نے زبان پکڑ کر کہا میں اس کام کے لئے بخوشی آمادہ ہوں۔ ارشاد ہواکہ قریش کی ہجو کس طرح کرو گے حالانکہ میں بھی انہی میں سے ہوں ،عرض کیا: لأسلنك منهم كما تسل الشعرة من العجي (اسد الغابہ،باب حسان بن ثابت:۱/۲۵۵) میں آپﷺ کو اس طرح نکالوں گا جیسے آٹے سے بال نکالا جائے۔ فرمایا تو تم نسب ناموں میں ابو بکرؓ سے مدد لینا ان کو قریش کے نسب میں اچھی واقفیت ہے۔ (بخاری:۲/۹۰۹،واسد الغابہ:۴/۲) حضرت حسان ؓ، حضرت ابوبکرؓ کے پاس جاتے اوران سے دریافت کرتے تھے ،حضرت ابوبکرؓ بتاتے کہ فلاں فلاں عورتوں کو چھوڑدینا یہ رسول اللہ ﷺ کی دادیاں ہیں ،باقی فلاں فلاں عورتوں کا تذکرہ کرنا، ابو سفیان بن حارث کی ہجو میں یہ اشعار لکھے: وأن سنام المجد من آل هاشم بنو بنت مخزوم ووالدك العبد. ومن ولدت أبناء زهرة منهم كرام ولم يقرب عجائزك المجد. ولست كعباس ولا كابن أمه ولكن لئيم لا يقام له زند. وأن امرأ كانت سمية أمه وسمراء مغموز إذا بلغ الجهد. وانت بین نیط فی آل ھاشم کما نیط خلفت الراکب القدح الفرد (اسد الغابۃ،باب حسان بن ثابت:۱/۲۵۵) تو بولا کہ ان شعروں میں ابوبکرؓ کا حصہ ضرور ہے، اس میں انہوں نے حضرت عبداللہ ادحاب، زبیر، حضرت حمزہ، حضرت صیفہؓ،حضرت عباسؓ اورضراء بن عبدالمطلب کو مستثنیٰ کرکے ابو سفیان کی ماں سمیہ اوراس کے باپ حارث کی ماں سمراء پر طنز کیا ہے۔ (اسد الغابہ:۲/۵) اسی ابو سفیان کی ہجو میں کہتے ہیں: هجوت محمداً فأجبت عنه ... وعند الله في ذاك الجزاء هجوت مطهراً براً حنيفاً ... أمين الله شيمته الوفاء أتهجوه ولست له بكفء ... فشركما لخيركما الفداء فإن أبي ووالدتي وعرضي ... لعرض محمد منكم وقاء (الاستیعاب،حسان بن ثابتؓ) آنحضرتﷺ اس مدافعت سے نہایت خوش ہوتے تھے ایک مرتبہ فرمایا: حسان اجب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم اللهم ايده بروح القدس (تاریخ مدینۃ دمشق،باب ذکر من اسمہ حسان:۱۲/۳۸۴،شاملۃ۳۸) اے حسان میری طرف سے جواب دے،خداوندا روح القدس کے ذریعہ اس کی تائید کی۔ ایک مرتبہ ارشاد ہوا: اهْجُهُمْ أَوْ قَالَ هَاجِهِمْ وَجِبْرِيلُ مَعَكَ (بخاری،باب ھجاء المشرکین،حدیث نمبر:۵۶۸۷) یعنی تم نے مشرکین کی ہجو کو جبریل تمہارے ساتھ ہیں۔ مشرکین پر ان شعروں کا جو اثر پڑتا تھا، اس کو آنحضرتﷺ نے ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے: إن قوله فيهم أشد من وقع النبل (الاستیعاب ،باب حسان بن ثابت الانصاری:۱/۱۰۱) حسان کا شعر ان میں تیر و نشتر کا کام کرتا ہے اب ہم ہجو کے چیدہ اشعار لکھتے ہیں: أتهجوه ولست له بندٍّ فشركما لخير كما الفداء (العقد الفرید،باب قولھم فی الھجاء:۲/۳۱۶،شاملۃ۳۸) تو باایں ہمہ کہ آنحضرتﷺ کا کفو نہیں ان کی ہجو کرتا ہے پس تم میں کا برا اچھے پر قربان ہے۔ اس شعر کا اخیر مصرعہ اس قدر مقبول ہوا کہ ضرب المثل کے طور پر مستعمل ہوتا ہے واشھد ان لک من قریش کال السقب من ولد النعام میں جانتا ہوں کہ تیری قرابت قریش سے ہے ؛لیکن اس طرح جیسے اونٹ کے بچہ کی شتر مرغ کے بچہ سے ہوتی ہے۔ ابن مضرغ نے انہی کا پہلا مصرع اڑا کر امیر معاویہؓ کی ہجو لکھی تھی۔ واشھد ان الک من زیار (طبقات الشعر والشعرا:۲۱۲) وأُمُّكَ سَوْدَاءُ مَوْدُونَة ٌ كَأنّ أنَامِلَهَا الحُنْظُبُ (دیوان حسان بن ثابت، باب أبوكَ أبوكَ، وأنتَ ابنهُ:۱/۲۷) تیری ماں کالی حبشن ہے اور بے انتہا پست قد ہے اور پورگویاحنظب(ایک چھوٹا جانور ہے) ہیں۔ مدح مدح اچھی لکھتے تھے،آل عنان کی تعریف میں جو اشعار لکھے ہیں ان میں سے بعض ہم اس مقام پر نقل کرتے ہیں: یسقون من ورد البریض علیھم یردی یصفق بالرحیق السلسل جوان کے ہاں جاتا ہے وہ اس کو بردی (نہر کا نام ہے) کا پانی صاف شراب میں ملاکر پلاتے ہیں۔ مصعب بن زبیر کی مدح میں ابن قیس نے ایک شعر اسی کے قریب قریب کیا ہے؛ لیکن جو مضمون اس میں ادا ہوا ہے اس میں نہیں ادا ہوا۔ (کتاب العمدہ:۲/۱۰۴) اسی طرح یہ شعر یغشون حتی ماتھم کلابھم لا یسلون عن السوارالقبل اس بات میں اختلاف ہے کہ مدح کا سب سے بہتر شعر کون ہے ۳ شاعروں کے تین شعر اس باب میں سب سے بہتر ہیں؛ لیکن ان میں بھی ترجیح کس کو ہے یہ امرناقابل انفصال ہے،حطیہ حضرت حسانؓ کے شعر کو ترجیح دیتا ہے اورلوگ ابو الطحان اورنابغہ کے شعروں کو بہتر بتاتے ہیں(کتاب العمدہ:۲/۱۱۰) عبدالملک بن مروان کہ اہل زبان اورزبان کا حاکم تھا،اس کا فیصلہ یہ ہے کہ إن أمدح بيت قالته العرب بيت حسان هذا (الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب،باب حسان بن ثابت الانصاری:۱/۱۰۲) اگر مضمون کے لحاظ سے دیکھا جائے تو واقعی عجیب جدت ہے، شاہان غسان کے جودوسخا کو اس پیرایہ میں بیان کرتے ہیں کہ ان کے یہاں مہمانوں کی اتنی کثرت رہتی ہے کہ کتے تک مانوس ہوگئے ہیں اوران کو دیکھ کر نہیں بھونکتے۔ یہ جاہلیت کے اشعار تھے،آنحضرت ﷺ کی مدح میں جو شعر لکھے ہیں اب ان کو بھی سننا چاہیے: متى يبد في الداجي البهيم جبينه يلح مثل مصباح الدجى المتوقد جب آنحضرتﷺ کی پیشانی اندھیری رات میں نظر آتی ہے تو اس کی چمک نہایت روشن چراغ کی طرح ہوتی ہے۔ فمن كان أو من قد يكون كأحمد نظام لحق أو نكال لملحد پس آنحضرتﷺ کا مثل کہ حق کا نظام اور ملحد کو عذاب جان ہیں، کون پیدا ہوا اورکون آیندہ ہوسکتا ہے۔ حضرت عائشہؓ نے ایک مرتبہ آنحضرتﷺ کا ذکر کیا تو فرمایا کہ آپﷺ ایسے ہی تھے جیسا کہ حسانؓ نے کہا ہے۔ (استیعاب:۱/۱۳۰) آنحضرتﷺ مسجد نبوی میں منبر رکھوادیتے تھے،حضرت حسانؓ اس پر کھڑے ہوکر رسول اللہﷺ کی مدح کرتے تھے اورآپ نہایت مسرور ہوتے تھے۔ (استیعاب:۱/۱۲۰) جب بنو تمیم کا وفد آیا اورحسانؓ نے قریش کی مدح میں شعر پڑھے تو سب کے سب بول اٹھے کہ محمد کا خطیب ہمارے خطیب سے اوران کا شاعر ہمارے شاعر سے بہتر ہے۔(استیعاب:۱/۱۳۱) افتخار حصان رزان ما ترن بريبة وتصبح غرثى من لحوم الغوافل (الاستیعاب،باب حسان بن ثابت الانصاری:۱/۱۰۲) یہ شعرحضرت عائشہؓ کی مدح میں ہے ان کو سنایا تو بولیں خیر میں تو ایسی ہوں؛ لیکن تم ایسے نہیں۔ (بخاری:۲/۵۹۷) حسب ذیل اشعار فخر میں ہیں: أهدى لهم مدحاً قلب مؤازره فيما أحب لسان حائك صنع (دلائل الاعجاز للجرجانی،باب اللفظ والاستعارۃ وشواھد:۱/۱۴۹) میں ممدوح کی ایسی مدح کرتا ہوں جس میں قلب کی اعانت شامل ہوتی ہے اور جس کو شعر کی درست کرنے والی اور ماہر زبان پسند کرتی ہے۔ اس میں انہوں نے زبان کو صنعت کلام کا ماہر قرار دیا ہے: إليك أرحنا عازب الشعر بعدما تمهل في روض المعاني العجائب ممدوح کے پاس وہ شعر بھیجے ہیں جو نہایت بعید المعنی ہیں اور جو معانی کے گلشن میں قیام کرچکے تھے۔ غرائب لاقت في فنائك أنسها من المجد فهي الآن غير غرائب جو نوادر تھے تمہارے ہاں عزت سے ایسے مانوس ہوئے کہ اب اجنبی نہیں رہے ہیں۔ مقصد یہ ہے کہ میرے اشعار نہایت بلندی معنی رکھتے ہیں اوران کو اکابر شعراء کے علاوہ دوسرا شخص نہیں باندھ سکتا ہے یہ ممدوح کی قدر دانی ہے جو اس کی مدح میں شعر نکلتے ہیں ورنہ وہ گلستان معانی میں مقیم ہوگئے ہیں کیوں کہ کسی کو اپنا اہل نہیں پاتے۔ وقافِيَةٍ مِثْلِ السِّنَانِ رُزِئْتُها تَنَاوَلْتُ من جُوِّ السماءِ نُزُولَهَا اورایک قافیہ جو تیرکی طرح ہے کیا خوب ہے آسمان سے اس کو اڑالایا ہوں۔ (الشعروالشعراء،باب النمر بن تولب:۱/۶۰) مرثیہ حضرت حسانؓ نے مرثیے لکھے ہیں جن کا ہرہر شعر یکسر سوزوگداز ہے، آنحضرتﷺ کے مرثیے ہم اوپر نقل کرچکے ہیں یہاں ان کے اعادہ کی ضرورت نہیں۔ اخلاقی نظمیں ایک تجربہ کار شاعر، ایک سن رسیدہ بزرگ اورسب سے بڑھ کر ایک مقدس صحابی ہونے کی حیثیت سے حضرت حسانؓ کا موضوع شاعری،وعظ وپند اور اعلیٰ اخلاق کی طرف قوم کو رغبت دلاتا ہے؛ چنانچہ ادب کے متعلق فرماتے ہیں: (دیوان حسان بن ثابت،باب کم للمنازل من شھر:۱/۱۷۲) أصونُ عرضي بمالي لا أدنسهُ لا بَارَكَ اللَّهُ بعدَ العِرْضِ في المالِ میں اپنی آبرو مال کے ذریعہ سے بچاتا ہوں جس مال سے آبرو نہ حاصل ہو وہ اچھا نہیں۔ أحتالُ للمالِ، إن أودى فأجمعهُ ولسْتُ لِلعِرْضِ إن أوْدَى بمُحتالِ مال اگر نہ رہے تو پھر حاصل کیا جاسکتا ہے لیکن آبرو بار بار حاصل نہیں ہوسکتی۔ نرم وگرم ہونے کے متعلق کہتے ہیں۔ وإني لحلوٌ تعتريني مرارة ٌ وإني لتراكٌ لما لمْ أعودِ (دیوان حسان بن ثابت،باب لعمر ابیک الخیر:۱/۶۰) میں شیریں ہوں لیکن مجھے تلخی پیش آجاتی ہے اور میں جس چیز کا عادی نہیں اس کو چھوڑ دیتا ہوں ظلم کا انجام برا ہوتا ہے۔ ودعِ السؤالَ عن الأمورِ وبحثها فَلَرُبّ حافِرِ حُفرَة ٍ هُوَ يُصْرَعُ ہم کسی بات کو کھود کرید کر نہیں پڑتے کیونکہ گڑھا کھود نے والا بسا اوقات اسی میں پچھاڑا جاتا ہے۔ آدمی کو ہمیشہ ایک سا رہنا چاہیے امیر ہو کر آپے سے باہر اورغریب ہوکر غمگین نہ ہونا چاہیے۔ فلا المالُ ينسيني حيائي وعفتي ولا واقعاتُ الدهرِ يفللنَ مبردي (دیوان حسان بن ثابت،باب لعمرابیک الخیر:۱/۶۰) مال ہوتا ہے تو حیا اورحفاظت کو ہاتھ سے نہیں دیتا اورمصیبت آتی ہے تو آرام میں خلل نہیں ڈالتا ہے۔ اپنی موت کو بلانا۔ ولا تكُ كالشاة ِ التي كانَ حتفها بحفرِ ذراعيها، فلمْ ترضَ محفرا (دیوان حسان بن ثابت، لعمرابیک الخیر:۱/۹۶) تم اس بکری کی طرح نہ ہوجاؤ جس نے اپنے کھر سے زمین کھود کر موت بلائی تھی۔ بڑے لوگوں کے کینو ں اور بعض کی حالت وَقَوْمٌ مِنَ البَغْضَاء زَوْرٍ، كأنّمَا بأجْوَافهِمْ، مما تُجِنُّ لنَا، الجَمْرُ (دیوان حسان بن ثابت، وقوم من البغضاء:۱/۱۱۸) بہت سے آدمیوں کے پیٹ میں انگارے بھرے رہتے ہیں۔ يَجِيشُ بما فِيهِ لَنَا الصّدْرُ مِثْلَ ما تجيشُ بما فيها من اللهبِ القدرُ ان کے اندر کینے اس طرح جوش مارتے ہیں جس طرح انگارے پر دیگ کا کھانا تَصُدُّ، إذا ما وَاجهتْني، خُدودُهُم لدى محفلٍ عني كأنهمُ صعرُ تم جب محفلوں میں ان کے متکبرانہ چہرے دیکھتے ہو تو ٹھٹھک کر رہ جاتے ہو۔ بات کا پورا کرنا۔ وإني إذا ما قلتُ قولاً فعلتهُ وأعرضُ عما ليسَ قلبي بفاعلِ میں جب کوئی بات کہتا ہوں تو کر گذرتا ہوں اور جس کام کو دل نہیں چاہتا اس سے اعراض کرتا ہوں۔ ومن مكرهي إن شئتُ أن لا أقولهُ وفجعُ الأمينِ شيمة ٌ غيرُ طائلِ اگر میں نہ کہوں تو کوئی زبردستی کرنے والا نہیں اور دوست کا کسی بات سے روکنا بیکار نہیں ہوتا۔ عذر اورخیانت کی برائی۔ يَا حَارِ مَنْ يَغْدِرْ بِذِمّة ِ جَارِهِ منكمْ، فإنّ محمداً لمْ يغدرِ اے پڑوسی! تم میں جو ہمسایہ ہے دھوکہ کرتا ہے،سن لے کہ محمد دھوکہ نہیں کرتے۔ إنْ تغدروا فالغدرُ منكم شيمة ٌ والغدرُ ينبتُ في أصولِ السخبرِ اگر تم دھوکا کرتے ہو تو وہ تمہارا شیوہ ہے دھوکا سنجر کی جڑوں سے نکلتا ہے وأمانة ُ المريّ، حيثُ لقيتهُ مثلُ الزجاجة ِ صدعها لمْ يجبرِ مری کی امانت تم جہاں پاؤ،اس شیشے کی طرح ہوگی جس کا شگاف درست نہیں ہوسکتا بری باتوں سے درگذر أعْرِضْ عن العَوْراء إنْ أُسْمِعتَها واقعدْ كأنكَ غافلٌ لا تسمعُ بری بات سن کر اعراض کیا کرو اس طرح کہ تم نے اس کو سنا ہی نہیں۔ ذلت کی زندگی بسر کرنا۔ كرهوا الموتَ فاستبيحَ حماهمْ وأقاموا فِعْلَ اللّئيمِ الذّليلِ انہوں نے موت کو ناپسند کیا اس بنا پر ان کی آبروریزی ہوئی أمنَ الموتِ ترهبونَ؟ فإنّ الموت موتَ الهزالِ غيرُ جميلِ اگر تم موت سے بھاگتے ہو تو کمزوری کی موت اچھی نہیں ہوتی۔ متفرق چیدہ کلام حضرت حسانؓ کے متفرق چیدہ اشعار حسب ذیل ہیں: قومٌ إذا حاربوا ضروا عدوهمُ أوْ حاوَلُوا النّفْعَ في أشياعِهِمْ نَفعوا سجية ٌ تلكَ منهمْ غيرُ محدثة إنّ الخلائِقَ، فاعلَمْ، شرُّها البِدَعُ علم معانی میں بدیع کی ایک قسم نہایت لطیف ہے جو بالکل وجدانی ہے وہ یہ کہ کلام کے تمام اجزا متحد اورایک دوسرے میں داخل ہوں، ہر لفظ کا ربط نہایت شدید ہو، یہاں تک کہ پورا جملہ موتی کی ایک لڑی معلوم ہو،مذکورہ بالا شعراسی صفت کا ہے اوراس میں تقسیم نے اور بھی لطف زیادہ کردیا ہے۔(دلائل الاعجاز:۷۴) وَإنّ سَنَامَ المَجْدِ مِن آلِ هاشِمٍ بَنُو بنتِ مخزومٍ، وَوَالدُكَ العَبْدُ مقصود یہ ہے کہ جس کی ہجو کی ہے اس کو غلام ثابت کریں اوریہ بیان کرےکہ اس کا غلام ہونا سب پر روشن ہے اس کو "العبد" کے الف لام نے ظاہر کردیا ہے اگر والدک عبد کہتے تو صرف خبر معلوم ہوتی، غلامی کا آشکار ا ہونا سمجھ میں نہ آسکتا۔ (دلائل الاعجاز:۱۴۰) اھری حدیث الند مان فی فلق الصبح ومرت المغررالغرر یہ شعر اس درجہ موثر ہے کہ بعض اہل مدینہ کا بیان ہے کہ میں جب پڑہتا ہوں،جذبات شجاعت برانگیختہ ہوجاتے ہیں۔ (اصابہ:۳/۷۸) دیوان حضرت حسانؓ کے اشعار عرصہ تک لوگوں کی زبانوں اورسینوں میں محفوظ رہے؛ لیکن بعد میں زینت دہ سفینہ بھی ہوگئے،ابو سعید سکری نے ان کو جمع کرکے ان کی تشریح کی اصابہ میں اس کے حوالے جا بجا موجود ہیں، (اصابہ:۳/۷۸) بعد میں کسی دوسرے شخص نے اس کی شرح لکھی ،ان کا دیوان ہندوستان اور تونس میں طبع ہوا، ۱۹۱۰ء میں انگلستان کے مشہور ادارے گپ میموریل سیرز، نے لندن، برلن،پیرس اورسینٹ پڑ سبرگ کے متعدد قلمی نسخوں و نیز مطبوعہ نسخوں سے مقابلہ کرکے بڑے اہتمام سے اس کو چھاپا۔ لیکن باایں ہمہ اس کی صحت کے متعلق قطعی رائے نہیں دی جاسکتی،احادیث ،لغت اورادب کی کتابوں میں جو اشعار منقول ہیں وہ بے شبہ صحیح ہیں،باقی اشعار کے متعلق اطمینان مشکل ہے۔ حضرت علیؓ کےد یوان میں پہلا شعر الناس فی صورۃ الشہ افکاء ایوھم آدم والام حراء ہے لیکن عبدالقاہر جرجانی کہ ادب کے امام اور حلم معانی وبیان کے موجد تھے اسرار البلاغۃ میں لکھتے ہیں کہ یہ اشعار محمد بن ربیع موصلی کے ہیں۔ (کتاب ذکور:۲۰۳) دیوان حسانؓ کو بھی اسی پر قیاس کیجئے،صاحب استیعاب لکھتے ہیں۔ قال الأصمعي حسان بن ثابت أحد فحول الشعراء فقال له أبو حاتم تأتي له أشعر لينة فقال الأصمعي تنسب إليه أشياء لا تصح عنه (الاستیعاب،باب حسان بن ثابت الانصاری:۱/۱۰۲) اصمعی نے کہا کہ حسان نہایت زبردست شاعر تھے ،ابو حاتم بولے بعض اشعار تو بہت کمزور کہتے تھے،اصمعی نے کہا کہ بہت سے شعر ان کے نہیں ؛بلکہ لوگوں نے ان سے منسوب کردیئے۔ اصمعی دوسری صدی ہجری میں تھا اور تیسری صدی میں انتقال کیا، جب تیسری صدی میں اس قدر آمیزش ہوگئی تھی تو ۱۳ صدیاں گذرنے پر خدا جانے کتنے انقلاب ہوئے ہوں گے۔ اخلاق وعادات ان کا سب سے بڑا امتیاز یہ ہے کہ وہ دربار نبوی کے شاعر تھے اورآنحضرتﷺ کی جانب سے کفار کی مدافعت میں اشعار کہتے تھے اورآنحضرتﷺ نے ان کے لئے دعا فرمائی کہ خدایا روح القدس سے ان کی مدد کر،اس بنا پر بارگاہ رسالت میں ان کو خاص تقرب حاصل تھا ۔ طبیعت کی کمزوری کے باوجود اخلاقی جرأت موجود تھی،ایک مرتبہ مسجد نبوی میں شعر پڑھ رہے تھے،حضرت عمرؓ نے منع کیا تو جواب دیا کہ میں تم سے بہتر شخص کے سامنے پڑھا کرتا تھا۔ (بخاری:۱/۹۰۹،مسند:۵/۲۲۲) جاہلیت میں شراب پیتے تھے؛ لیکن جب سے مسلمان ہوئے قطعی پرہیز کیا، ایک مرتبہ ان کے قبیلہ کے چند نوجوان مے نوشی میں مصروف تھے، حسانؓ نے دیکھا تو بہت لعنت ملامت کی جواب ملا یہ سب آپ ہی کا فیض ہے آپ کا شعر ہے۔ ونشر بھا تمتر کنا ملوکا واسد اما نیھنھنا القاء ہم اسی کے بموجب پیتے ہیں،فرمایا یہ جاہلیت کا شعر ہے ،خدا کی قسم جب سے مسلمان ہوا شراب منہ نہیں لگائی۔ (استیعاب :۱/۱۲۹)