انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** معتزلہ کا انکار معتزلہ اخبار احاد کوحجت مان کراہلِ السنت والجماعت کا مقابلہ نہ کرسکتے تھے، کلامِ الہٰی کا اس کی صفت ہونا مخلوق نہ ہونا، معجزات کا خرق عادت ہونا انہیں ظاہری اسباب سے مسبب نہ بتلانا، عذابِ قبر ان امور کی نفی خبرواحد کوحجت مان کران کے لیئے عملاً ممکن نہ تھی، اُنہوں نے حیلہ کیا کہ عام عقل کوارشادِ رسالت پر غالب کرکے ان تعلیمات کے ارشادِ رسالت ہونے سے ہی انکار کردیا جائے، اخبار احاد کے انکار سے حدیث کا ذخیرہ بہت سمٹ جاتا تھا، بہت کم احادیث رہ جاتی تھیں جوتواترپر پوری اتریں وہ پھران میں بھی تاویل کی راہ اختیار کرتے پورے کا پورا ذخیرۂ حدیث ان کے ہاں مشتبہ تھا؛ تاہم یہ حقیقت ہے کہ انہوں نے بھی اُصولی طور پر حجیتِ حدیث کا انکار نہیں کیا؛ گویا صحیح ہے کہ ان کی فکر عام عقل سے شرعی تقاضوں کے فیصلے لیتی رہی؛ تاہم دائرہ عقلیت اہل السنت والجماعت کے مقابلہ میں دائرۂ اقلیت ہی رہا، حضرت مولانا بدرعالم میرٹھی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: "اسلام میں تقریباً پہلی صدی تک صحیح احادیث کوبلاتفصیل متفقہ طور پر حجت سمجھا جاتا تھا؛ حتی کہ معتزلہ ظاہر ہوئے، ان کے دماغوں پر عقل کا غلبہ تھا؛ انہوں نے حشر ونشر، رویۃ باری تعالیٰ، صراط ومیزان، جنت وجہنم اور اس قسم کی اور احادیث کوقابلِ تسلیم نہ سمجھا اور اپنے اس مزاجی فساد کی وجہ سے اخبار متواترہ کے سوا بقیہ احادیث کا سرے سے انکار کردیا اور بہت سی قرآنی آیات میں جواپنے مذاق کے خلاف دیکھیں تاویلیں کرڈالیں"۔ (ترجمان السنۃ:۱/۹۲) حافظ ابنِ حزمؒ (۴۵۶ھ) فرماتے ہیں کہ: "اہل سنت، خوارج، شیعہ، قدریہ تمام فرقے آنحضرتﷺ کی ان احادیث کوجوثقہ راویوں سے منقول ہوں برابر قابلِ حجت سمجھتے رہے؛ یہاں تک کہ پہلی صدی کے بعد متکلمین معتزلہ آئے اور انہوں نے اس اجماع کے خلاف کیا"۔ (الاحکام:۱/۱۱۴) معتزلہ کا یہ فتنہ ایک علمی فتنہ تھا، اس لیئے انکارِ حدیث میں اُنہیں بہت کچھ پس وپیش کرنا پڑا یہاں تک کہ ایک جماعت نے یہ تصریح کی کہ خبرِواحد اگرعزیز ہوجائے (یعنی اس کے راوی اوّل سے آخر تک ہرطبقہ میں دو،دو رہیں) توچونکہ وہ مفید یقین ہوجاتی ہے، اس لیئے وہ حجت ہوجائے گی، حافظ ابنِ حجرؒ (۸۵۵ھ) نے ابوعلی حیائی سے نقل فرمایا کہ حدیث کی صحت کے لیے اس کا عزیز ہونا شرط ہے، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ انکارِ حدیث سے ان کا مقصد دین سے پوری سبکدوشی حاصل کرنا نہ تھا؛ بلکہ وہ ایک اصولی غلطی تھی جوان کے دماغوںمیں ایک غلط بنیاد پر قائم ہوگئی تھی۔ (ترجمان السنۃ:۱/۹۲) تحریک اعتزال کا بانی واصل بن عطا تھا، جوپہلی صدی ہجری کے آخر میں اُبھرا اور عقل کے ہتھیاروں کی تیزی میں بہت سے ذخیرۂ حدیث کوکچلتے ہوئے آگے نکل گیا، دوسری صدی میں حضرت امام شافعی رحمہ اللہ اُٹھے اور آپ نے سب سے پہلے اس فتنہ انکارِ حدیث کا ردکیا۔