انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حضرت شداد بنؓ اوس نام ونسب شداد نام، ابو لیلیٰ و ابو عبدالرحمان کنیت قبیلہ خزرج کے خاندان نجار سے ہیں اور حضرت حسان بن ثابتؓ شاعر مشہور کے بھتیجے ہیں، سلسلۂ نسب یہ ہے، شداد بن اوس بن ثابت بن منذر بن حرام بن عمرو بن زید مناۃ بن عدی بن عمرو بن مالک بن نجار بن ثعلبہ بن عمرو بن خزرج۔ اوس بن ثابت کہ شداد کے پدر گرامی تھے ،عقبہ ثانیہ اور بدر کی شرکت کا فخر حاصل کرچکے تھے، غزوہ احد میں شہادت پائی، والدہ کا نام صریمہ تھا اور بنو نجار کے خاندان عدی سے تھیں۔ اسلام باپ، چچا اورتقریبا تمام خاندان مشرف بہ اسلام ہوچکا تھا، شدادؓ بھی انہی لوگوں کے ساتھ ایمان لائے۔ غزوات اور عام حالات چونکہ کمسن تھے غزوات میں شاذ ونادر حصہ لیا، امام بخاری نے لکھا ہے کہ غزوہ بدر میں شریک تھے، لیکن یہ صحیح نہیں۔ عہد نبوت کے بعد شام میں سکونت اختیار کی، فلسطین ،بیت المقدس اور حمص میں قیام پذیر رہے۔ وفات ۵۸ھ میں بعمر ۷۵سال انتقال فرمایا، اور بیت المقدس میں دفن ہوئے۔ اولاد حسب ذیل اولاد چھوڑی، لیلیٰ، محمد فضل وکمال فضلاء صحابہ میں تھے، حضرت عبادہؓ بن صامت کہ اساطینِ امت میں تھے اور صحابہؓ کے عہد میں علوم و فنون کا مرجع تھے، فرمایا کرتے تھے لوگ دو طرح کے ہوتے ہیں، بعض عالم ہوتے ہیں لیکن غصہ ور اور مغلوب الغضب ،بعض حلیم اور برد بار ہوتے ہیں؛لیکن جاہل اور علوم وفنون سے بے بہرہ ہوتے ہیں،حضرت شدادؓ ان چند لوگوں میں ہیں جو علم وحلم کے مجمع البحرین تھے۔ (اسد الغابہ:۲/۳۸۷) مسجد جابیہ میں ،ابن غنم حضرت ابو درداءؓ اورحضرت عبادہ بن صامتؓ ٹہل ٹہل کر باتیں کررہے تھے،حضرت شدادؓ بھی آپہنچے اورکہا لوگو! مجھ کو تم سے جو کچھ ڈر ہے یہ ہے کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا تھا کہ میری امت پیروی نفس اور شرک میں مبتلا ہو جائے گی، اخیر کا فقرہ چونکہ تعجب انگیز تھا، حضرت ابودردا ؓ اورحضرت عبادہؓ نے اعتراض کیا اوراس کی سند میں ایک حدیث پیش کی کہ شیطان جزیرہ عرب میں اپنی پرستش سے بالکل نا امید ہوچکا ہے، پھر ہمارے مشرک ہونے کے کیا معنی؟ حضرت شدادؓ نے فرمایا ایک شخص نماز روزہ زکوٰۃ ریاءً ادا کرتا ہے،آپ لوگ اس کو کیا سمجھتے ہیں، سب نے جواب دیا مشرک، فرمایا میں نے اس کے متعلق خود آنحضرتﷺ سے حدیث سنی ہے کہ ان چیزوں کو ریاءً بجالانے والا مشرک ہوتا ہے، حضرت عوف بن مالکؓ بھی ساتھ تھے ،بولے کہ جتنا عمل خالص ہوگا اس کے قبول ہونے کی امید ہے، باقی جس میں شرک کی آمیزش ہے وہ مردود ہوگا اس بنا پر ہم کو اپنے عمل پر اعتماد کرنا چاہیے ،حضرت شدادؓ نے جواب دیا کہ حدیث قدسی میں لکھا ہے کہ مشرک کا تمام عمل اس کے معبود کو دیا جائے گا، خدا اس کا محتاج نہیں، (مسند ابن حنبل:۴/۱۲۶) (یہ قرآن مجید کے بالکل مطابق ہے،ارشاد ربانی ہے،إِنَّ اللَّهَ لَا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ الخ) حدیث میں فہم و بصیرت حاصل تھی اوراصول درایت اور نقدسے کام لیتے تھے، حضرت ابو ذر غفاریؓ جن کے زہد و قناعت اور ترک دنیا کی حدیثوں نے تمام شام میں کھلبلی ڈال دی تھی، ان کے متعلق رائے دیتے ہیں: كَانَ أَبُو ذَرٍّ يَسْمَعُ الْحَدِيثَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيهِ الشِّدَّةُ ثُمَّ يَخْرُجُ إِلَى قَوْمِهِ يُسَلِّمُ لَعَلَّهُ يُشَدِّدُ عَلَيْهِمْ ثُمَّ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُرَخِّصُ فِيهِ بَعْدُ فَلَمْ يَسْمَعْهُ أَبُو ذَرٍّ فَيَتَعَلَّقَ أَبُو ذَرٍّ بِالْأَمْرِ الشَّدِيدِ وہ آنحضرتﷺ سے کوئی حدیث جس میں شدت اورسختی ہوتی تھی سنتے تھے پھر اپنی قوم میں جاکر اس کی اشاعت کرتے تھے بعد کو آنحضرتﷺ اس سخت حکم میں رخصت عطا فرمادیتے تھے،لیکن ابو ذرؓ کو خبر تک نہ ہوئی، اس بنا پر وہ اپنی اسی شدت پر قائم رہے۔ حضرت شدادؓ کے سلسلہ سے جو حدیثیں مروی ہیں ان کی تعداد ۵۰ ہے، انہوں نے اکثرآنحضرتﷺ سے اورکچھ کعب احبار سے حدیثیں سنی تھیں۔ ان سے روایت کرنے والوں میں بہت سے اہل شام ہیں منتخب حضرات کے نام یہ ہیں محمودؓ بن لبید، یعلیٰ، ابو الاشعث سففانی، ضمرۃ بن حبیب، ابو ادریس خولانی، محمود بن ربیع۔ اخلاق اخلاق وعادات یہ تھے کہ نہایت عابد اور پرہیز گار تھے،خدا سے ہر وقت خوف کھاتے تھے بسا اوقات رات کو آرام فرمانے کے لئے لیٹتے پھر اٹھ بیٹھتے اور تمام رات نماز پڑہتے کبھی کبھی منہ سے نکلتا۔ اللھم ان النار قدر حالت بینی وین النوم خدایا آتش جہنم میرے اور نیند کے درمیان حائل ہوگئی ہے۔ اسد بن وداعہ کا یہ فقرہ بھی اس مقام پر قابل لحاظ ہے ،کہتے ہیں: کان شداد بن اوس اذا اخذ مضجعہ من اللیل کان کالحبۃ علی المقلی (اسد الغابہ:۲/۳۸۸) شدادؓ جب رات کو لیٹے تو خوف سے اس قدر بے چین اور متاثر ہوتے جیسے بھاڑ میں چنا۔ نہایت حلیم اور کم سخن تھے،تاہم جب گفتگو کرتے تو دل آویز اور شیریں ہوتی، حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ شداد دو خصلتوں میں ہم سے بڑھ گئے۔ ببیان اذا انطق وبکظم اذا غضب بولنے کے وقت وضاحت بیان میں اورغصہ کے وقت حلم،عفو و درگذر میں۔ حفظ لسان اور کم سخنی کا یہ عالم تھا کہ ایک مرتبہ سفر میں تھے، غلام سے کہا چھری لاؤ، اس سے کھیلیں! ایک شخص نے ٹوکا تو فرمایا: ما تکلمت بکلمۃ مذا سلمت وانا اخطمعھا وازمھا الاکلمتی ھذہ فلا تحفظوھا عنی جب سے مسلمان ہوا، میرے منہ میں لگام رہی،آج یہ کلمہ منہ سے نکل گیا،تو تم اس کو بھول جاؤ۔ مسلمانوں کے انقلاب اور تغیر کو نہایت سختی سے محسوس کرتے تھے ایک مرتبہ رونے لگے لوگوں نے وجہ دریافت کی تو ارشاد ہوا کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا تھا، (مسند ابن حنبل:۴/۱۲۳) کہ مجھے اپنی امت کے خواہش نفس اور شرک میں مبتلا ہونے کا خوف ہے، میں نے عرض کیا کہ کیاآپ کی امت مشرک ہوجائے گی؟ فرمایا ہاں ،لیکن اس طرح کہ سورج ،چاند، بت پتھر کونہ پوجے گی، البتہ ریاء اور مخفی خواہشوں کا غلبہ ہوگا صبح کو آدمی روزہ دار اٹھے گا ؛لیکن جب خواہش تقاضا کرے گی تو وہ روزہ بے خوف و خطر توڑ دے گا۔ (مسند ابن حنبل:۴/۱۲۴) مریضوں کی عیادت کرتے تھے، ابو اشعث صفانی شام کے قریب مسجد دمشق میں تھے کہ حضرت شدادؓ اورصنابجی سے ملاقات ہوئی، پوچھا کہاں کا ارادہ ہے؟ جواب دیا ایک بھائی بیمار ہے، اس کی عیادت کو جاتے ہیں یہ بھی ساتھ ہوگئے، اندر جاکر مریض سے پوچھا کیا حال ہے، بولا اچھا ہوں، حضرت شدادؓ نے کہا، ابشر بکفارات السئیات وحط الخطایا، یعنی میں تم کو مرض کے کفارہ گناہ ہونے کی بشارت سنا تا ہوں، حدیث شریف میں وارد ہے کہ جو شخص خدا کے ابتلا میں اس کی حمد کرے اور راضی برضا رہے تو وہ اس طرح پاک وصاف اٹھتا ہے جیسا کہ ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا تھا۔ (مسند ابن حنبل:۴/۱۲۳) بارگاہِ رسالت میں خصوصیت اورحب رسول اللہ ﷺ کا اندازہ اس سے ہوسکتا ہے کہ فتح مکہ کے دوران میں آنحضرتﷺ ایک روز بقیع تشریف لے گئے تو حضرت شدادؓ ہمراہ تھے اور آپ ان کا ہاتھ پکڑے ہوئے تھے۔ (مسند ابن حنبل:۴/۱۲۴) ایک مرتبہ خدمت اقدس میں حاضر تھے،چہرہ پر اداسی چھائی ہوئی تھی، ارشاد ہوا کیا ہے؟ بولے یا رسول اللہ ! مجھ پر دنیا تنگ ہے فرمایا تم پر تنگ نہ ہوگی شام اور بیت المقدس فتح ہوگا اور وہاں تم اور تمہاری اولاد امام ہوگی، یہ پیشین گوئی حرف بحرف پوری اتری، وہ اپنی اولاد کے ساتھ بیت المقدس میں اقامت گزیں ہوئے اور تمام شام کے علم و فضل میں مرجع بن گئے۔