انوار اسلام |
س کتاب ک |
|
*** صحابہ کرام ؓ کی فیصلہ کن حیثیت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث اورآپ کے کسی عمل کی مرویات میں کسی قسم کا اختلاف ہو تو صحابہ کرام کے عمل کوفیصلہ کن حیثیت حاصل ہوتی ہے،صحابہ موضوع حدیث سے خارج کردیئے جائیں تو علم حدیث کا سمجھنا سمجھانا بہت مشکل ہوجاتا ہے،صحابہ وہ روشنی کے مینار ہیں،جن کے سایہ میں حدیث کا مطالعہ نتیجہ خیزی پیدا کرتا ہے اور واقعی انہیں اس باب میں فیصلہ کن حیثیت حاصل ہے،امام السنن حضرت امام ابوداؤد السجستانی (۲۷۵ ھ) لکھتے ہیں: "قَالَ أَبُو دَاوُد إِذَا تَنَازَعَ الْخَبَرَانِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نُظِرَ إِلَى مَاعَمِلَ بِهِ أَصْحَابُهُ مِنْ بَعْدِهِ"۔ (سنن ابی داؤد:۱/۳۷۶، مع البذل،حدیث نمبر:۶۱۸، موقع الإسلام) ترجمہ: جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی موضوع پر دو مختلف روایتیں ملیں تو انہیں حل کرنے کے لیے یہ دیکھا جائے گا کہ آپ کے صحابہ نے آپ کے بعد کیا عمل کیا ہے۔ اس سے واضح طورپر پتہ چلتا ہے کہ حدیث کے موضوع میں صحابہ بھی داخل ہیں اور ان کے اقوال واعمال کے بغیر مشکلات حدیث کو حل نہیں کیا جاسکتا،یہ انہی کے اعمال ہیں جن کی روشنی میں تعلیم نبوت کی تفہیم ہوتی ہے۔ حافظ ابوبکرجصاص رازی (۳۷۰ھ) لکھتے ہیں: "إذكان متى روي عن النبي عليه السلام خبران متضادان وظهر عمل السلف بأحدهما كان الذي ظهر عمل السلف به أولى بالإثبات"۔ (احکام القرآن:۱/۱۷، طبع:۱۳۴۱ھ) ترجمہ:جب حضورﷺ سے دوحدیثیں اس طرح کی مروی ہوں جوآپس میں ٹکراتی ہوں اور سلف کا عمل ان میں سے کسی ایک پرہوتو سنتِ قائمہ وہ ہوگی جس پر سلف کا عمل ہو۔ حافظ ابن عبدالبر مالکیؒ (۴۶۳ھ) حضرت امام محمدؒ (۱۸۹ھ) سے روایت کرتے ہیں: "روى محمد بن الحسن عن مالك بن أنس أنه قال إذا جاء عن النبيﷺ حديثان مختلفان وبلغنا أن أبا بكر وعمر عملا بأحد الحديثين وتركا الآخر كان في ذلك دلالة أن الحق فيما عملا به"۔ (التمہید:۳/۳۵۳) ترجمہ:آنحضرتﷺ سے جب دومختلف حدیثیں مروی ہوں اور ہمیں یہ بات پہنچے کہ حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ نے ایک پر عمل کیا ہے اور دوسری کوچھوڑدیا ہے تواس سے پتہ چلے گا کہ حق وہ ہے جس پر ان کا عمل ہوا۔ امام طحاویؒ (۳۲۱ھ) لکھتے ہیں: اختلافِ آثار میں عمل امضار کا اعتبار کیا جائے گا، جس بات پر پچھلوں کا عمل پایا جائے اسے پہلی بات کا ناسخ سمجھا جائے گا، آپ لکھتے ہیں: "فلما تضادت الآثار في ذلك، وجب أن ننظر إلى ماعليه عمل المسلمين، الذي قد جرت عليه عاداتهم، فيعمل على ذلك، ويكون ناسخا لماخالفه"۔ (طحاوی:۱/۳۴۱) امام زہریؒ نے ایک دفعہ دومتعارض حدیثیں روایت کرکے ایک حدیث جوناسخ قرار دے دیا؛ لیکن خلفائے راشدین کا عمل دوسری روایت پر تھا، اس پرمحدثین بلکہ امام زہری کے شاگرد اُن پرجن الفاظ میں برسے وہ بھی دیکھ لیجئے، حافظ ابن عبدالبر لکھتے ہیں: "وهذا مماغلط فيه الزهري مع سعة علمه وقد ناظره أصحابه في ذلك فقالوا كيف يذهب الناسخ على أبي بكر وعمر وعثمان وعلي وهم الخلفاء الراشدون"۔ (التمہید:۳۳۲) ترجمہ:امام زہریؒ نے اس وسعت علمی کے باوجود یہاں غلطی ہے آپ کے اصحاب نے ان سے اس باب میں مناظرہ کیا ہے وہ کہتے ہیں یہ کس طرح ہوسکتا ہے کہ ان حضرات کوناسخ کا پتہ نہ چلے وہ خلفائے راشدین ہوں۔ صحابہ کرام کی پیشوا ہونے کی حیثیت Authoritative Status اہل حق میں ہمیشہ مسلم رہی ہے، امام اعظم اورامام احمد تو ان کی پیروی کو واجب قرار دیتے ہیں، یہی حضرات قافلہ اسلام کا ہر اول دستہ تھے،ان کے بعد آنے والے اسی لیے توتا بعین تھے کہ یہ حضرات متبوعین تھے،اگر ان کی پیروی جاری نہ ہونی ہوتی تو اس امت کی دوسری صف کبھی تابعین کا اعزاز نہ پاتی، جلیل القدر تابعی خلیفہ راشد حضرت عمر بن عبدالعزیز (۱۰۰ھ) صحابہؓ کی دینی بصیرت کا ان پر شکوہ الفاظ میں ذکر کرتے ہیں: "فَارْضَ لِنَفْسِكَ مَارَضِيَ بِهِ الْقَوْمُ لِأَنْفُسِهِمْ فَإِنَّهُمْ عَلَى عِلْمٍ وَقَفُوا وَبِبَصَرٍ نَافِذٍ كَفُّوا وَهُمْ عَلَى كَشْفِ الْأُمُورِ كَانُوا أَقْوَى وَبِفَضْلِ مَاكَانُوا فِيهِ أَوْلَى فَإِنْ كَانَ الْهُدَى مَاأَنْتُمْ عَلَيْهِ لَقَدْ سَبَقْتُمُوهُمْ إِلَيْهِ"۔ (ابوداؤد، كِتَاب السُّنَّةِ،بَاب لُزُومِ السُّنَّةِ،حدیث نمبر:۳۹۹۶، شاملہ، موقع الإسلام) ترجمہ:تم اپنے لیے وہی (عقیدہ اور عمل) پسند کرو جوصحابہؓ نے اپنے لیے پسند کیا تھا، وہ علم پر پوری طرح جمے تھے اور دین پر گہری نظر رکھتے تھے اور علم وفضل میں وہ تم سے بہت آگے تھے؛ اگرتم یہ سمجھے بیٹھے ہوکہ تم (ان سے ہٹ کر) راہِ راست پر ہوتوتم اس کے مدعی ہوکر دین میں تم ان سے آگے نکل گئے۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز کی پوری کوشش تھی کہ امت کسی مرحلے پر بے مہارنہ رہے، شاہراہ اسلام کے ان پیشواؤں کو پیشوا ہی سمجھنا چاہئے،اقبال نے قوم کو قطار میں دیکھنا چاہاتو اس نے بھی کہا ؎ من کجا نغمہ کجا ساز سخن بہانہ ایست سوئے قطارمے کشم ناقہ بے زمام را حضرت عمربن عبدالعزیز کی یہ نصیحت کہ اپنے لیے وہی عقیدہ اورعمل پسند کرو جو صحابہ نے اپنے لیے کیا تھا کہاں ہے؟ سنن ابوداؤد جیسی حدیث کی مرکزی کتابوں میں اس قسم کی نصیحتوں کا ہونا پتہ دیتا ہے کہ صحابہ کی شخصیات کریمہ بے شک علم حدیث کا موضوع ہیں اوران کے اعمال واقوال کو جانے بغیر تعلیمات رسالت کو ان کے صحیح پیمانے میں اتارنا کسی طرح ممکن نہیں یہی وجہ ہے کہ حدیث کی تقریبا ہر کتاب میں صحابہ کے اعمال واقوال کو قرار واقعی جگہ دی گئی ہے اورحق یہ ہے کہ ان کا اتفاق واجماع ہی علم صحیح اور حجت ثابتہ ہے۔ ( تفصیل کیلیے دیکھئے: التمہید:۴/۲۶۷)