انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** ہجرت کا مکہ پر اثر ہجرت نبوی ﷺ کا اثر مکہ پر یہ ہوا کہ(۱) قریش کو اپنی سعیٔ ناکام پر ندامت بھی ہوئی اور غصہ بھی آیا ، ندامت اس لئے کہ عین محاصرہ کی حالت میں آپﷺ ان کے بیچ سے ہو کر نکل گئے اور ان کو اس کی خبر بھی نہیں ہوئی، پھر آپﷺ کی تلاش میں قریش کے نوجوانوں کی ایک جماعت (جس میں ہر خاندان کا ایک ایک آدمی تلوار اور لٹ لئے تھا ) نکلی اور غار ثور کے دہانے تک جس میں آپﷺ پوشیدہ تھے پہنچی اور اس قدر قریب ہوگئی کہ حضرت ابوبکر ؓ نے خوف زدہ ہو کر حضورﷺ سے عرض کیا : کفار اس قدر قریب آگئے ہیں کہ اگر اپنے قدم پر ان کی نظر پڑ جائے تو وہ ہم کو دیکھ لیں گے تو آپﷺ نے فرمایا: غم زدہ مت ہو اﷲ ہم لوگوں کے ساتھ ،مگر جب حضورﷺ کے نشان قدم کا کوئی اثر اپنی قیافہ شناسی کی بناء پر اس کے آگے نہ پایا تو اس یقین پر کے آپﷺ اس سے آگے نہیں گئے پوری جماعت واپس ہوگئی پھر باوجود اس اعلان و اشتہار کے کہ جو شخص محمد(ﷺ)کوگرفتار کرکے لائے گا اس کو سو اونٹ دئیے جائیں گے آپﷺ پر قابو نہ پاسکے؛ حالانکہ مکہ سے تین ہی میل پر آپﷺ تھے اور مسلسل تین روز تک وہاں قیام فرما رہے،غصہ اس لئے آیا کہ اسلام کے استیصال کی وہ سازش جو دارالندوہ میں قبائل عرب کے کے متحدہ اجتماع اور اجلاس عام میں رد و کد کے بعد طئے پائی تھی ناکام ہوگئی۔ ۲) یہ خطرہ جس کے انسداد کے لئے دارالندوہ میں اجلاس عام بلایا گیا تھا کہ مسلمان مدینہ منورہ میں جاکر انصار کی حمایت میں طاقت پکڑتے جارہے ہیں اور اسلام پھیلتا جارہاہے کہیں مضبوط طاقت نہ بن جائیں، اب حضورﷺ کے مدینہ منورہ پہنچ جانے کے بعد یہ خطرہ تصور اور خیال کی حد سے نکل کر واقع بن کرسامنے آگیا جس سے ان کے غیظ و غضب میں اور اشتعا ل پیدا ہوگیا۔ ۳) مسلمانوں میں اور کفار قریش میں دراصل وجہ مخالفت یہ تھی کہ بت پرستی کے تمام قبائل عرب کا سینکڑوں برس سے آبائی اور واحد مشترک دین تھا اسلام اس کی جڑ کھودتاتھا اور جن بتوں کو وہ معبود سمجھتے تھے اور جن کے لئے وہ ہر روز اپنی پیشانی رگڑتے اور اپنا حاجت روا عام سمجھتے تھے اسلام ان کو حرف غلط کی طرح مٹادینا چاہتا تھا، اب وہ مدینہ میں مسلمانوں کے اجتماع سے ڈرے کہ اسلامی تحریک اگر قائم رہی اور پھیلتی رہی اور اس کو پھیلنے پنپنے اور مدینہ کی چار دیواری سے باہر نکلنے اور جمنے کا موقع دیا گیا تو ان کے سینکڑوں برس کے آبائی دین کے طلسم کا برباد ہوجانا یقینی تھا۔ ۴)اسی کے ساتھ قریش نے یہ بھی محسوس کیا کہ ان خانما ں برباد اور سخت جان مسلمانوں کو اگر چھوٹ دے دی جائے اور ان کی اسلامی تحریک سے پرخاش نہیں کی جائے تو تمام عرب میں ان کو جو تفوق حاصل ہے وہ جاتا رہے گا اور عظمت و مرجعیت عام کا جو تاج ان کے سر پر ہے وہ اتر جائے گا ۔ ۵)پھر ان کے معاش کا دارومدآر چونکہ شام و فلسطین کی تجارت پر تھا اور وہاں سامان تجارت لے کر جانے کے لئے جو راہ سب سے قریب تر تھی وہ مدینہ کے قریب سے ہو کر جاتی تھی، اس لئے وہ اس یقین پر مجبور ہوگئے کہ اگر اس اسلامی تحریک کو قوت پکڑنے کی مہلت دی جائے گی تو وہ تجارت کی راہ میں روک ٹوک کریں گے اور اس طرح قریش معاشی کاروبار کے تعطل سے بے موت مرجائیں گے۔ ۶)ان وجوہ کی بناء پر قریش نے پہلا قدم یہ اٹھایا کہ حضورﷺ کی ہجرت کے چند ہی روز کے بعد عبداﷲ بن اُبی کو (جو انصار کے قبیلہ اوس و خزرج کا متفقہ لیڈر اور سردار تھا اور انصار نے اس کی تاج پوشی کی رسم ادا کرنے کے لئے تاج تیار کرلیا تھا اور ہنوز اس میں منافقت کی راہ میں بھی اسلام قبول نہیں کیاتھا اور ہنوز مدینہ کے بت پرستوں کی کثیر تعداد اسی کے زیر اثر تھی) اس دھمکی کا خط لکھا : " تم نے ہمارے آدمی کو پناہ دی ہے، ہم خدا کی قسم کھاتے ہیں یا تو تم لوگ اس کو قتل کرڈالو یا تم اس کو مدینہ سے نکال دو یا نہیں تو ہم سب مل کر تم پہ حملہ کردیں گے اور تمھارے جنگجو لوگوں کو قتل کر ڈالیں گے اور تمھاری عورتوں کو مباح ٹھہرا لیں گے یعنی ان پر تصرف کریں گے،اور ساتھ ہی ساتھ جنگجو قبائل عرب کو مذہب کے نام پر اسلام سے اس طرح بھڑکایا کہ تمام قبائل عرب اسلام دشمنی میں ایک دل اور ایک رائے ہوگئے۔ ۷)پھر اسی پر اکتفاء نہیں کیا بلکہ اس خیا ل سے کہ مسلمان مدینہ سے باہر نکلنے کی ہمت نہ کریں اور اسلام کا اثر مدینہ سے باہر نہ پھیلنے پائے عملاً یہ کاروائی کی کہ مسلمانوں کو مرعوب کرنے اور ان کو چھیڑ چھاڑ کرنے اور ان کو تنگ کرنے کے لئے مدینہ کی جانب چھوٹے چھوٹے دستہ بھیجنے لگے۔ علامہ شبلی ؒ نے لکھا ہے : قریش نے ہجرت کے ساتھ ہی مدینہ پر حملہ کی تیاریاں شروع کردیں تھیں، عبداﷲ ابن اُبی کو انھوں نے خط لکھ بھیجا کہ یا محمد(ﷺ) کو قتل کردو یا ہم آکر ان کے ساتھ تمھارا بھی فیصلہ کردیتے ہیں ، قریش کی چھوٹی چھوٹی ٹکڑیاں مدینہ کی طرف گشت لگاتی رہتی تھیں، کرز فہری مدینہ کی چراہ گاہوں تک آکر غارت گری کرتاتھا ( سیرت النبی)