انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** حضرت ابوبرزہ سلمیؓ نام ونسب فضلہ نام،ابوبرزہ کنیت، سلسلۂ نسب یہ ہے،فضلہ بن عبداللہ بن حارث بن حبال بن ربیعہ بن وعبل بن انس بن خزیمہ بن مالک بن سلامان بن اسلم بن اقصی اسلمی۔ اسلام وغزوات دعوت اسلام کے ابتدائی زمانہ میں اسلام لائے،اسلام کے بعد جس قدر غزوات ہوئے سب میں آنحضرت کے ہمرکاب رہے،(ابن سعد:۱/۴) فتح مکہ میں خون کا ایک قطرہ نہیں گرا تھا اور رحمت عالمﷺ نے تمام دشمنانِ اسلام کے لیے عفوودرگذر کا اعلان فرمادیا تھا؛چند معاندین جن کا عناد اورجن کی سرکشی حد سے بڑھی ہوئی تھی البتہ اس سے مستثنیٰ تھے اوران کا خون بدر کردیا گیا تھا، ان میں ایک عبداللہ بن خطل تھا، یہ پہلے اسلام لاچکا تھا، مگر اپنے ایک مسلمان خادم کو قتل کردیا اوراسلامی عدالت کے قانون قصاص سے ڈر کر پھر مرتد ہوکر مکہ بھاگ گیا، (زرقانی فتح مکہ) اس کی دو طوائفیں تھیں جو بازاروں میں آنحضرتﷺ کی ہجو گاتی پھرتی تھیں، (ابوداؤد کتاب الجہاد باب فی قتل الامیر صبرا) اس لیے جب مکہ فتح ہوا تو امان کے لیے خانہ کعبہ کا غلاف پکڑ کر لٹک گیا،آنحضرتﷺ سے لوگوں نے کہا کہ وہ کعبہ کے غلاف کی پناہ میں ہے،آپ نے فرمایا اس کو قتل کردو، آقا کا اشارہ پاتے ہی ابوبرزہؓ نے قتل کردیا۔ (ابوداؤد کتاب الجہاد باب فی قتل الامیر صبرا) ابوبرزہؓ آنحضرتﷺ کی زندگی بھر مدینہ میں رہے،حضرت عمرؓ کے زمانہ میں بصرہ میں رہنے لگے،جنگ صفین میں حضرت علیؓ کے ساتھ تھے، نہروان میں خارجیوں کا مقابلہ کیا،پھر خراسان کی فتوحات میں مجاہدانہ شریک ہوئے۔ (اصابہ،جلد۶،تذکرہ نضلہ) وفات زمانہ وفات میں اختلاف ہے،بعض۶۰ اور بعض ۶۵ھ بتاتے ہیں دوسرے روایت زیادہ صحیح ہے؛کیونکہ مروان اورابن زبیر کے ہنگاموں تک زندہ تھے اورکہتے پھرتے تھے ؛کہ یہ سب دنیا کے لیے جھگڑتےہیں، (اصابہ،جلد۶،تذکرہ نضلہ) وفات کے بعد ایک لڑکا مغیرہ یادگار چھوڑا۔ فضل وکمال ابوبرزہؓ کو آنحضرتﷺ کی صحبت سے فیضیاب ہونے کا کافی موقع ملا،اس لیے احادیث نبویﷺ کی متعدبہ تعداد ان کے حافظہ میں محفوظ تھی،انکی مرویات کی مجموعی تعداد ۶۴ ہے، ان میں سے ۲۷ متفق علیہ ہیں،ان کے علاوہ۲ میں بخاری اور ۴ میں مسلم منفرد ہیں۔ (تہذیب الکمال:۴۰۶) ان کے تلامذہ کی تعداد بھی کافی ہے،ذیل کے نام قابل ذکر ہیں۔ مغیرہ، ابو منہال ریاحی، ارزق بن قیس، ابوعثمان نہدی، ابوالعالیہ ریاحی،کنانہ ابن نعیم ابوالزاع، رابسی، ابوالوضی، سعید بن عبداللہ، ابوالسوارعددی، ابوطالوت عبدالسلام وغیرہ۔ (تہذیب التہذیب:۱/۴۴۶) زہد وعفاف حضرت ابوبرزہؓ میں زہد وعفاف کا رنگ بہت نمایاں تھا، نہ کبھی بیش قیمت کپڑا پہنا اور نہ گھوڑے پر سوار ہوئے ،گیروے رنگ کے دوکپڑوں سے ستر پوشی کرتے تھے، ان کے ایک معاصر عائد بن عمرو بیش قیمت کپڑا بھی پہنتے اور گھوڑے پر بھی سوار ہوتے تھے، ایک شخص نے ان دونوں کے درمیان پھوٹ ڈلوانے کے خیال سے عائذ سے آکر کہا، ابو برزہ کو دیکھئے، وہ لباس اور وضع قطع میں بھی آپ کی مخالفت کرتے ہیں، آپ خز (ایک بیش قیمت کپڑا) استعمال کرتے ہیں، اور گھوڑے پر سوار ہوتے ہیں اور وہ ان دونوں چیزوں سے احتراز کرتے ہیں؛لیکن صحابہ کی اخوت لباس اور طرز معاشرت کے اختلاف سے بلند تھی، جواب دیا، اللہ ابوبرزہ پر رحم کرے، آج ہم میں ان کے رتبہ کا کون ہے، مگر یہاں بھی وہی جواب ملا کہ خدا عائذ پر رحم کرے ،ہم میں ان کا ہمرتبہ کون ہے؟ (ابن سعد،ق۱،جز۷:۳۵) مسکین نوازی مسکین نوازی ان کاخاص شعار تھا ،صبح وشام معمولاً فقرا ءومساکین کو کھانا کھلاتے تھے،حسن بن حکیم اپنی ماں کی زبانی بیان کرتے ہیں کہ ابوبرزہؓ ایک کاسہ ثرید (ایک قسم کا عربوں کا مرغوب کھانا) صبح اورایک کاسہ شام بیواؤں،یتیموں اورمساکین کو کھلاتے ہیں۔ (ابن سعد،قسم۱،جزو۷:۳۵) احترامِ نبوت ذات نبویﷺ کے ساتھ کسی قسم کا طنز تمسخر برداشت نہیں کرسکتے تھے، عبداللہ بن زیاد کو حوض کوثر کے متعلق کچھ پوچھنا تھا، اس نے لوگوں سے پوچھا حوض کوثر کے متعلق کون بتاسکتا ہے، انہوں نے ابوبرزہ کا نام لیا، عبیداللہ نے ان کو بلا بھیجا ،یہ گئے، اس نے آتے دیکھا تو بہ سبیل استہزاء کہا کہ تمہارے یہ محمدی ہیں ابوبرزہؓ نے برہمی سے جواب دیا، خدا کا شکر ہے کہ میں ایسے زمانہ تک زندہ رہا جس میں شرف صحبت پر عار دلایا جاتا ہے اوراس برہمی کی حالت میں تخت پر بیٹھ گئے،عبیداللہ نے اپنا سوال پیش کیا، انہوں نے جواب دیا کہ جو شخص اس (حوض کوثر) کو جھٹلائے گا، وہ نہ اس کے پاس جانے پائے گا اورنہ خدا اس کو اس سے سیراب کرے گا یہ کہا اوراٹھ کے چلے آئے۔ (ابن سعد،ق۱،جزو۷:۳۵)