انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** عبدالرحمن کی زندگی پر تبصرہ عبدالرحمن بن امیہ کی زندگی کے حالات نہایت مختصر اور مجمل طور پر بیان ہوچکے ہیں ؛لیکن اس عجیب وغریب اور دنیا کے عظیم الشان شخص کی زندگی کا صحیح تصور کرنے کے لیے یہ حالات کافی نہیں ہیں بیس سال کی عمر تک اس کا غالب شغل کتب بینی اور علمی مجالس کی شرکت تھی فنو سپہ گری سے واقف ہونا ضروری ولازمی سمجھاجاتا تھا بیس سال کی پر راحت زندگی کے بعد اس زنددگی کا ایک ایسا دور آیا کہ چوروں اور ڈاکوؤں کی طرح اپنے آپ کو چھپاتا پھرتا تھا اور روئے زمین کا ہر انسان جو اس کو نظر آتا ہے اپنا قاتل اور خون کا پیاسا وہی معلوم ہوتا ہے اس کے پاس کھانے کو روٹی اور پہننے کو کپڑا تک نہ تھا چند سال اس حالت میں گزارنے اور جنگلوں میں صحراؤں اور ملکوں میں آوارہ رہنے کے بعد وہ ملک کا مالک اور بادشاہ بن جاتا ہے لیکن یہ بادشاہت کوئی تر لقمہ یاشربت کاگھونٹ نہ تھا بلکہ مصیبتوں اور محنتوں کی ایک پوٹ تھی جو اس کےسرپر رکھ دی گئی تھی اگر عبدالرحمن کی جگہ دوسرا کوئی شخص ہوتا تو وہ شروع ہی میں ناکام ہوکر برباد ہوجاتا ایک تنہا اجنبی شخص تھا اس کے ساتھ کسی قوم کو کوئی خصوصی محبت نہ ہوسکتی تھی لیکن اس نے جس دانائی مآل اندیشی دور بینی اور ہوشیاری سے کام لیا ہے یہ اسی کا حصہ تھا۔ ساتھ ہی وہ اعلی درجہ کا سپہ سالار اور شمشیر زن سپاہی ثابت ہوا حالانکہ اندلس میں داخل ہونے سے پہلے اس کو سپہ سالاری اور تیغ زنی کا کوئی تجربہ نہ تھا اس نے کسی میدان اور کسی لڑائی میں کوئی نکتہ چینی کرسکے،جن لڑائیوں یا نکتہ چینیوں میں اس کے بڑے بڑے تجربہ کار سپہ سالار ناکام رہ جاتےتھے ان مہموں کو عبدالرحمن جاکر فوراً سرکرلیتا تھا ،کسی موقع پر اس کے ہاتھ پاؤں نہیں پھولے اور وہ حواس باختہ نہیں ہوا حالانکہ بارہا اس پر ایسی مصیبتیں نازل ہوئیں اور اس کے خلاف ایسی بغاوتوں مسلسل ہوئیں کہ دوسرا شخص اس جگہ ہوتا تو عقل ومذہب کی پابندی میں نہ رہ سکتا،یاتو احمقوں کی طرح اپنے آپ کو ہلاک کردیتا یا بزدلوں کی طرح ذلیکل ہوکر بھاگ جاتا مگر حقیقت یہ ہے کہ عبدالرحمن نے اس بات کا موقع ہی نہیں دیا کہ اس کی ہمت کی انتہاء اور اس کے استقلال کی آخری سرحد کا کسی کو اندازہ ہوسکے اس نے بڑی سے بڑی ہمت دکھائی لیکن اس کے معتدل انداز اور متانت آمیز طرز عمل سے ہمیشہ یہی ظاہر ہوا کہ وہ اس سے بڑھ کر ہمت دکھاسکتا ہے۔ اس نے کوئی کام ایسا نہیں کیا جس سے اس کی بےدوقوفی ثابت ہوسکے بلکہ اس کے ہر ایک کام میں اس قدر دانائی اور دور اندیشی پائی گئی کہ اس سے بڑھ کر دانائی اور دوراندیشی کی کسی سے توقع ہی نہیں کی جاسکتی تھی۔ اس کی تمام زندگی یعنی مدت حکمرانی ہم کو جنگ وپیکار کے ہنگاموں سے پر نظر آتی ہے اور کسی کےخیال بھی اس طرف نہیں جاسکتا کہ امیر عبدالرحمن نے ملک اندلس میں کوئی ایسا کام بھی کیا ہوگا جس کی ایک پرامن وامان سلطنت کے سلطان سے توقع ہوسکتی ہے مگر جب معلوم ہوتا ہے کہ امیر عبدالرحمن نے اندلس میں علوم وفنو کے رواج دینے کی کوشش میںکامیبی حاصل کی اور اس ملک کے اندر اپنے خادان کی حکومت کو مستقل بنانے کے لیے علم کے رواج دینے اور تمام ملک میں مدارس قائم کرنے کو سب سے زیادہ ضروری سمجھا تو انسان حیران رہ جاتا ہے اور اس مدبر ومآل اندیش شخص کی فہم وفراست پر عش عش کرنے لگتا ہے۔ امیر عبدالرحمن نے شہر قرطبہ اور اکثر شہروں کی شہر پناہیں تعمیر کرائیں،اندلس کے بہت سے شہروں اور قصبوں میں جہاں ضرورتیں تھیں مسجدیں بنوائیں اور شہر قرطبہ میں ایک ایسی مسجد بنوائی جس کا ثواب روئے زمین پر دستیاب نہ ہوا تھا اس مسجد کی تعمیر اگرچہ امیر عبدالرحمن اپنی زندگی میں پوری نہ کرسکا اور ناتمام ہی چھوڑکف فوت وہگیا مفر اس کی بنیاد جس وسیع پیمانے اور خوبصورت طریقے پر اس نے رکھوائی تھی ختم ہونے کے بعد اس کے بانی ہی کی علوہمت اور بلند نظری پر دلیل ہوئی ،مسجد قرطبہ کی خوبصورتی اور حسن تدبیر نے بہت سے ضعیف الاعتقادومسلمانوں کی نگاہ میں اس مسجد کو خانۂ کعبہ کی طرح باعظمت ومقدس بنادیاتھا حالانکہ تمام مسجدیں ایک ہی مرتبہ رکھتی ہیں ،شوق عمارات میں امیر عبدالرحمن کا مرتبہ ہندوستان کے شاہجہاں سے بڑھ کر ہے تو رائے تدبیر میں وہ ارسطو کاہمسر نظر آتا ہے ملک اندلس میں اپنی سلطنت قائم کرلینا تیمور ونپولین کی فتوحات سے بڑھ کر چڑھ کر مرتبہ رکھتا ہے۔ علوم وفنون کی سرپرستی میں وہ ہارون الرشید ومامون الرشید سے کم نہ تھا ڈ بلکہ ہاروم ومامون کے بعد خاندان عباسیہ میں علوم وفنو کے ایسے قدر دان پیدا نہ ہوسکے ؛لیکن عبدالرحمن کی اولاد میں ایسے لوگ بھی پیدا ہوئے جو ہارون ومامون سے بڑھ کر علوم وفنون کے خادم ہوئے اور اسی لیے قرطبہ نے بغداد سے زیادہ شہرت حاصل کی ،ابن حیان لکھتا ہے کہ عبدالرحمن بڑا رحم دل اور شائستہ مزاج شخص تھا اس کی تقریر نہایت فصیح وبلیغ ،اس کی قوت مدرکہ نہایت تیز اور نکتہ رس تھی معاملات میں اپنی رائے جلدی قائم نہ کرتا تھا ،مگر قائم کرلینے کے بعد پورے استقلال اور مضبوطی کے ساتھ اس کی تکمیل وتعمیل کی طرف متوجہ ہوجاتا تھا ،مگر اہم معاملات درپیش ہونے پر سلطنت کے تجربہ کار اہل کاروں اور مشیروں سے مشورہ کرتا تھا،عبدالرحمن جانباز دلاور اور صف شکن بہادر تھا میدان جنگ میں سب سے پہلے خود حملہ آور ہوتا تھا اس کا چہرہ دوست اور دشمن دونوں کے لیے یکساں ہیبت وجلال ظاہر کرتا تھا ،جمعہ کےدن جامع مسجد میں خطبہ پڑھتا بیماروں کی عیادت کوجاتا اور عام خوشی کے جلسوں اور شادیوں میں شوق سے شریک ہوتا ۔ امیر عبدالرحمن کے عہد حکومت میں حسب ذیل اشخاں یکے بعد دیگرے حاجب مقرر ہوئے تھے ،تمام بن علقمہ ،یوسف بن بخت ،عبدالکریم بن محران،عبدالرحمن بن مغیث،منصور خواجہ سرا،امیر عبدالرحمن نے اگرچہ بعض اشخاص کو وزارت پر نامزد کیا مگر اس کا کوئی ایک وزیر ایسا کبھی نہیں ہوا کہ اس نہ اسی کے مشوروں پر عمل کیا ہو اس نے ایک مجلس امراء مقرر رکھی تھی جس سے انتظام ملکی میں مشورہ لیتا تھا ،اس مجلس مشورت کے ارکان یہ تھے ابوعثمان،عبداللہ بن خالد ،ابوعبیدہ ،شہید بن عیسی،ثعلبہ بن عبید،آثم بن مسلم۔