انوار اسلام |
س کتاب ک |
*** فوجی انتظام فوج کی مجموعی تعداد ہرزمانے میں کم وزیادہ ہوتی رہی، بہت سے جیش تھے، ہرایک جیش میں تقریباً دس ہزار سپاہی ہوتے تھے، جیش کے افسر کوامیرالجیش کہتے تھے، امیرالجیش کے ماتحت دس قائد ہوتے تھے، ہرایک قائد کے ماتحت ایک ایک ہزار سپاہی ہوتے تھے، ہرایک قائد کے ماتحت دس نقیب ہوا کرتے تھے، ہرایک نقیب سوسو سپاہیوں کا افسر ہوتا تھا، ہرایک نقیب کے ماتحت دس عارف ہوتے تھے، ہرایک عارف دس دس آدمیوں پرافسر ہوا کرتا تھا، فوج کی وردی میں کبھی کبھی خلفاء اپنے ذوق کے موافق تغیر وتبدل بھی کردیتے تھے، مثلاً معتصم نے ترکوں کی فوج کی وردی پرلیس ٹکوایا تھا، ہرایک جیش کے ہمراہ ایک دستہ بان اندازوں کا ہوتا تھا، ایک کمپنی سفر مینا کی بھی ہوتی تھی، جن کے پاس بیلے اور کلہاڑیاں بھی ہوتی تھیں، بعض اوقات فوج کی وردی نہایت قیمتی کمخواب کی ہوتی تھی، بار برداری کے لیے اونٹوں اور خچروں کی کافی تعداد ہوتی تھی، پیدل فوج کے پاس نیزہ، تلوار اور ڈھال ہوتی تھی، یہ حربیہ کہلاتی تھی، جس پیدل فوج کے پاس تیغ وسپر کے علاوہ تیرکمان بھی ہوتی تھی، اس کورامیہ کہتے تھے، ہرایک سپاہی کے سرپرخود، جسم میں چار آئینہ، ہاتھوں میں آہنتی جوشن ودستانے اور پاؤں میں موزے ہوتے تھے، ہرایک جیش کے ہمراہ انجینئروں کی بھی ایک معقول تعداد ہوتی تھی، چند طبیب اور جراح بھی ضرور ہمراہ ہوتے تھے، دواؤں کا ذخیرہ اور دواسازی کا تمام سامان یعنی سفری شفاخانہ اور زخمیوں کے اُٹھانے اور لانے کے لیے باربرداری کا سامان اور پالکیںا بھی ہوتی تھیں، ہرایک جیش کے ہمراہ ایک رسالہ سواروں کا بھی ہوتا تھا، یہ سوار اعلیٰ درجہ کے نیزہ باز اور تیرانداز ہوتے تھے۔ جب خلافت میں ضعف آگیا اور بنوبویہ مسلط ہوئے توفوجی سرداروں کوجاگرییں دینے کا قاعدہ ایجاد ہوا کہ فوجی افسر خود اس قطعہ زمین کے محاصل سرکاری سے اپنی تنخواہیں وصل کرلیں، اس قاعدے کے جاری ہونے سے کاشت کاروں پرمظالم ہونے لگے، جب ترک یعنی سلجوق خلافت پرمسلط ہوئے توانہوں نے تمام سلطنتِ اسلامیہ میں اپنے یہاں کے دستور کے موافق یہ قاعدہ جاری کیا کہ ہرایک عامل اور ہرایک والی کوایک ایک سپہ سالار قرار دے کراس حصہ ملک کی آمدنی کے اعتبار سے ایک معینہ تعداد کی فوج ہمہ اوقات تیار رکھنے کا ذمہ دار قرار دیا، یعنی فوجی سرداروں کوقطعات ملک دے کران کی تمام وکمال حکومت ہرقسم کا انتظام سپرد کردیا، جن کا فرض تھا کہ ضرورت کے وقت عندالطلب مقررہ تعداد کی فوج لے کرحاضر ہوں، اس طرح تمام ملک کی حکومت فوجی سرداروں کے قبضہ میں آگئی اور قدیم عمال اور جاگیردار سب معطل ہوگئے، شاہی مرکزی خزانہ سے فوج کا تعلق نہ رہا؛ بلکہ فوجی سرداروں کواپنی اپنی جاگیروں سے خود اپنی تنخواہیں وصل کرلینے اور اپنی تنخواہ کوکم وزیادہ کرنے کا اختیار حاصل ہوگیا، خلیفہ کومجبوراً اپنی فوجی نظامت کم کرنی پڑی، جس سے خود بہ خود خلیفہ کی طاقت سلب ہوگئی، سلجوقیوں کے کمزور ہونے پرخلیفہ بغداد نے صوبہ عراق پرپھربراہِ راست اپنا قبضہ جمایا اور اپنی آمدنی کوبڑھاکر وہی پرانا قاعدہ کہ فوج کوانتظامی افسروں کے کام سے کوئی تعلق نہ ہو، جاری کیا۔